9
Monday 15 Jun 2020 00:59

امام خمینیؒ کے دور کی جیوپولیٹیکل صورتحال(3)

امام خمینیؒ کے دور کی جیوپولیٹیکل صورتحال(3)
تحریر:  محمد سلمان مہدی

زیادہ تر لکھنے والوں نے امام خمینیؒ کی انقلابی زندگی کو 1963ء کے واقعات سے شروع کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن سے امام خمینیؒ  کو ایران کے سیاسی حالات میں دلچسپی تھی۔ محمد علی شاہ قاجار کے دور حکومت سے امام خمینیؒ ملکی سیاسی تحولات سے متعلق خبروں میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔ 1907ء کے معاہدے کے تحت ایرن کو روس اور برطانیہ نے باقاعدہ اپنے درمیان تقسیم کر لیا تھا، اس برس تہران میں امام حسین (ع) کی ولادت کی سالگرہ کی مناسبت سے جشن کی محفل میں عالم دین سید جمال الدین واعظ اس وقت کے دگرگوں سیاسی حالات پر عوام کو خبردار و بیدار کر رہے تھے۔  اسی سال چند روز بعد نیمہ شعبان کی مناسبت سے خمین میں امام خمینی نے اپنے گھر میں جشن کا پروگرام رکھا۔ یہ بچوں کا پروگرام تھا مگر بڑوں نے جب گلی سجی دیکھی تو سمجھا کہ شاید دعوت عام ہے، وہ بھی شریک ہوئے۔ بچے مشکل میں پھنس گئے تو شیخ جعفر صاحب کو خطاب کے لئے مدعو کیا گیا۔  انہوں نے خمین میں اسی موقف کو دہرا دیا، جو تہران میں سید جمال نے بیان کیا تھا۔ پراسرار علوم کی جدید اصطلاح میں کہیں تو گویا ٹیلی پیتھی کا عمل تھا، یا سینہ بہ سینہ حق پر مبنی موقف لوگوں تک پہنچ رہا تھا۔

جو بھی تھا، لگتا یوں ہے کہ یہ اللہ کی مشیت تھی کہ سید روح اللہ بچپن سے ان معاملات میں دلچسپی لیں اور وہ اسی دور سے انقلابی تھے، لیکن جس طرح ہر انقلابی ارتقائی عمل سے گزرتا ہے، وہ بھی ان مراحل سے گزرے۔  والد کی شہادت، داغ یتیمی و یسیری کے باوجود ان کی شخصیت نکھر کر سامنے آرہی تھی۔ ان کے دور میں ذاتی، خاندانی، علاقائی، ملکی و بین الاقوامی نوعیت کی مشکلات بیک وقت نازل ہوئیں تھیں اور جس طرح لوہا تپ کر کندن ہوتا ہے، وہ مشکلات کی بھٹی میں سرخ رو ہو رہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران روس اور برطانیہ دونوں ہی ایران میں مداخلت کر رہے تھے۔ ایران کی مرکزی حکومت اتنی طاقتور نہیں تھی کہ روس، برطانیہ و فرانس کی مداخلت کو روک سکتی۔ حتیٰ کہ اس کی سکیورٹی کا نظام بھی غیر ملکیوں کے کنٹرول میں تھا۔ خمین ایک دور افتادہ علاقہ تھا، وہاں بھی روسی جتھے حملہ آور تھے۔

یہ بڑی سامراجی طاقتیں عام ایرانیوں کو زبردستی اس جنگ میں لڑنے پر مجبور کرنا چاہتیں تھیں۔ وہ اپنی افواج کے کھانے پینے اور دیگر ضرورریات کے لئے ایران کے اندر لوٹ مار کیا کرتیں تھیں۔ گندم سمیت دیگر فصل، سبزی، پھل سب کچھ لوٹ لیا کرتے تھے اور کہیں کہیں انتہائی کم داموں زبردستی خرید بھی لیا کرتے تھے۔ اس دوران ایران میں مقامی سطح پر بھی لٹیرے سرگرم تھے۔ شہر خمین میں ان دونوں قسم کے لٹیروں سے اپنی جان، مال، عزت اور سرزمین کے دفاع کے لئے مقامی لڑکے اور جوان مورچہ زن ہوئے تو سید روح اللہ اس ٹیم کا بھی اٹوٹ انگ تھے۔ لڑکپن اور نوجوانی کے دور میں انہوں نے میرزا کوچک خان کی جنگل تحریک کیلئے امدادی سامان بھی بھیجا۔ ان کے بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور جوانی کے دور کے چند اہم واقعات ثابت کرتے ہیں کہ وہ ملکی تحولات سے لاتعلق بھی نہیں تھے بلکہ وہ اس دور کی مقاومتی انقلابی تحریک کا ایک گمنام کردار بھی تھے تو دیگر نامور کرداروں کے حامی اور بعض اوقات مددگار بھی تھے۔

اس دور میں بھی ایران میں بعض علمائے دین نے شجاعانہ انداز میں عالم دین ہونے کا حق ادا کیا۔ عوامی اسلامی بیداری، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے دریغ نہیں کیا۔ مگر دوسری طرف صورتحال یہ رہی کہ اغیار کے آگے سرنگوں حکمران یا جو بذات خود دین دشمن حکمران وقت تھے، انہوں نے ان خالص و مخلص علمائے کرام کے مابین اور ان کے حامیوں کے مابین تفرقہ ایجاد کرنے کے لیے فیک نیوز کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ ایسے حکمرانوں نے عوام کی جہالت اور خواص کی بے بصیرتی کا فائدہ اٹھایا۔ قاجاری دور حکومت میں آیت اللہ شیخ فضل اللہ نوری کی مظلومانہ شہادت اس کی ایک عبرتناک مثال ہے۔ رضا خان پہلوی کے دور میں حرم امام رضا (ع) سے متصل مسجد گوھر شاد مشھد کا محاصرہ اور حکومت کی پالیسی کے مخالفین کا قتل عام بیک وقت ملت ایران اور علمائے دین کی مظلومیت اور شجاعانہ کربلائی قیام کی ایک مثال ہے۔ لیکن جہاں شیخ فضل اللہ نوری جیسے شجاع شیعہ اسلامی فقہاء اپنا حسینی کردار ادا کر رہے تھے تو وہیں شیخ ابراہیم زنجانی جیسے لوگ بھی تھےو جو علماء کے لباس میں تھےو جو باقاعدہ فری میسن کے آلہ کار تھے۔ اسی ابراہیم زنجانی نے قاضی شریح کی طرح شیخ نوری کو سزائے موت سنائی۔

سید روح اللہ خمینی کے سامنے ایران کی عبرتناک تاریخ ایک کھلی کتاب کی مانند تھی۔ ان کے دل و دماغ میں پچھلے واقعات گویا عبرتہائے تاریخ کی حیثیت سے نقش تھے۔ وہ اپنے ہم عصر اور پیش رو انقلابیوں کی خامیوں سے بھی آگاہ تھے۔ اسی لئے وہ پرفیکٹ ٹائمنگ کے ساتھ عملی اقدامات کرتے۔ "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے مقابلے پر انہوں نے "متحد کرو اور مقاومت کرو" کی جوابی تدبیر اختیار کی۔ اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ امام خمینیؒ نے حکمی زادہ کو بروقت جواب کیوں لکھا اور کیوں آیت اللہ بروجردی کو قم آنے کی دعوت دی اور آیت اللہ بروجردی نے بھی بعض مواقع پر شاہ ایران اور میڈیا کے سامنے امام خمینیؒ کو اپنے نمائندے کے طور پر متعارف کروایا۔ حوزہ علمیہ میں بھی ان کی علمی حیثیت منفرد رہی۔ طول تاریخ میں امام خمینیؒ جیسی مجموعہ اضداد ہستی کی مثال نہیں ملتی۔ مولا امیر المومنین علی علیہ السلام سمیت معصومین علیہم السلام کی بات اور ہے۔  مگر مکتب معصومین علیہم السلام کے پیروکاروں میں سید روح اللہ موسوی کاظمی جیسی ہستی کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

پوری ایک مملکت کے نظام کو قانونی و آئینی طور پر قرآن و اہلبیت (ع) سے متمسک قرار دلوانا اور وہ بھی عوام کے ووٹ کی طاقت سے، کیا یہ ایک کارنامہ ہی کم ہے۔ طول تاریخ میں ہے کوئی ایسی ہستی جو نہ نبی خدا ہو اور نہ ہی اعلانیہ معصوم و منصوص امام ہو اور وہ پوری ایک مملکت کو اس طرح اللہ و رسول و معصوم اماموں سے متمسک قرار دلوا سکی ہو اور وہ بھی عوام کی بھرپور تائید سے۔ ہم نے امام معصوم (ع) کا یہ قول صادق پڑھا کہ قلب حرم خدا ہے، حرم خدا میں غیر خدا کی کوئی جگہ نہیں اور ہم نے امام موسیٰ کاظم (ع) کی اولاد میں ان کی شہادت کے صدیوں بعد ایک سید کا یہ قول پڑھا کہ یہ دنیا محضر خدا ہے، محضر خدا میں اس کی معصیت نہ کرو۔  یہ ہے قرآن و اہلبیت (ع) سے تمسک اور عرفان عملی کی محض ایک جھلک۔ ایک ایسا عارف جو پوری ایک ریاست کو اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت سے نجات دلاکر نظام ولایت سے مشرف کر دے اور وہ بھی عوام کی رضامندی سے!؟ امام خمینی ؒ نے صدیوں کے فکری جمود کے بت پاش پاش کر ڈالے۔ اللہ تعالیٰ کے معصوم مطلق و کامل ولی کے عام عوام کی نظروں سے اوجھل ہونے کے دور میں عالم دین اسلام کی کیا ذمے داری ہوتی ہے اور وہ کس طرح ادا کرنی چاہیئے، یہ امام خمینیؒ نے کامیابی سے کر دکھایا۔

کہنے، لکھنے اور پڑھنے میں بہت آسان ہے یہ سب کچھ۔ اس پر فلم اور ڈرامے میں اداکاری کر لینا بھی آسان ہے۔ لیکن حقیقی دنیا میں کوئی ایک آدمی جو بچپن سے امام خمینیؒ جیسا انقلابی ہو، بعد ازاں عالم و عارف ہو، بیک وقت ایک وجود میں پولیٹیکل سائنٹسٹ بھی ہو تو سوشل سائنٹسٹ بھی، اینتھروپولوجسٹ بھی ہو، تاریخ دان و قانون دان بھی ہو اور شاعر و ادیب بھی، سیاسی رہنماء بھی ہو اور فوجی مدبر بھی، ثقافتی و نظریاتی محاذ کا قائد بھی ہو تو اقتصادیات کے شعبے کا بھی ماہر ہو، ممکنات میں سے نہیں ہے۔ جدید نیشن اسٹیٹ سے لے کر تحریری تاریخ کے اولین ادوار تک نگاہ دوڑائیں تو یہ مجموعہ اضداد ہستی صرف ایک ہی ہے اور انکا نام ہے سید روح اللہ موسوی المعروف امام خمینیؒ۔ چونکہ اس ہستی سے متعلق لکھنے والوں نے 1963ء سے ان کی شخصیت پر کچھ نہ کچھ لکھا ہے، اس لئے ہم نے ان تین اقساط میں امام خمینیؒ کی زندگی کے 1962ء تک کے چند اہم واقعات کے تناظر میں ان کی شخصیت کو بیان کیا۔

آئندہ بھی موقع ملا تو 1962ء سے 1979ء تک اور تب سے 1989ء تک کے جیوپولیٹیکل حالات کے تناظر میں مزید پہلو اجاگر کریں گے۔ جس کسی کا آئیڈیل امام خمینیؒ ہیں، وہ یہ جان لے کہ جو شخصیت بعد میں دینی مرجع تقلید و سیاسی قائد و سربراہ مملکت بنی، ان کا ایک یادگار بچپن، لڑکپن، نوجوانی، طالب علمی کا دور بھی تھا اور وہ اپنے دور کی بحرانی تاریخ کے ایک گم نام مقاومتی کردار تھے۔ قرآن و اہل بیت (ع) کے مکتب کے پیروکاروں کی سرنوشت یہی ہے۔ اس تحریر میں بیان کردہ دیگر تاریخی کردار مستحق ہیں کہ ان کا الگ الگ پروفائل بھی لکھا جائے، تاکہ اس دور کے ایران کی تاریخ عام آدمی زیادہ آسانی سے سمجھ سکے۔
خبر کا کوڈ : 868617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش