0
Tuesday 16 Jun 2020 13:57

عصمت زہراء سلام اللہ علیہا

عصمت زہراء سلام اللہ علیہا
تحریر: ثاقب اکبر

ایک تو بے ادبی اتنی بڑی بارگاہ میں اور دوسرا اس پر اصرار۔ افسوس صد افسوس بات اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم اس موضوع پر کلام نہ کرتے۔ حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے مقام اور مرتبے پر مسلسل گفتگو ہو رہی ہے اور بے ادبی کرنے والے جسور کی خبر لینے والے خبر لے رہے ہیں۔ ہم چند گذارشات خصوصی توجہ کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ہم ایک عرصے سے کہتے چلے آئے ہیں کہ تاریخ میں بعض واقعات اور سانحات ایسے ہوچکے ہیں، جنھیں اسلامی تاریخ کا زخم ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان زخموں کو جب بھی چھیڑیں گے، ان سے خون ہی ٹپکے گا۔ اس سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ احتیاط کی جائے۔ ہم تاریخ کو تو نہیں بدل سکتے، لیکن زخم ہرے کرکے امت اسلامیہ میں نئے رنج و کرب کا اضافہ ضرور کر دیتے ہیں۔ یہی کچھ مسئلہ فدک پر نامعقول انداز سے بات کرکے کیا گیا ہے۔ ایسے کلمات سیدۂ کونین سلام اللہ علیہا کے لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ ایمان والوں کے دل پھٹتے ہیں، کیونکہ بات بہت دور تلک جاتی ہے۔

بعض احباب اگرچہ خوش نیتی سے سہی مسئلے کو اپنے مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اپنے مذہب کے اصولوں کے مطابق اسے بیان کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی سنی مذہب کو عنوان بنا رہا ہے اور کوئی شیعہ مذہب کو، ہم اس انتظار میں ہیں کہ امت قرآن و سنت کو معیار بنائے۔ حضرت فاطمۃ زہراؑ کے مقام کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن و سنت کی طرف لوٹنا چاہیے، پھر جو قرآن و سنت کہے اسے اپنا مذہب بنانا چاہیے۔ علم کلام میں بحث کرتے کرتے علماء نے ماضی میں کچھ اصطلاحیں اختیار کر لی ہیں اور کچھ اصول اپنے مذاہب کے لیے بنا لیے ہیں، ان میں سے ایک ’’عصمت‘‘ کی اصطلاح ہے۔ یاد رہے کہ قرآن حکیم میں کسی آیت میں انبیاء کے لیے ’’معصوم‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔ ہم زیادہ تر عقلی اور پھر کچھ نقلی دلائل کی مدد سے انبیاء کو معصوم ثابت کرتے ہیں، پھر معصوم کی تعریف میں بھی بہت سے مسائل ہیں۔

مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں، وہ بھی کم ہی یہ بات علی الاطلاق کہتے ہیں۔ یہ ایک تفصیلی مسئلہ ہے، جسے ہم اپنے مقام پر عصمت انبیاء کی بحث میں بیان کرچکے ہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب یہ قرآنی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ایک خاص مفہوم کے لیے کلامی اصطلاح کے طور پر اسے اختیار کیا گیا ہے تو پھر اس کی بنیاد پر اتنی آسانی سے حضرت فاطمۃ الزہراؑ جیسی ہستی کے لیے ’’امکانِ خطا‘‘ کی بات کرنا بھی ہمارے نزدیک ادب کے دائرے سے باہر نکلنے کے مترادف ہے، کیونکہ وہ دلائل جن کی بنیاد پر انبیاء کے لیے امکانِ خطا کی نفی کی گئی ہے، اس سے قوی تر دلائل حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے لیے امکان خطا کی نفی پر موجود ہیں۔ بعض علمائے کرام نے سیدۂ فاطمۃ الزہراؑ کے لیے ’’محفوظ عن الخطا‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ اصطلاح بھی کلامی پس منظر رکھتی ہے، وگرنہ ایسی کوئی اصطلاح قرآن و سنت میں استعمال نہیں کی گئی۔ اگرچہ ایسی اصطلاح استعمال کرنے والے محترم علمائے کرام کے حُسنِ نیت کو ہم قبول کرتے ہیں۔

تمام شیعہ و سنی علمائے کرام اہل بیتؑ رسول کے لیے ’’اطہار‘‘ یا ’’طاہرین‘‘ کے کلمات استعمال کرتے ہیں۔ ان کلمات کے پس منظر میں آیۂ تطہیر اور اس کی شان نزول موجود ہے، جس میں فرمایا گیا ہے: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (احزاب:۳۳) "اے اہل بیت رسول! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ تمھیں ہر طرح کی ناپاکی سے دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیزہ رکھے، جیسے پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔" اس میں کسی کو شک نہیں کہ یہاں رجس سے دور رکھنے سے مراد باطنی ناپاکی سے دور رکھنا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ خطا اور گناہ دراصل رجس ہی کے مصادیق ہیں۔ لہٰذا جن ہستیوں کو اس آیت میں ہر طرح کے رجس سے پاک رکھنے کا اعلان فرمایا گیا ہے، ان کی ہر طرح کی خطا اور گناہ سے طہارت ضروری ہے۔ یہی اس آیت کریمہ سے مراد ہے۔ ان اہل بیت کرام میں حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے شامل ہونے پر امت اسلامیہ کا اتفاق ہے۔ لہٰذا ہر طرح کے رجس سے اور ہر طرح کی خطا یا امکانِ خطا سے ان کا پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ اللہ کے ارادے کے مقابلے میں ہمارا مفروضہ امکان کوئی معنی نہیں رکھتا اور اللہ کے ارادے کے مقابلے میں کسی کا ارادہ تاب نہیں رکھتا۔ اس لیے حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے لیے خطا یا امکانِ خطا کے کلمات استعمال کرنے والے حضرات ذرا سنبھل کر ایسے کلمات استعمال کریں، کیونکہ مقابلے پر اللہ کا ارادہ موجود ہے۔

ہم یہاں پر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ عصمت کی اصطلاح جب کلامی ہے اور طاہرین اور اطہار کے کلمات قرآنی ہیں تو پھر اگر طہارت کا کلمہ عصمت کے مترادف کے طور پر استعمال کر لیا جائے، یا یہ کہا جائے کہ جس معنی میں اہل سنت اہل بیت کے لیے ’’اطہار‘‘ کا کلمہ استعمال کرتے ہیں، شیعہ اسی معنی میں ان کے لیے ’’معصومین‘‘ کا کلمہ استعمال کرتے ہیں تو دونوں کا فہم اہل بیت کے بارے میں ایک جیسا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اختلاف لفظی اور اصطلاحی ہی رہ جاتا ہے حقیقی نہیں رہتا۔ اس نکتے پر غور و خوض اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے قربت اور وحدت کا راستہ استوار ہوتا ہے، جس کے لیے ہم نے اپنی ساری زندگی صرف کی ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی اس پر کاربند رہیں گے، کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی منشاء ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے بارے میں قرآن حکیم کی بہت سی آیات اور آنحضرتؐ کے ارشادات پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ایک مومن ایسی جسارت نہیں کرسکتا، جیسی ان دنوں ہمارے سامنے آئی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بعض افراد فقط دھڑے بندی کے لیے اور اپنے خاص ممدوح کی اندھی حمایت میں مسلسل ایسی باتیں کیے جا رہے ہیں، جو نبیٔ کریمؐ کے لیے یقیناً اذیت اور تکلیف کا باعث ہیں۔

سب مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا، اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا، اس نے اللہ کو غضبناک کیا۔ جس ہستی کے بارے میں آنحضرتؐ نے یہ کچھ فرمایا ہو، اُس کے لیے بات کرتے ہوئے کس قدر احتیاط کرنا چاہیے، یہ ہر اہل ایمان کو اپنے سینے میں جھانک کر اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ ہم علامہ اقبال کی حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے بارے میں ایک منقبت کے آخری دو اشعار پر اپنے عرائض تمام کرتے ہیں:
رشتۂ آئینِ حق زنجیرِ پاست
پاسِ فرمانِ جناب مصطفیٰ ست
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہ ھا بر خاک او پاشیدمی

راقم نے اس کا منظوم ترجمہ کیا ہے:
امر خدا نے پائوں میں زنجیر ڈال دی
دل سے یہ بات حکمِ نبیؐ نے نکال دی
ورنہ طواف تربت زہراؑ کیا کروں
اور اس کی خاکِ پاک پر سجدہ کیا کروں
خبر کا کوڈ : 868893
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش