3
Sunday 7 Jun 2020 09:08

حضرت سید عبدالعظیم حسنی(ع)

حضرت سید عبدالعظیم حسنی(ع)
تحریر: ظہیر عباس جٹ
Zaheerabasjutt@gmail.com


آپ کی ولادت چار ربیع الثانی 173 ہجری شھر مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حضرت عبدالعظیم حسنی حضرت عبداللہ بن علی (ع) کے بیٹے ہیں اور چوتھے سلسلہ نسب سے حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) بہت بڑے دانشور اور معصومین علیہم السلام کے راویوں میں سے ہیں۔ حضرت کا چہرہ مبارک بہت نورانی اور ملنسار تھا۔ آپ معصومین علیہم السلام کے بااعتماد لوگوں میں سے تھے۔ آپ کا شمار اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک بہت نیک اور پاکیزہ لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپ کی زندگی کے دوران بنو عباس کی حکومت تھی، جو آئے روز شیعیان پر ہر طرح کے ظلم و ستم کرتے تھے۔ اس کے باوجود آپ کا نام اسلام ناب کے حقیقی پیروکار اور حافظان دین کے لیے معصومین علیہم السلام کی روایات لکھنے والے لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) کا عقیدہ مکتب تشیع کے لیے مثل راہ ہے، اتنی سختیوں اور مصیبتوں کے باوجود حقیقی اسلام پر قائم رہنا اور روایات کا نقل کرنا بہت بڑا کام ہے۔

معصومین علیہم السلام کے سامنے ادب:
شیخ محمد شریف رازی اپنی کتاب میں لکھتا ہے: عبدالعظیم حسنی (ع) کی رفتار و عادات ایسی کریمانہ تھیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی، آپ جب بھی حضرت امام جواد علیہ السلام اور حضرت امام ہادی علیہ السلام کی محفل میں وارد ہوتے تو باکمال ادب و خضوع، حیا اور تواضع کے ساتھ آپ کے دست مبارک چادر سے باہر نکلے ہوتے اور بڑے احترام کے ساتھ معصومین علیہم السلام کو سلام پیش کرتے اور امام (ع) سلام کا جواب دیتے اور اپنے نزدیک ترین بلا کر ساتھ بٹھاتے، اتنا قریب کہ آپ کا زانو امام (ع) کے زانوئے مبارک کے ساتھ لگ جاتا۔ امام (ع) مکمل احوال پرسی کرتے اور سوال کے جوابات بیان فرماتے۔ دوسرے لوگ دیکھ کر بہت حیران ہوتے۔

احترام امامان علیہم السلام با عبدالعظیم حسنی(ع)
حضرت امام جواد (ع) اور حضرت امام ہادی (ع) اس قدر آپ کا احترام کرتے تھے کہ آپ کا نام کبھی نہیں اٹھاتے تھے بلکہ ہمیشہ کنیت کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) کی کنیت (ابوالقاسم) تھی، علمائے ادب کہتے ہیں کہ کنیت تعظیم و تکریم احترام کے لیے وضع کی گئی ہے۔ لہذا اس خوبی کے ساتھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام جواد (ع) اور حضرت امام ہادی (ع) کس حد تک احترام کرتے تھے۔

مقام و منزلت عبدالعظیم حسنی(ع) با زبان معصومین علیہم السلام
شیخ صدوق (رہ) کمال الدین میں لکھتے ہیں کہ جس وقت حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) حضرت امام ہادی علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے عقائد کا امام (ع) کے سامنے اظہار فرمایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا؛ آپ ہمارے حقیقی دوستوں میں سے ہیں۔ کتاب جنت النعیم کے مصنف لکھتے ہیں: ایک شخص جس کا نام ابا حماد رازی ہے، شعیان و موالیان میں سے تھا، شھر رے (تھران) سے سختیوں اور مصیبتوں کو جھیلتا ہوا سامراء میں اس وقت کے امام حضرت علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سوالات پیش کیے، امام (ع) نے جواب کے ضمن میں فرمایا: اے ابا حماد جب بھی آپ پر کوئی دینی امور میں مشکل پیش آئے تو اپنی مشکل کا جواب حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) سے دریافت کرنا اور ہمارا سلام ان تک پہنچا دینا۔

تین اماموں کے دور میں
حضرت عبدالعظیم حسنی کو ایک شرف یہ بھی حاصل ہے کہ تین معصومین علیہم السلام کا دور دیکھا، حضرت امام رضا علیہ السلام، حضرت امام جواد علیہ السلام، حضرت امام ہادی علیہ السلام کا دور حیات درک کیا۔ معصومین علیہم السلام کے بابرکت کلام سے نورانی فیض حاصل کرتے تھے۔ معصومین علیہم السلام کی گفتگو اور روایات کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرتے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ نے امام (ع) کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور سوالات پوچھے۔ امام رضا علیہ السلام کی شھادت کے بعد امامت حضرت امام جواد علیہ السلام کے پاس آئی، اس وقت امام نہم مدینہ منورہ میں تھے۔ جس طرح امام رضا علیہ السلام کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اسی طرح امام جواد علیہ السلام سے بھی سوالات پوچھے کا شرف حاصل کیا۔ کبھی کبھی اپنے سوالات کو خط و کتابت کے ذریعے بھی پوچھتے اور معصومین علیہم السلام جواب دیتے۔ مشکل ترین دور حیات حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) دوران امامت امام ہادی علیہ السلام کا تھا۔ امام علیہ السلام کی زندگی کا ایک حصہ بہت سختیوں اور حکومتی نظربندی میں گزرا۔ یہ وقت سامراء کا وہ وقت تھا، جس وقت امام علیہ السلام کے ساتھ خط و کتابت کرنا یا ملاقات کرنا بہت دشوار تھا۔ اس وقت بھی حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) امام علیہ السلام کی خدمت میں تشریف لے گئے اور اپنے لیے اور مومنین کے رہنمائی حاصل کی۔

حضرت عبدالعظیم حسنی شھر رے میں
حضرت عبدالعظیم ایک ناشناس مسافر کی طرح شھر میں داخل ہوئے اور محلہ ساریان میں ایک مومن کے گھر میں کچھ عرصہ تک زیرِ زمین رہے، تاکہ لوگوں کو آپ کے آنے کی خبر نہ ہو۔ گنے چنے لوگوں کو آپ کی خبر تھی، وہ آپ کے پاس تشریف لاتے اور علوم آل اطہار علیہم السلام حاصل کرتے۔ آہستہ آہستہ کافی لوگوں کو پتہ چل گیا اور بہت زیادہ تعداد میں لوگوں کا آنا جانا شروع ہوگیا اور حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے اور معصومین علیہم السلام کی روایات نقل کرتے اور اکثر آپ کو پہچان چکے تھے اور آپ لوگوں کو علوم آل محمد سے روشنی دیتے۔ اس خطے کے لوگ آپ کو معصومین علیہم السلام کی یادگار سمجھتے تھے۔ جس طرح پروانہ شمع کے گرد چکر لگاتا ہے، اسی طرح لوگ آپ کا طواف کرتے تھے۔ علمی دینی مسائل و مشکلات کا حل آپ کے وسیلہ سے حاصل کرتے تھے۔

غروب خورشید
زندگی کے آخری ایام میں آپ بیمار ہوگئے تھے، اس وقت بلند ایمان و زیادہ تلاش کی وجہ سے بستر پر آگئے۔ پیروان اہل بیت پربرکت اور کریم سید کے علم سے محروم ہو رہے تھے۔ آپ بیماری کے علاوہ غربت، اپنے رشتہ داروں سے دوری اور لوگوں کی مصیبتوں جو شعیوں کے سخت ترین ایام و واقعات اور وقت کے ظالم حکمرانوں عباسیوں کی وجہ سے 15 شوال 255 ہجری با ذکر خدا و عبادت کے ساتھ اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ جب آپ کی وفات کی خبر گلی کوچوں میں پھیلی، شھر رے کے لوگ سیاہ لباس میں بلند آواز میں گریہ کرتے ہوئے آپ کے گھر کی طرف آئے، بہت بڑے اجتماع میں آپ کا جنازہ ہوا اور شھر رے میں دفن کیا گیا۔

فضیلت زیارت عبدالعظیم حسنی(ع)
حضرت امام ہادی علیہ السلام سے روایت ہے: جو کوئی زیارت عبدالعظیم حسنی کرے گا، اس کا اجر جنت ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کوئی شخص شھر رے سے سامراء حضرت امام ہادی علیہ السلام کی خدمت میں گیا۔ امام علیہ السلام نے پوچھا کہاں تھا، اس شخص نے جواب دیا حضرت سید الشھداء کی زیارت پر گیا تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: جان لو کہ اگر زیارت عبدالعظیم حسنی (ع) کرو گے، گویا آپ نے حضرت حسین بن علی علیہ السلام کی زیارت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
1۔ امام زادگان ری ج 1 ص 78
2۔ زندگانی حضرت عبدالعظیم ع ص30
3۔ کمال الدین ج 2 ص 51
4۔ اختران فرزان ری ص37
5۔ رجال نجاشی ص 247
خبر کا کوڈ : 868903
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش