0
Wednesday 24 Jun 2020 13:53

دفعہ 370 کے خاتمہ میں کس کا فائدہ

دفعہ 370 کے خاتمہ میں کس کا فائدہ
تحریر: سید منتظر مہدی، کشمیر

بھارت میں جب 2014ء سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی، اسی طرح بھاجپا 2015ء میں ریاست جموں و کشمیر میں مخلوط حکومت کی حصے دار بنی، تب سے جموں و کشمیر کی خوشحالی پوری طرح سے چھن چکی ہے۔ ریاست گندی سیاست کا شکار ہوچکی ہے اور اس کا نقصان صرف جموں و کشمیر کے سیاستدانوں کو ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ نقصان یہاں کی عوام کو ہوا۔ بے جے پی کی انگریزوں والی پالیسی جو عوام کو تقسیم کرنا اور پھر اپنی طاقت استعمال کرنا، اس پالیسی نے ان کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ صوبہ جموں کی ہندو برادری کو جموں و کشمیر کی باقی عوام سے الگ تھلگ کرنا اور پھر یہ کہنا کے جموں و کشمیر میں بے جے پی اور ہندوتوا کا راج ہوگا، یہ اس سازش کا ایک اہم حصہ تھا۔ اس سازش کے نتیجے میں بی جے پی نے کافی حد تک اپنا ووٹ بنک تیار کیا ہے، جہاں بے جے پی جموں و کشمیر میں زیادہ سے زیادہ دس سیٹیں لیتی تھی، وہاں بے جے پی نے 25 سیٹیں حاصل کیں اور 14 سیٹوں کے اضافہ کے بعد جموں میں اپنے پاؤں جما لئے۔

2015ء میں جب بے جی پی اور پی ڈی پی کی کشمیر میں حکومت بنی تو ان میں شروع سے ہی اختلافات پیدا ہوگئے۔ جب تک مفتی محمد سعید زندہ رہے تو بی جے پی کافی حد تک قابو میں رہی اور جونہی مفتی محمد سعید کا انتقال ہوا، تب سے بی جے پی نے اپنے ایجنڈے پر کام شروع کرکے دوبارہ پی ڈی پی کے ساتھ غیر مشروط حمایت کے ساتھ حکومت تشکیل دی اور پی ڈی پی نے اپنی کرسی کے مفاد میں ریاست کا خسارہ مول لے لیا، پھر آگے بڑھنے کے ساتھ ہی اچانک بے جے پی نے اپنی حمایت واپس لے لی اور اس کے بعد سے جموں و کشمیر کی خستہ حالی پوری دنیا نے دیکھی اور ابھی تک دیکھ رہی ہے۔ دفعہ 370 توڑنا اور پھر ریاست جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام حصوں میں تقسیم کرنا، بی جے پی کا الیکشن مینیفیسٹو میں یہ صاف تھا کہ انہوں نے آرٹیکل 370 توڑنا ہے، چاہے وہ کسی طرح سے بھی ممکن ہو۔ چاہے وہ آئین ہند کے خلاف ہی جا کر کیوں نہ ہو، لیکن بی جے پی نے یہ کر دکھایا۔

اب اس سے جموں و کشمیر کی عوام خوش ہو یا نہیں، لیکن بھاجپا نے بھارت کی عوام کو خوش کرکے اور اپنے ایجنڈے کو پورا کر دکھایا۔ اب غور کرنے کی یہ بات بھی ہے کہ کیا صرف جموں و کشمیر کو ہی خاص درجہ دیا گیا تھا یا کسی اور ریاست کو بھی ایسے درجے دیئے گئے ہیں۔ بھارت کی ایسی 12 ریاستیں ہیں، جن کو اپنی ریاست کی پہچان، ثقافت، زمین اور کافی حد تک خود مختاری بھی دی گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان ریاستوں کو بھی مخصوص حقوق دیئے گئے ہیں تو پھر ریاست جموں و کشمیر کو کیوں اس خاص درجہ سے محروم کیا گیا۔ اس کا جواب صرف یہی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر واحد ایسی ریاست ہے، جہاں اکثریت مسلمانوں کی یے اور یہاں وزیراعلیٰ مسلمان بنتا ہے اور جموں و کشمیر میں ہی بی جے پی کمزور تھی اور اب اس نے اپنی گندی سیاست کی وجہ سے یہاں بھی اپنے پاؤں جما لئے ہیں۔

اب ریاست جموں و کشمیر کو توڑ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا، "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی پوری طرح اپنائی گئی اور جموں کشمیر کو الگ اور لداخ کو الگ کرکے اب بھارتی حکومت گورنروں کے ذریعے یہاں حکومت کر رہی ہے۔ اب اگر کبھی الیکشن ہوئے، تب بھی وزیراعلیٰ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسے خود دہلی کے اندر دہلی کی حکومت کو کرنا پڑ رہا ہے اور جس کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال ہیں۔ حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو، لیکن مرکزی حکومت اپنی نگرانی کرے گی، اپنے نمائندے یعنی لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے سے اور جموں و کشمیر میں جب جب گورنر راج رہا، تب تب جموں و کشمیر میں پریشانیاں زیادہ بڑھی ہیں نہ کہ کم ہوئی ہیں۔

2014ء سے بی جے پی کے جموں میں آنے کے بعد سے مسلمانوں کے لئے نفرت، غصہ، تشدد پہلے کے مقابلے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، جن میں جموں کے کچھ وکیل، لوکل پارٹی کے ممبران اور میڈیا کے کچھ لوگ شامل ہیں، جنہوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی فکر جموں کی ہندو برادری پر مسلط کی۔ اب ان کو یہ خواب بھی دکھانا شروع کر دیا گیا ہے کہ ہم جموں کو ایک الگ ریاست بنائیں گئے اور وزیراعلٰی ہندو ہوگا، جس میں ہم سب کو ملکر کام کرنا پڑے گا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ جموں کو الگ ریاست تو بنایا نہیں، لیکن اس کو جموں و کشمیر یونین ٹیراٹری میں بدل دیا گیا۔ اب اس کا نقصان سب کو ہوا، لیکن جموں والوں کو کچھ زیادہ ہی ہوا، کیونکہ ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

کشمیر کے ساتھ ساتھ صوبہ جموں کی ہندو برادری کو بی جے پی سے کیا ملا۔ بے روزگاری، پولیس اور فوج کی زیادتیاں، ٹول پلازہ، جھوٹے وعدے، کھوکھلے نعرے، جھوٹے خواب، ترقی کے نام پر جملے بازی، انٹرنیٹ کا مکمل لاک ڈاؤن اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک مسلسل عذاب۔ پچھلے کئی برسوں سے جموں کے ڈوگرہ بھائیوں کی یہ مانگ تھی کہ ڈوگرہ کلچر، ڈوگری زبان اور ہیریٹیج (heritage) کو بچانے کے لئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہیئں تو اب جب ریاست ٹوٹ گئی ہے اور اب جو نیا ڈومیسائل ایکٹ (domicile act) لایا گیا، اس کے تحت تو یہ سب آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا، کیونکہ اب ہر کوئی جموں میں ہی زمین لے کر بسنا چاہے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے جموں سے ڈوگرہ کلچر، زبان اور جو ان کی وراثت ہے، سب ختم ہوجائے گی۔

جموں والوں کو فی الحال کچھ فائدہ تو ملا نہیں، لیکن نقصان ہی نقصان اٹھانا پڑا اور اب بھی وقت ہے کہ اس گندی اور نفرت والی سیاست کو سمجھا جائے۔ اگر بی جے پی کو محدود نہ کیا گیا تو کل خطہ پیر پنجال اور چناب ویلی سے بھی آوازیں آنا شروع ہو جائیں گی کہ ان کو بھی جموں سے الگ کیا جائے، صوبہ جموں بھی فرقہ واریت اور کشیدگی کا شکار ہو جائے گا۔  اس زہر سے خود کو اور آنے والی نسلوں کو بچایا جائے۔ میری جموں کشمیر اور لداخ کی عوام سے گزارش ہے کہ سب ملکر اس گندی اور نفرت والی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کریں اور آنے والی نسل کیلئے اس وباء کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔
خبر کا کوڈ : 869816
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش