0
Sunday 21 Jun 2020 22:30

آہنی سلاخوں سے جنگ

آہنی سلاخوں سے جنگ
تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ دنوں لداخ کی وادی گلوان میں چین اور بھارت کی افواج کے مابین ہونے والی جھڑپ میں ایک کرنل سمیت بیس بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ متعدد بھارتی فوجی چین کی گرفت میں چلے گئے، جنہیں بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔ دی ہندو اخبار  نے جمعے کو عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ رہا کیے جانے والے افراد میں ایک لیفٹیننٹ کرنل اور تین میجر شامل ہیں۔ خبروں کے مطابق اس جھڑپ میں چینی اور بھارتی افواج کے مابین معاہدے کے مطابق کوئی گولی نہیں چلی، اس کے باوجود اتنی اموات کی کیا وجہ ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ ہندوستان کی جانب سے اب اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ چینی افواج کی جانب سے اس جھڑپ میں دیسی ہتھیار کا استعمال کیا گیا، جس میں سلاخوں پر کیل لگائے گئے تھے۔

چین نے اپنے فوجیوں میں کسی کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے، جبکہ انڈیا کے 76 فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اپنی حدود میں دراندازی کا الزام لگایا ہے۔ انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق یہ جھڑپ تقریباً 14 ہزار فٹ بلند پہاڑوں کی افقی ڈھلوانوں پر ہوئی، جس کی وجہ سے بعض فوجی نیچے تیز بہاؤ والے دریائے گلوان میں گر گئے، جس کا درجۂ حرارت صفر سے بھی کم تھا۔ سلاخوں والا ہتھیار جمعرات کو منظر عام پر آیا، جس کی تصاویر چین کی سرحد پر تعینات بھارت ایک اعلیٰ فوجی اہکار نے ایک نشریاتی ادارے کو فراہم کیں۔ دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے بھی ان تصاویر کو ٹوئیٹر پر شائع کیا اور اسے ایک وحشیانہ ہتھیار قرار دیا۔ چینی اور بھارتی افواج کی جانب تاحال اس دیسی ہتھیار کے استعمال پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین اور انڈیا کی سرحد پر تعینات افواج کے پاس آتشیں اسلحے کی عدم موجودگی کا سبب 1996ء میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا وہ سمجھوتہ ہے، جس میں متنازع سرحد پر کشیدگی کو قابو میں رکھنے کی غرض سے بندوقوں اور دھماکہ خیز مواد کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان آخری بار فائرنگ کا تبادلہ 1975ء میں شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے ایک دور افتادہ درّے میں ہوا تھا، جس میں چار انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ اس واقعہ کو مختلف سابق سفارتکاروں نے گھات لگا کر حملہ اور حادثہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک فریقین کے درمیان کبھی گولی نہیں چلی۔

حالیہ ہفتوں کے دوران کشیدگی کے کئی ایک واقعات پیش آچکے ہیں۔ مئی میں پینگانگ جھیل، لداخ اور شمال مشرقی انڈین ریاست سِکِم کے ساتھ سرحدوں پر انڈین اور چینی فوجیوں کے مابین ہاتھا پائی کے واقعات کافی معروف ہوئے۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے ایڈیٹر ان چیف ہو شی نے اپنی ٹوئٹ میں بھارتی فوجیوں کی اموات کی وجہ لکھتے ہوئے کہا کہ 20 میں سے 17 انڈین فوجی مبینہ طور پر اس لیے ہلاک ہوئے، کیونکہ انھیں فوری طبی امداد میسر نہیں تھی، جس سے انڈین فوج کی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسی فوج نہیں ہے، جو چٹانی علاقوں میں لڑنے کی مہارت اور جدید صلاحیتوں سے لیس ہو۔

بھارت میں ان ہلاکتوں پر شدید غم و غصے کے ساتھ ملے جلے جذبات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک صحافی نخل واگلے نے کہا کہ 20 انڈین فوجی ہلاک ہوگئے ہیں اور وزیرِاعظم مودی سچ بتانے سے بھاگ رہے ہیں۔ وہ شہداء کے خاندانوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ایک کشمیری سماجی کارکن ٹونی اشے نے لکھا کہ اگر مودی نے چین کے ساتھ وہی غلطی دہرائی، جو اس نے بالاکوٹ میں کی تھی تو انڈیا کو کشمیر سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ایک ٹوئیٹر صارف برکھا دیوا نے لکھا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد تو نریندر مودی اور دیگر افراد نے بڑھ چڑھ کر بیان دیئے تھے، اب وہ لداخ کے معاملے پر ایک ماہ سے خاموش ہیں۔

بھارت میں اس وقت ایک اور بحث یہ بھی چل رہی ہے کہ آیا ملک میں اتنی طاقت ہے بھی کہ وہ چین کا مقابلہ کرسکے۔ اس کا جواب بسنت مہیشوری نے دیا، جو ایک سرمایہ کار اور لکھاری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چین کو ایک ہی طریقے سے ہرایا جا سکتا ہے اور وہ ہے کہ معاشی طور پر طاقت ور بنا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ معیشت ہی بہترین ہتھیار ہے اور ہمیں چین کو دوسرا پاکستان نہیں بنا دینا چاہیئے۔ اس کے علاوہ گذشتہ ایک ماہ سے انڈیا میں چینی مصنوعات پر پابندی لگانے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کے حوالے سے چلائے جانے والے ٹرینڈز کی بھی واپسی ہوئی ہے۔ بہرحال اس سارے قضیے میں دنیا کے لیے بھی چند اسباق ہیں۔ مجھے سرحدوں پر آتشیں اسلحہ کو استعمال نہ کرنے کا طریقہ پسند آیا، جو قدیم معرکوں کے عین مطابق ہے۔

جس میں لشکروں کے مابین گتھم گتھا جنگ کے بجائے سورماوں کے مابین جنگ کی جاتی تھی، جس فوج کے سورما قوی ہوتے تھے، وہ دوسری فوج کو پسپا کر دتیے تھے اور یوں بڑے پیمانے پر خونریزی نہیں ہوتی تھی۔ اگر دنیا کی تمام متنازع سرحدوں پر حساس مقامات کی ایک خاص مقدار کو اسلحہ سے پاک کر دیا جائے اور وہاں تعینات فوجیوں کو ڈنڈے اور اس قبیل کے ہتھیار مہیا کیے جائیں تو یقینی طور ممالک کے مابین بڑی جنگوں کا خطرہ ٹالا جاسکتا ہے، تاہم اس کے لیے زیادہ اہم ریاستوں کا اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا ہے۔ بھارت اپنی عادت کے مطابق خطے کی صورتحال کو بدلنے کی ناکام کوششیں کرتا رہتا ہے، چین نے ایک طویل عرصہ وادی لداخ میں بھارت کے تجاوزات سے صرف نظر کیا، اس نے ایل اے سی کے ساتھ سڑک بنائی، چین دیکھتا رہا، لیکن اب چین اپنے حق کے لیے کھڑا ہوچکا ہے۔

بھارت سرکار کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، اگر اس نے خطے میں امریکہ یا کسی اور ملک کے ایما پر یا اپنی عادت سے مجبور ہوکر تجاوز کی پالیسی جاری رکھی تو وہ وقت دور نہیں کہ اسے گندے بچے کی طرح کلاس سے نکال باہر کیا جائے۔ بھارت کا جنگی جنون گذشتہ ایک ماہ میں جیسے جھاگ کی طرح بیٹھا ہے، اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو یہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوسکتا ہے، جس کا ہندوستان کی قیادت کو بہت اچھے طریقے سے ادراک ہے۔
خبر کا کوڈ : 869999
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش