0
Monday 22 Jun 2020 12:17

فہم قرآن بانٹنے والا جوہری نہ رہا

فہم قرآن بانٹنے والا جوہری نہ رہا
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
 
جب صرف پی ٹی وی ہی واحد چینل تھا اور پورا ملک اسی کو دیکھا کرتا تھا، اس وقت مجلس شام غریباں علامہ طالب جوہری صاحب پڑھا کرتے تھے۔ کیا شیعہ؟ کیا سنی؟ کیا اہلحدیث؟ سب کے سب سکرین پر ایسے منتظر ہوتے کہ اگر یہ تقریر نہ سنی تو سال بھر پچھتانا پڑے گا۔ سچ یہی ہے کہ جس کی وہ تقریر مِس ہو جاتی، وہ پورا سال پچھتاتا تھا اور موجودہ زمانہ نہیں تھا کہ کسی بھی وقت انٹرنیٹ سے کسی بھی مشہور شخصیت کی تقریر ایک کلک سے سن لی جائے گی۔ انہوں نے خطابت کو نئی چاشنی بخشی، ان کی مجالس معرفت قرآن کا ذریعہ ہوتی تھیں۔ میں نے انہیں بہت کم احادیث پڑھتے دیکھا، ہر تقریر کا اکثر حصہ قرآنیات پر مشتمل ہوتا تھا۔ ویسے بھی انہیں قرآنیات سے عشق تھا۔ انہوں اپنی تقریروں کو آیات قرآنی سے سجایا اور جب لکھنے بیٹھے تو تفسیر قرآن لکھی، یوں ان کا لکھنا اور بولنا ہر دو قرآن کے وسیلے سے بابرکت ہوگیا۔

انہوں نے پی ٹی وی پر فہم قرآن کے عنوان سے پروگرام بھی کیے، ان کے یہ پروگرام شیعہ سنی تمام میں مقبول ہوئے۔ ان کے قادر الکلام اہل زبان ہونے نے ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کیا۔ وہ جو کہنا چاہتے، جیسے کہنا چاہتے، کہہ دیتے تھے۔ ان کی قرآن فہمی پر بات کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ملک کے نامور سکالر پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی لکھتے ہیں کہ "ایک خوش گفتار عاشق قرآن رخصت ہوگئے، میں ان کے خطاب سنا کرتا تھا۔ پوری علمی تاریخ میں شیعہ علماء کا فکری افق دوسرے طبقات سے بلند تر رہا ہے۔ نہ معلوم اس کی وجہ کیا ہے؟ جو بات میں نے ان (طالب جوہری صاحب) سے سیکھی قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ کی تفسیر تھی، (جوہری صاحب) کہتے ہیں، ظالمو، تم جس آیت سے مصطفیٰ کی بشریت ثابت کر رہے ہو، یہ تو توحید الوہیت بتانے کے لیے نازل ہوئی، بشریت پر تو کوئی اختلاف تھا ہی نہیں۔"

یونیورسٹی آف سرگودھا کے پروفیسر ڈاکٹر شہباز منج صاحب رقمطراز ہیں: "لڑکپن اور جوانی میں شیعوں کی اور تقاریب اور مجالس میں تو کوئی خاص دل چسپی نہ تھی، البتہ دس محرم کو علامہ طالب جوہری کی تقریر کا انتظار رہتا۔ اگرچہ تقریر کے نکات سے اختلاف بھی ہوسکتا تھا، مگر تقریر کی روانی اور نکتہ رسی آدمی کو یوں مسحور کرتی کہ دل چاہتا علامہ صاحب کربلا پہنچنے سے پہلے قرآنی آیات سے نکات نکال نکال کر سنانے میں دو گھنٹے تو ضرور ہی لگائیں۔۔۔ وہ نکات بیان کرتے ہوئے اکثر کہتے: بھئ عجیب مرحلۂ فکر ہے۔ ایک بار مجھے ساہیوال میں انہیں براہ راست سننے کا موقع ملا، ایسے لگتا تھا جیسے پورا شہر جمع ہوچکا ہے، ایسے لوگ جو ظاہری وضع قطع سے پہچانے جاتے ہیں کہ دوسرے مسالک کے ہیں، ان کی بڑی تعداد منبر کے آگے بیٹھی تھی۔ ایک دوست نے کہا تھا، طالب جوہری صاحب کے آخری پانچ منٹ نہ ہوں تو کہیں سے پتہ نہیں چلتا کہ خطیب شیعہ ہے۔"

جس میراث کے وہ امین تھے، اس میں اب کوئی ان کا ہم پلہ تو کیا، اس راہ کا راہی ہی نہیں رہا۔ وہ شائد اس اسلوب خطابت کے آخری خطیب تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ شہید باقر الصدر کا درس بھی کیا بابرکت درس تھا؟ ایران ہو، عراق ہو، پاکستان ہو، لبنان ہو، بحرین ہو، خطے کا کوئی بھی ملک شہید کے شاگرد جہاں پہنچے، انہوں نے اپنے چمن آباد کیے۔ صرف قرآن ہی پر کام کرنے والوں کی فہرست بنائی جائے تو درجنوں لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے قرآن مجید کی مکمل تفسیر لکھی۔ آپ سالوں نجف میں مقیم رہے اور باب مدینۃ العلم سے خیرات علم لیتے رہے۔ آپ کے نظریات مستحکم علمی بنیادوں پر کھڑے تھے۔ بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں


آپ کی مجالس کی خاص بات وحدت امت کا حامل ہونا ہے، آپ اختلافی مسائل کو انتہائی شائستہ انداز میں بیان کرتے تھے۔ وہ علم کی بنیاد پر کسی رائے کو رد کرتے  تھے، اس میں ذاتی رنجش کی بجائے علمی وجہ ہوتی تھی، اس لیے دلیل کی پختگی ہوا کرتی تھی۔ عملی طور پر بھی وحدت امت کے لیے کوشاں تھے۔ مولانا طارق جمیل آپ سے ملنے کے لیے آپ کے گھر آئے، اس ملاقات کی تصاویر بہت وائرل ہوئی تھیں اور معاشرے میں بہت اچھا پیغام گیا تھا۔ ان کی مجالس میں ہر موضوع پر بات ہوتی تھی، ہمارے دوست پروفیسر ناصر مینگل صاحب نے لکھا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے، مغلپورہ کی مجالس میں انہوں کانٹ کے فلسفے پر بات کی تھی۔ علامہ طالب جوہری صاحب نے کبھی اپنے نظریات کا سودا نہیں کیا، اتنی شہرت کے باوجود کسی حکمران کے در پر نظر نہیں آئے، آپ کتاب اور علم کی دنیا کے آدمی تھے، بس اسی میں لگے رہے۔

جاوید احمد غامدی صاحب کے داماد محمد حسن نے جب شیعہ ہزارہ پر شدید حملے ہو رہے تھے، اس وقت لکھا تھا کہ جوہری صاحب نے ایک بار کہا تھا ہم شیعت کو بنوامیہ کی ننگی آمریت سے نکال کر لے آئے ہیں، تم کیا چیز ہو؟ کم ترین الفاظ میں پوری تاریخ سمیٹ کر رکھ دینے کا ملکہ علامہ طالب جوہری صاحب کو حاصل تھا۔ آپ کی موت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ  دیا۔ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں نے آپ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ میر تقی میر نے علامہ جوہری جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا:
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

یہ سال تو گویا موت کا سال بن رہا ہے، ہر طرف سے بس ایک ہی خبر آرہی ہے اور وہ موت کی خبر۔ شاعر نے ان حالات کا کیا خوبصورت اظہار کیا ہے:
عجیب سال ہے نہیں ایک پل بھی پرسکون
لکھ لکھ کے تھک گئے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
خبر کا کوڈ : 870098
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش