0
Tuesday 23 Jun 2020 01:53

سندھ میں رینجرز پر حملے، کیا بانی ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرستوں کی قربت کا نتیجہ ہیں؟

سندھ میں رینجرز پر حملے، کیا بانی ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرستوں کی قربت کا نتیجہ ہیں؟
رپورٹ: ایس ایم عابدی

ایم کیو ایم کی تاریخ میں 19 جون کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، یہ تاریخ شاید الطاف حسین کی جانب سے ایم کیو ایم کے قیام کے اعلان کی تاریخ کے بعد پارٹی کے نزدیک سب سے اہم دن تھا۔ سال 1992ء میں اسی دن (19 جون کو) اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا جس میں ہزاروں کارکنوں کو قتل یا گرفتار کرلیا گیا تھا۔ یہ آپریشن دو سال 1994ء تک جاری رہا، اس آپریشن نے پارٹی کو ختم نہیں کیا بلکہ اس کے بعد یہ جماعت سندھ کے شہری علاقوں میں مزید طاقتور ہوئی۔ تین روز قبل 19 جون 2020ء کو نامعلوم افراد نے گھوٹکی میں رینجرز کی گاڑی پر بم حملہ کیا جس کے نتیجے میں رینجرز کے دو اہلکار اور ایک راہگیر جاں بحق ہوگیا۔ گھوٹکی میں واقعے کے مقام کی جانچ کرنے والی سکھر بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم کے مطابق دھماکا خیز ڈیوائس میں 250 سے 300 گرام بارود استعمال کیا گیا۔

اسی دن لاڑکانہ اور کراچی میں بھی حملے ہوئے۔ ان حملوں سے قبل 10 جون کو بھی دو حملے کئے گئے تھے، اس بار کراچی کے علاقے قائد آباد اور گلستان جوہر میں رینجرز اہلکاروں ہی نشانہ تھے تاہم ان میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ان حملوں کی ذمہ داری غیر معروف کلعدم تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) نے قبول کی۔ 19 جون کو علیحدگی پسند تنظیم نے ٹویٹر اور صحافیوں کو پیغامات کے ذریعے بتایا کہ ان حملوں میں ان کا ہاتھ ہے۔ اس گروپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے رینجرز پر حملے سندھی قوم پرست تنظیم جئے سندھ قومی محاذ (اڑیسر گروپ) کے رہنماء نیاز لاشاری کے قتل کیخلاف جوابی کارروائی کے طور پر کئے۔ نیاز لاشاری کی لاش 16 جون کو سپر ہائی وے کراچی سے ملی تھی۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ نیاز کو ڈیڑھ سال قبل اغواء کیا گیا تھا۔

سندھودیش ریولوشنری آرمی شفیع برفت کی کالعدم تنظیم جسمم کا ہی ایک دھڑا ہے۔ شفیع برفت خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے کئی سالوں سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ سندھودیش ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) جامشورو سے تعلق رکھنے والے مقامی جسمم رہنماء سید اصغر شاہ نے 2010ء میں قائم کی، جسے حکومت پاکستان نے مئی 2020ء میں کالعدم قرار دیدیا تھا۔ یہ علیحدگی پسند گروپ پچھلے کچھ سالوں سے سندھ میں متحرک ہے لیکن رینجرز پر ہونے والے حملوں کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ان حملوں میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے شامل ہونے کی طرف بھی اشارہ کررہے ہیں۔ الطاف حسین اس وقت لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے ہیں تاہم ان کی ایم کیو ایم جو 2016ء تک کراچی پر راج کیا کرتی تھی اس کی سیاست اب ماند پڑتی نظر آرہی ہے۔

اس پارٹی کے اچھے دنوں کا اختتام الطاف حسین کی 22 اگست 2016ء کی ایک نفرت انگیز تقریر سے شروع ہوا، جس نے حکام کو اس جماعت کیخلاف ایکشن لینے کا موقعہ فراہم کیا۔ جس کے بعد بڑے پیمانے پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں نے خود کو پارٹی سے الگ کرلیا اور ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے کراچی میں بیٹھے رہنماؤں نے الگ سیاست شروع کردی۔ اب پاکستان کی مرکزی سیاست سے دور لندن میں بیٹھے ہوئے الطاف حسین نے سندھ اور بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے 4 جون کو اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ سندھ، بلوچستان، پشتونشتہ، گلگت بلتستان، چترال اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظالم اور غیر قانونی قبضے کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق طاقت کا استعمال کرے۔

حالیہ مہینوں میں ایم کیو ایم بانی سندھی قوم پرستوں کے زیادہ قریب آتے دکھائی دیئے۔ یہاں تک کہ جرمنی میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کئے ہوئے جئے سندھ متحدہ محاذ کے رہنماء شفیع برفت نے الطاف حسین سے ریاست پاکستان کیخلاف مسلح جدوجہد میں شریک ہونے کیلئے بھی کہا۔ دونوں گروپ چین کو ایک قابض قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم بانی الطاف حسین نے اپنے حالیہ بیان میں چین پر کھلے عام تنقید کی اور کہا کہ وہ سندھ کے عوام کو غلام بنانا چاہتا ہے۔ چین پر ان کی توجہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے ہے، جس کے ذریعے سندھ اور بلوچستان میں قومی سطح کے انفراسٹرکچر منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ سندھ کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایس آر اے سندھ میں چینی باشندوں پر حملوں میں بھی ملوث رہی ہے۔ کراچی اور سکھر میں کام کرنیوالے چینی انجینئرز پر 2016 میں اس تنظیم نے دو بار حملے کئے۔

رینجرز پر جمعہ کے روز ہونیوالے حملوں کے اگلے دن انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر جمیل احمد نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لندن کا ایک گروہ اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں سندھی علیحدگی پسند گروپوں کی معاونت کررہے ہیں، جس کی تصدیق ایک اور افسر نے بھی کی۔ کراچی میں قانون نافذ کرنیوالے ادارے کے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور سندھ کے علیحدگی پسند گروہ مل کر کام کررہے ہیں، الطاف حسین کے گروہ کے دو لوگ جنوبی افریقا میں بیٹھے سندھ میں اپنے سیل چلا رہے ہیں لیکن الطاف حسین کی ایم کیو ایم رینجرز پر ہونے والے حملوں کے بعد خود کو سندھ کے علیحدگی پسند گروہوں سے لاتعلقی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایم کیو ایم لندن کے قاسم علی رضا نے ذرائع سے گفتگو میں کہا کہ ایم کیو ایم امن پسند سیاسی جماعت ہے جو سندھ میں پرامن اور سیاسی طریقے سے حقوق کی جدوجہد کررہی ہے۔

حکام اب بھی سندھی قوم پرست گروپوں اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے متعلق تحقیقات کررہے ہیں، تاہم ایم کیو ایم کے عروج و زوال کے شاہد کچھ افراد کا ماننا ہے کہ رینجرز پر حملوں کیلئے 19 جون کی تاریخ کا تعین خود اپنے آپ میں تعلق ظاہر کررہا ہے۔ کراچی کے ایک صحافی، جنہوں نے ایم کیو ایم اور سندھ کی لسانی جماعتوں پر رپورٹنگ کی ہے، نے حملوں کے مقامات کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ایم کیو ایم اور ایس آر اے کے درمیان کوئی علامتی رابطہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ لاڑکانہ اور گھوٹکی سندھی اکثریتی شہر ہیں جبکہ کراچی کا علاقہ لیاقت آباد، جہاں تیسرا دھماکا ہوا، ہمیشہ سے ہی الطاف حسین کے حامیوں کا گڑھ رہا ہے۔ صحافی نے مزید کہا کہ وہ اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ الطاف حسین سے وفادار لوگ کراچی میں دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں اور ان سے متعلق بات کرنے پر لوگوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔

کیا بھارتی خفیہ ایجنسی بھی سندھ میں علیحدگی پسند گروہوں کی معاونت کر رہی ہے؟
تحقیقات کرنیوالے حالیہ حملوں میں بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتے نظرآتے ہیں۔ کراچی میں انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے جاری تحقیقات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور سندھی علیحدگی پسندوں کی مدد کررہی ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ عسکریت پسند تھر کے راستے بھارت میں داخل ہوتے ہیں۔ صحرائے تھر سندھ کو بھارتی ریاست راجستھان سے ملاتا ہے۔ اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق یقیناً مشکل ہے، کیونکہ حکام طویل عرصہ سے بھارتی خفیہ ایجنسی پر الطاف حسین  کی مدد کرنے کے الزامات لگاتے آرہے ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینئر رہنماء کا ایک بیان ریکارڈ پر آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے گروپ کے بھارتی حکام سے تعلقات ہیں۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے سابق سربراہ محمد انور نے نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ الطاف حسین کی پارٹی بھارتی حکومت سے فنڈز حاصل کرتی رہی ہے اور انہیں بتایا گیا کہ وہ مالی امداد کی وصولی کیلئے بھارتی حکام سے رابطے میں رہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے الطاف حسین پر گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے الزامات لگارہے ہیں لیکن وہ اسے ثابت نہیں کر پائے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے نجی ٹی وی چینل کی ڈیجیٹل ٹیم سے گفتگو میں کہا کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے میڈیا پر کئی بار دعویٰ کرچکے ہیں تاہم اب انہیں بھی اسے ثابت کرنا چاہیئے تاکہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے۔ البتہ انہوں نے الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرست گروپوں کے درمیان اتحاد کے امکان کو رد نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1986ء میں الطاف حسین کی جماعت اور جی ایم سید کی جئے سندھ کے درمیان اتحاد قائم ہوا تھا تاہم دونوں نے اگلے سال ہی راہیں جدا کرلی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی کالعدم تنظیمیں اور علیحدگی پسند کروپس اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اتحاد قائم کرتے آئے ہیں۔

مظہر عباس کا خیال ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ الطاف حسین علیحدگی پسند گروپوں کی طرف راغب ہوچکے ہوں کیونکہ پاکستانی سیاست میں ان کیلئے جگہ نہیں بچی، ان کی حالیہ تقریروں اور بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مکمل طور پر پاکستان مخالف تحریک کی جانب گامزن ہوچکے ہیں۔ جئے سندھ متحدہ محاذ واضح طور پر پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کرتی ہے اور ملک میں انتخابی سیاست کی مخالف ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس گروپ نے 2018ء کے انتخابات کے دوران لاڑکانہ اور نوشہرو فیروز میں پولنگ اسٹیشنز پر حملوں کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ کراچی میں مقیم تجزیہ کار منظور سولنگی کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جسمم کے رہنماء خود کو جی ایم سید کا پیروکار کہتے ہیں، جنہوں نے کبھی بھی ریاست کیخلاف پرتشدد جدوجہد کی حمایت نہیں کی، وہ لوگوں کے حقوق کیلئے عد تشدد کی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 870248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش