0
Tuesday 23 Jun 2020 06:14

بوسیدہ نظام

بوسیدہ نظام
تحریر: محمد ثقلین واحدی
Msaqlain1412@gmail.com

میرا معمول ہے کہ ہر روز نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دنیا بھر سے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبان کے بیس سے زائد اخبارات کا دقیق یا سرسری مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔ اس کے مختلف فوائد میں دنیا بھر کے سیاسی حالات سے آشنائی، معلوماتِ عامہ، کچھ اچھے مضامین اور خصوصاً مطالعہ جیسی اچھی عادت کا مزید پختہ ہونا شامل ہیں، لیکن اس کا دوسرا اور اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے وطن عزیز پاکستان کی سیاست اور اپنے حکمرانوں کا دوسرے ممالک کی سیاست اور حکمرانوں سے مقایسہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ جہاں دوسرے اخبارات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، وہیں صبح صبح اپنے اخبار کھولتے ہی چوری چکاری، لوٹ مار، کرپشن اور سیاسی قائدین کے ایک دوسرے پر الزامات  کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔

گذشتہ کئی سالوں سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ انتخابات کا ڈرامہ رچانے کے بعد چہرے بدل جاتے ہیں، ظاہری طور پر نعرے بھی بدل جاتے ہیں، لیکن بوسیدہ نظام ہے کہ بدلتا ہی نہیں۔ ہر حادثے کے بعد "مٹی پاؤ" کا فارمولا اپنایا جاتا ہے۔ حادثہ رونما ہوتا ہے، کئی لوگ جان سے چلے جاتے ہیں، کئی گھر ویران، خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم نامی شخص رپورٹ منگوا لیتا ہے، پھر وہ رپورٹیں کہاں جاتی ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، گذشتہ برس ہونے والے سانحہ ساہیوال کو ہی دیکھ لیں، معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، چند دنوں کے لیے بہت شور شرابہ ہوا، تحقیقاتی کمیٹیاں بنیں، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نے رپورٹس طلب کیں، لیکن پھر وہی ہوا، جو ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے۔ مارے جانے والوں کا تعلق سرمایہ دار طبقے سے نہیں تھا، غریبوں کا سستا خون تھا، بھاری فائلوں کے نیچے دب گیا، مثلاً اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ لوگ مجرم تھے تو سزا دینے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔؟

ماہ رمضان المبارک کے آخری ایام میں کراچی ہونے والے طیارہ حادثے کے حقائق گویا خود جہاز کے ملبے تلے ہی دب کر رہ گئے۔ رپورٹ مگر وزیراعظم نے خود طلب کر لی تھی، گھوٹکی اور کراچی میں ہونے والے حملوں پر بھی وزیراعظم نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ نظام کی بوسیدگی کی ایک علامت یہی ہے کہ ہر وزیراعظم اپنے دور میں ہونے والے ایسے واقعات کی رپورٹ طلب کرتا ہے، مگر ہوتا کچھ نہیں۔ چند دن کے شور شرابے کے بعد پھر چینی، آٹا، پیٹرول چوری کے الزامات ایک دوسرے پر لگاتے ہوئے ہمارے حکمران بھول جاتے ہیں کہ حادثات سے متاثرہ افراد کے خاندانوں پر کیا گزر رہی ہے۔

افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اسے نظام کی بوسیدگی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ ہر آنے والا کہتا ہے کہ پہلے والے کھا گئے ہیں، میں آیا تو خزانہ خالی تھا۔ تبدیلی سرکار سے یہ امید نہیں تھی، لیکن اس بار بھی یہی ہوا اور اگلی بار بھی ایسا ہی ہوگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظامِ حکمرانی صرف اسی قسم کے افراد کو سپورٹ کرتا ہے، جن میں اقتدار، پیسے اور عیش و عشرت بھری زندگی کا لالچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو، جو انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں مختلف قصے کہانیاں سنا سنا کر عوام الناس کو اپنے حق میں کرنے کا فن بخوبی جانتے ہوں۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سب سے پہلے ایسے نظام سے خلاصی ضروری ہے۔

نظامِ حکمرانی ایسے افراد کو سپورٹ کرے، جو ملک کی قیادت کے لئے اہل، اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب، نیک سیرت اور سب سے بڑھ کر محب وطن ہوں، لیکن فی الحال تو ہمیں ایک ایسے بوسیدہ نظام سے واسطہ پڑا ہے، جو صرف سرمایہ دارانہ سسٹم کو فروغ دیتا ہے۔ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو وطن عزیز میں جس کے پاس پیسے کی ریل پیل ہے، وہی اس کرسی کا حقیقی اہل ہے۔ وہی پیسہ جس کے بارے میں کارل مارکس کہتے ہیں "پیسہ نوع بشر کے گال پر خون کا دھبہ ہے اور سرمایہ اس کے مساموں سے ٹپکتا ہوا لہو ہے۔"

 نظام کی خرابی کی ایک اور وجہ فیصلوں کا تاخیر سے انجام پانا ہے، عدالتی نظام ایسا ہونا چاہیئے کہ کیسز مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں حل ہوں، مگر یہاں کیسز سالوں لٹکے رہتے ہیں۔ مدعیان مع گواہان راہیِ عدم ہو جاتے ہیں، مگر کیس حل ہونے کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ ہزاروں بے گناہ ہم وطنوں کے قاتل کراچی، ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کی جیلوں سے بھاگ نکلتے ہیں، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ابھی چند دن پہلے 16 جون کا اخبار کھولا تو معلوم ہوا کہ پشاور ہاِئیکورٹ نے تقریباً 200 کے لگ بھگ سزائے موت اور عمر قید کے ایسے مجرمان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے، جن کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی گئی تھیں، اتنا بوسیدہ نظام!!!!!

اب ذرا بات کی جائے کورونا وائرس کی، کورونا وائرس پوری دنیا میں کہاں سے آیا، کیسے آیا، یہ ابھی واضح نہیں ہوسکا، مگر ہمارے ملک میں کورونا کا ذمہ دار ایران و عراق سے واپس آنے والے زائرین کو ٹھہرایا گیا۔ قارئین میں سے جن احباب نے تفتان کا لق ودق صحرا دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں اور جنہوں نے نہیں دیکھا وہ دیکھنے کی خواہش نہ کریں۔ اس ویران صحرا میں اچھے خاصے صحت مند انسان کو بھی رکھا جائے تو وہ بھی بیمار پڑ جائے۔ وہاں پر بغیر کسی انتظامات کے ہزاروں زائرین کو ٹھہرایا گیا، ان میں ضعیف العمر، مرد و خواتین اور معصوم بچے شامل تھے۔ سہولیات کا فقدان، ٹیسٹ کا نہ ہونا اور ایسی صورتحال میں ہزاروں لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا رکھنے میں کون سی راکٹ سائنس تھی، کوئی آج تک سمجھ نہیں سکا، وہ سب پاکستانی شہری تھے اور اپنے شہریوں کی حفاظت ہر ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہماری ریاست یہ ذمے داری کب نبھائے گی، سوالیہ نشان مگر اپنی جگہ باقی ہے!

موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو اگست 2018ء میں عمران خان صاحب کے حلف اٹھاتے ہی بڑے بڑے دعوے ہوئے، ورلڈ کپ 1992ء کی مثالیں دے کر کہا جانے لگا کہ خان صاحب کی حکمت عملی مگر بہت عمدہ ہے، آج سوال یہ ہے کہ کہاں گئی وہ حکمت عملی! ہاں اگر یہ مان بھی لیا جائے تو اچھی حکمت عملی کے ساتھ قابل افراد کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ 1992ء میں خان صاحب کی اچھی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ جاوید میانداد جیسے اہل اور محب وطن افراد موجود تھے، جو آج بھی کہتے ہیں "میں نے کرکٹ کے میدانوں میں ایک سپاہی کی طرح اپنے وطن کی عظمت کا دفاع کیا۔" ایسے قابل افراد کا ساتھ ہو تو معمولی سی حکمت عملی بھی بہترین کہلاتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس، اس وقت اگر حکمت عملی کو مناسب مان بھی لیا جائے تو ایسے اہل فراد کہاں سے ڈھونڈ کر لائے جائیں، جو اس حکمت عملی کو فالو کر سکیں۔

یہاں پر نااہل افراد کا میلہ لگا ہوا ہے، جو آئے دن ایک دوسرے پر چوری چکاریوں کے الزامات عائد کرتے نظر آتے ہیں۔ تہذیب تو جیسے دل اور زبانوں سے رخصت ہوگئی ہے، کرکٹ کے میدانوں میں وطن کی عظمت کا دفاع کرنے والوں کی جگہ سیاست کے میدانوں میں اب خان صاحب کی ٹیم میں وہ افراد شامل ہیں، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سلامتی کونسل میں بھارتی رکنیت کے حصول کو قیامت کی آمد نہیں سمجھتے۔ آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہمیں نیا پاکستان نہیں بوسیدہ نظام کی جگہ نیا نظام چاہیئے، جب یہ ہو جائے گا تو پھر خان صاحب سمیت تمام ہم وطنوں کو نئے پاکستان کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ رب ذوالجلال اپنے پیارے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں ایسے اہل افراد سے نوازے، جو ہر میدان میں اپنے وطن کی عظمت کا دفاع کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں۔
خبر کا کوڈ : 870271
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش