0
Tuesday 23 Jun 2020 11:37

پاراچنار دھماکہ، علاقہ ایک بار پھر دہشتگردی کے نشانے پر

یہاں دھماکوں میں عموماً حکومت خود ہی ملوث یا کم از کم سہولتکار ہوتی ہے
پاراچنار دھماکہ، علاقہ ایک بار پھر دہشتگردی کے نشانے پر
رپورٹ: محمد جان طوری (جرمنی)

22 جون کو دن 11 بجے پاراچنار کے شہری علاقے عیدگاہ میں ایک زور دار دھماکہ ہوا، جس سے پاس ہی کھڑی ایک کار کو شدید نقصان پہنچا، تاہم اس میں بیٹھی خاتون سمیت کنج علیزئی سے تعلق رکھنے والے دیگر تمام افراد معجزانہ طور پر بچ گئے۔ دھماکہ خیز مواد کچرے کے ایک ڈرم میں نصب کیا گیا تھا۔ دھماکے کی وجہ تا دم تحریر معلوم نہیں ہوسکی ہے، تاہم خیال رہے کہ پاراچنار میں اکثر دھماکے اسی علاقے یا اس کے قرب و جوار میں ہوئے ہیں۔ چند سال قبل وقوعہ سے دس گز کے فاصلے پر مین روڈ پر دو دھماکے اور اس کے بعد اسی عیدگاہ میں دو اور دھماکے، نیز دو سال قبل جمعۃ الوداع کو یہاں سے پچاس میٹر کے فاصلے پر مغرب کی جانب بیک وقت دو جڑواں دھماکے ہوئے تھے، جن میں خواتین اور بچوں سمیت مجموعی طور پر سینکڑوں بے گناہ شہری جام شہادت نوش گئے تھے۔ اکثر دھماکوں کی اصل وجوہات کا حکومت کو علم بھی ہوچکا ہے، جس کا اعتراف مقامی انتظامیہ نے مختلف مواقع پر کر بھی لیا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی مجرم کو کسی قسم کی سزا نہیں مل سکی ہے۔

جس کی ایک اہم وجہ ہمارے قومی اداروں بشمول تحریک حسینی اور انجمن حسینیہ کی غفلت بھی ہے، جنہوں نے ابھی تک اس حوالے سے حکام بالا اور ذمہ دار اداروں تک اپنی فریاد نہیں پہنچائی۔ چند سال قبل اسی علاقے میں کباڑ میں دھماکہ ہوا تھا، جس میں ایک غریب شخص اور اس کا کم سن بیٹا جان بحق ہوا تھا۔ اس دھماکے کے حوالے سے لوگوں کی رائے تھی کہ دھماکے سے صرف چند روز قبل بوشہرہ کے حاجی بخت جمال کے بیٹے محمد جمال نے کباڑ والوں کو دھمکی دے کر کہا تھا کہ یہاں سے اپنا کباڑ ہٹاؤ، ورنہ حالات کی تمام تر ذمہ داری تم پر عائد ہوگی۔ پھر اس کے تین یا چار روز بعد ہی دھماکہ ہوگیا۔ اس دھماکے میں اس وقت کے تحصیلدار کے ملوث ہونے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ تاہم حقیقت کا علم تو متعلقہ اداروں ہی کو ہوگا۔

22 جون کے دھماکے کے حوالے سے بھی یہی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ دھماکے میں حاجی بخت جمال اور اس کا خانوادہ ملوث ہوسکتا ہے، کیونکہ اس علاقے کو وہ متنازعہ قرار دے رہے اور حکومت سے بار بار مطالبہ کرچکے ہیں کہ اس علاقے سے ریڑھیوں وغیرہ کو ہٹاؤ۔ حالانکہ صدہ میں اہل تشیع کی اراضی، بلکہ امام بارگاہ اور قبرستان تک میں آزادانہ طور پر آبادکاری کی جا رہی ہے، لیکن کوئی پرسان حال نہیں، اگر کہیں کوئی شکایت کی بھی جائے تو حکومت اسے ٹال دیتی ہے۔ عیدگاہ کی اس اراضی کے حوالے سے سننے میں آیا ہے کہ آرمی کے متنازعہ افسر نے انہیں کئی بار یہی مفید مشورہ دیا کہ علاقے کو متنازعہ ثابت کرنے کے لئے اسے کسی طریقے سے نشانہ بنانا پڑے گا۔ چنانچہ مجوزہ منصوبے پر ہی عمل کیا گیا، جس طرح کہ اس سے پہلے بھی ایسے مفید سرکاری مشوروں پر عمل کیا جاچکا ہے، کیونکہ پاکستان میں شیعوں کا خون کشمیریوں اور فلسطیوں سے کہییں زیادہ ارزاں ہے۔

یہاں پاراچنار کے حوالے سے ایف سی اور اس کے ذمہ داروں کی تو بات ہی کچھ اور ہے، حتی کہ یہاں بعض فوجی افسران بھی اس کالے دھندے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ جن میں سے موجودہ ایک آرمی افسر کا نام سرفہرست ہے۔ افسر صاحب نے اپنے Boss کا چارج بھی اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے اور ان کی تمنا ہے کہ پاراچنار کا پورا چارج بلا شرکت غیرے انہی کے حوالے کیا جائے۔ اس آرمی افسر نے اشتیاق مرزا کا ادھورا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اشتیاق مرزا کو دکانداروں اور پیادہ رو افراد کی مار پٹائی کا بڑا شوق ہے۔ یہی کام اس وقت اس افسر نے شروع کر دیا ہے۔ جس کا واضح ثبوت 7 جون کو بوقت مغرب زنانہ ہسپتال روڈ پر پی اے چوک کی طرف واقع آرمی پھاٹک میں ایک بے گناہ موٹر سائیکل سوار کی مار پٹائی کا واقعہ ہے۔ جسے بغیر کسی جرم کے اتنا مارا گیا کہ ایسی مار پٹائی جے آئی ٹی کے دوران پولیس والے بھی نہیں کیا کرتے۔

اس آرمی افسر نے اب ایک اور دھندہ شروع کر دیا ہے کہ اپنے دوستوں کے توسط سے فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپنی تشہیر کراتا ہے۔ جیسے کچھ دن قبل ابرار جان طوری نے اپنے پیج کے ذریعے اپنے دوست آرمی افسر کی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاراچنار میں کورونا کی روک تھام کی ذمہ داری اس افسر کے حوالے کی جائے۔ اس آرمی افسر کے حوالے سے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ جس کی جہاں تک رسائی ہو، اعلیٰ فوجی حکام تک ان کے کرتوت پہنچائے، کیونکہ ان کا کردار نہتے کشمیریوں کے خلاف انڈین فوج سے بھی کچھ زیادہ ظالمانہ ہے۔ ایسے غیر ذمہ دار افراد کی وجہ سے پاک فوج بلکہ پورا وطن عزیز پاکستان کسی بھی وقت بنگلہ دیش کی طرح ٹوٹ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 870310
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش