0
Wednesday 24 Jun 2020 12:06

جی بی اسمبلی تحلیل، حفیظ سرکار ختم، میر افضل نگران وزیراعلیٰ مقرر

جی بی اسمبلی تحلیل، حفیظ سرکار ختم، میر افضل نگران وزیراعلیٰ مقرر
رپورٹ: لیاقت علی انجم

گلگت بلتستان اسمبلی مدت پوری ہونے کے بعد تحلیل ہوگئی، سابق ڈی آئی جی پولیس میر افضل کو نگران وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے۔ استور سے تعلق رکھنے والے میر افضل کو وزیراعظم نے صوابدیدی اختیار کے تحت نگران وزیراعلیٰ بنایا ہے، لیکن اس حوالے سے اپوزیشن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ سابق اپوزیشن لیڈر کیپٹن (ر) محمد شفیع کا کہنا ہے کہ ہم انتظار کرتے رہ گئے، لیکن نگران حکومت بن بھی گئی۔ گذشتہ روز جی بی اسمبلی نے اپنی مدت کے آخری روز نئے سال کے بجٹ کی منظوری دیدی جبکہ وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن نے اپنی کابینہ کے آخری اجلاس میں جی بی میں لاک ڈائون نرم کرنے، پبلک ٹرانسپورٹ، سیاحت پر پابندی ختم کرنے کی بھی منظوری دیدی۔ یاد رہے کہ 2015ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تھی اور نون لیگ نے تنہا حکومت بنائی تھی، جس کے نتیجے میں پارٹی کے صوبائی صدر حفیظ الرحمن وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔

جی بی کو نیم صوبائی درجہ ملنے کے بعد وہ دوسرے وزیراعلیٰ تھے، اس سے پہلے پی پی کے سید مہدی شاہ 2009ء سے 2014ء تک جی بی کے پہلے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ دوسری جانب نگران کابینہ کیلئے ناموں کی فہرست بھی تیار کر لی گئی ہے، غیر متوقع طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو بھی نگران وزیر کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ نگران کابینہ کے لئے متوقع وزراء کی فہرست میں تین افراد سینیئر صحافی ایمان شاہ، ناصر زمانی اور آفتاب اسماعیل کے نام فائنل ہوچکے ہیں جبکہ دیگر متوقع وزراء کو وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اسلام آباد طلب کیا ہے، ان سے وفاقی وزیر امور کشمیر الگ الگ ملاقاتیں کریں گے، نگران کابینہ کے امیدواروں میں کچھ پہلے ہی اسلام آباد میں موجود ہیں، کچھ اسلام آباد روانہ ہوچکے ہیں، جن امیدواروں کو اسلام آباد طلب کیا گیا ہے، ان میں کوہ پیما ثمینہ بیگ ہنزہ، محمد علی خان نگر، ڈاکٹر حسن خان اماچہ سکردو، مولانا سرور شاہ دیامر، عارف اسلم پنجاب، سید شبیہ الحسن رضوی استور، وقار عباس گانچھے، سلمان ولی گلگت اور یاسین ایڈووکیٹ شامل ہیں۔

پولیس کانسٹیبل سے ڈی آئی جی اور پھر نگران وزیراعلیٰ تک کا سفر
گلگت بلتستان کے نگراں وزیراعلیٰ میر افضل پولیس میں کانسٹیبل کی پوسٹ پر بھرتی ہوئے تھے اور پھر ترقی کرتے کرتے نگران وزیراعلیٰ تک پہنچ گئے۔ جی بی کے ضلع استور سے تعلق رکھنے والے میر افضل نے کچھ عرصہ پولیس میں نوکری کرنے کے بعد ملازمت چھوڑ کر دوبارہ تعلیم شروع کی اور پرائیویٹ بی اے کیا، پھر تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق انہوں نے گورنمنٹ مڈل سکول ڈموٹ جگلوٹ میں تین سال تک تدریس کی خدمات انجام دیں، تین سال تدریس کے شعبے سے منسلک رہنے کے بعد 1974ء میں وہ دوبارہ پولیس میں اے ایس آئی کے عہدے پر بھرتی ہوئے، 1984ء میں وہ ڈی ایس پی بنے، 1989ء میں انہیں ایس پی کے عہدے پر ترقی دیدی گئی اور وہ ضلع گانچھے کے پہلے ایس پی تعینات ہوئے۔

1991ء میں ان کا تبادلہ سکردو میں کیا گیا اور حاجی میر افضل 1993ء تک سکردو میں ایس پی تعینات رہے۔ 1993ء میں ان کا تبادلہ گلگت میں کیا گیا، 1993ء سے 1996ء تک گلگت اور دیامر میں ایس پی کے عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ مختلف ادوار میں سپیشل برانچ کے انچارج بھی رہے، 1997ء میں وہ سینیئر سپرٹینڈنٹ پولیس کے عہدے پر سکردو میں تعینات ہوئے۔ 1999ء میں انہیں اے آئی جی کے عہدے پر ترقی دی گئی اور ان کا تبادلہ پشاور میں کیا گیا۔ دو سال پشاور میں آئی بی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے، 2002ء میں وہ گلگت ریجن میں ڈی آئی جی تعینات ہوئے، تین سال گلگت میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات رہنے کے بعد جولائی 2005ء میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ دو روز قبل وزیراعظم عمران خان نے انہیں جی بی کا نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا۔

حفیظ سرکار کے پانچ سال
گلگت بلتستان میں ہمیشہ سے ایک روایت یہ رہی ہے کہ وفاق میں جس پارٹی کی حکومت ہو، اس کی لامحالہ یہاں بھی حکومت بن جاتی ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران وفاق میں نواز شریف کی حکومت تھی، پھر جی بی الیکشن میں بھی نون لیگ کو ہی کامیابی ملی اور پارٹی کے صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمن وزیراعلیٰ بن گئے۔ جامعہ اشرفیہ سے فارغ التحصیل حفیظ الرحمن ایک بہترین مقرر بھی ہیں، وہ ایک نکتے پر گھنٹوں بول سکتے ہیں۔ اسی مہارت کا نتیجہ تھا کہ حفیظ سرکار نے پورے پانچ سال تک نہ صرف اپنی حکومت کی پالیسیوں کا بہترین دفاع کیا بلکہ اپوزیشن کو بھی دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کر دیا۔ وفاق میں نواز شریف سے کئی منصوبے لینے میں کامیاب ہوئے، تاہم وہ تمام منصوبے ایک حلقے تک محدود رہے۔ حفیظ سرکار کے پانچ سال میں بلتستان خسارے میں رہا۔ بلتستان سے نصف درجن وزراء کابینہ کا حصہ ہونے کے باوجود علاقے کیلئے کوئی قابل ذکر منصوبہ لانے میں بری طرح ناکام رہے۔

حفیظ الرحمن پورے پانچ سال بلتستان یونیورسٹی اور جگلوٹ سکردو روڈ کا راگ الاپتے رہے۔ یہ دونوں منصوبے پیپلزپارٹی پارٹی دور میں فائنل ہوئے تھے، پی پی حکومت کے دور میں سکردو روڈ منصوبہ چینی کمپنی کو دیا گیا تھا، بعد میں مبینہ طور پر نون لیگ نے ٹینڈر منسوخ کروایا اور اس منصوبے کو نواز شریف حکومت نے شروع کروایا گیا۔ بلتستان کے ساتھ ضلع ہنزہ، نگر، استور اور غذر کو بھی یکسر نظر انداز کیا گیا۔ نون لیگ کے دور حکومت میں صحافت زیر عتاب رہی، اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ چار نئے اضلاع کے قیام کا اعلان بھی ہوائی ثابت ہوا، جی بی کی آئینی حیثیت کے بارے میں قائم سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔

متوقع منظرنامہ
آئینی طور پر نگران حکومت تین ماہ کے اندر انتخابات کرانے کی پابند ہے۔ اس حساب سے 24 اگست تک عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ ایک دو روز میں نگران کابینہ بھی مکمل ہو جائے گی، اس کے بعد انتخابات کے عمل کی طرف باقاعدہ قدم بڑھایا جائے گا۔ چونکہ گلگت بلتستان میں فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں، اس لیے نگران حکومت صرف برائے نام رہے گی اور اوپر کے فیصلوں پر ہی عمل کرے گی۔ وفاق میں عمران خان حکومت کی موجودگی میں جی بی میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری رہے گا، تاہم پارٹی کے اندرونی اختلافات اور انتشار کی وجہ سے ابھی تک تحریک انصاف واضح پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی۔ عمران خان کی مداخلت کے نتیجے میں اگر پارٹی میں اختلافات ختم ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئیگی، اس صورت میں تحریک انصاف کے صوبائی صدر جسٹس (ر) سید جعفر شاہ اگلے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 870543
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش