QR CodeQR Code

حکومت پاکستان ہوش کے ناخن لے، ورنہ بہت دیر ہوجائیگی

امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے اشاروں پر پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو نابود کیا جا رہا ہے

26 Jun 2020 00:37

اسلام ٹائمز: پاکستان میں برسراقتدار صرف موجودہ حکومت ہی نہیں، بلکہ ہر حکومت بذات خود ایک اور نظام کے ماتحت ہوتی ہے، جسکا علم دنیا بھر کے ہر فرد اور ہر ملک کو ہوتا ہے، تاہم دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بظاہر ایک جمہوری صدر اور وزیراعظم اقتدار کی کرسی پر براجماں رہتا ہے۔ عرصہ چالیس سال سے ملک کے اندر کوئی بھی شہری محفوظ نہیں، کوئی مسلمان یہاں محفوظ ہے، نہ ہی کوئی غیر مسلم، مسلمانوں کی مسجد اور امام بارگاہ محفوظ ہے، نہ ہی غیر مسلموں کے چرچ، مندر اور گردوارے۔ ہاں ایک مخصوص طبقہ اور ان کے مقدسات یہاں محفوظ ہیں اور وہ ہیں تکفیری سوچ کے حامل دیوبندی اور وہابی مکتبہ فکر کے لوگ اور انکی عبادتگاہیں۔ یہ طبقہ پاکستان کی محض 15 سے لیکر 20 فیصد تک کی قلیل مسلم آبادی کو تشکیل دیتا ہے۔ تاہم اس کی پشت پر چونکہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب جیسی حکومتیں ہیں۔ لہذا ملک کے اندر انہی کے وارے نیارے ہیں۔ یہ لوگ جو چاہتے ہیں، ملکی نظام مجبوراً ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا پابند ہے۔


رپورٹ: روح اللہ طوری

مملکت خداداد پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے، لہذا ایک طرف اسلامی نظام جبکہ دوسری جانب جمہوریت اسے اس بات کا پابند بناتی ہے کہ یہ ملکی حدود کے اندر رہنے والے ہر شہری، خواہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، کو بنیادی حقوق فراہم کرے۔ جمہوریت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ملک کے اندر ہر شہری کو روٹی، کپڑا اور مکان سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے، اس کے علاوہ ہر شہری، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، کو آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات منعقد کرنے کے حوالے سے ہر قسم کی سہولیات فراہم کرے۔ یہی تو وجہ ہے کہ جمہوریت کے دعویدار مغربی ممالک میں انسانی حقوق کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے، اگرچہ حقیقت سے دور کا بھی اس سے واسطہ نہیں ہوتا۔

اسلامی مملکت کا فرض:
پاکستان جمہویت کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی مملکت بھی ہے، اسلامی مملکت کی ذمہ داری کسی غیر اسلامی جمہوری مملکت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ مملکت کے اندر ہر شہری کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا، اس کا اسلامی اور مذہبی فرض ہوتا ہے، جن میں روٹی، کپڑا اور مکان سے لیکر اس کی مذہبی رسومات کی آزادی تک سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ مولا علی علیہ السلام کے زمانہ خلافت میں ڈاکؤں نے ایک غیر مسلم خاتون کو سفر کے دوران روک کر اس کے خلخال یعنی کڑے سا پاؤں کا مخصوص زیور زبردستی اتار کر تاراج کئے، جس پر مولائے متقیان علی علیہ السلام برداشت سے باہر ہوگئے اور کہا کہ علی ابھی زندہ ہے جبکہ اس کے ملک کی حدود میں ایک بے گناہ خاتون کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ یہ ہے اسلامی مملکت کی ذمہ داری۔
اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں برسر اقتدار نظام اور حکومت، اسلام اور جمہوریت کے حوالے سے اپنا فرض کس حد تک نبھا رہی ہے۔

پاکستان میں برسراقتدار صرف موجودہ حکومت ہی نہیں، بلکہ ہر حکومت بذات خود ایک اور نظام کے ماتحت ہوتی ہے، جس کا علم دنیا بھر کے ہر فرد اور ہر ملک کو ہوتا ہے، تاہم دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بظاہر ایک جمہوری صدر اور وزیراعظم اقتدار کی کرسی پر براجماں رہتا ہے۔ عرصہ چالیس سال سے ملک کے اندر کوئی بھی شہری محفوظ نہیں، کوئی مسلمان یہاں محفوظ ہے نہ ہی کوئی غیر مسلم، مسلمانوں کی مسجد اور امام بارگاہ محفوظ ہے، نہ ہی غیر مسلموں کے چرچ، مندر اور گردوارے۔ ہاں ایک مخصوص طبقہ اور ان کے مقدسات یہاں محفوظ ہیں، اور وہ ہیں تکفیری سوچ کے حامل دیوبندی اور وہابی مکتبہ فکر کے لوگ اور ان کی عبادتگاہیں۔ یہ طبقہ پاکستان کی محض 15 سے لیکر 20 فیصد تک کی قلیل مسلم آبادی کو تشکیل دیتا ہے، تاہم اس کی پشت پر چونکہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب جیسی حکومتیں ہیں۔ لہذا ملک کے اندر انہی کے وارے نیارے ہیں۔ یہ لوگ جو چاہتے ہیں، ملکی نظام مجبوراً ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا پابند ہے۔

1۔ ایک مخصوص طبقے کی ایما پر مذہبی رسومات کو محدود کرانا:
موجودہ برسراقتدار حکومت سپاہ صحابہ اور اس کے سرپرستوں (امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب) کے اشاروں پر پاکستان میں اہل تشیع کی مذہبی رسومات کو محدود کرنے کے راستے فراہم کر رہی ہے۔ جس کا واضح ثبوت گذشتہ رمضان المبارک میں یوم علی علیہ السلام کے جلسے اور جلوسوں پر پابندی عائد کرنا ہے۔ حکومت سندھ اور پنجاب نے جیسے ہی یوم علی کے جلوسوں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تو سپاہ صحابہ نے اسے اپنی کامیابی قرار دیکر اپنے ہمفکر تکفیری ٹولے کو اس کی مبارک باد دی۔ جس کے بعد اہل تشیع نے مزاحمت کرکے حکومتی فیصلے کو چیلنج کیا اور روایتی طریقے سے یوم علی کے جلوسوں کا انعقاد کیا۔ حالانکہ یہی یا اس سے کمتر کوئی کام انڈیا میں ہو جائے تو ہماری حکومت اسے ہندو انتہاء پسندوں کی انتہا پسندی، نیز حکومت وقت کی ناکامی پر حمل کرتی ہے۔

2۔ انڈین فوج کی طرح اپنے عوام کو اٹھا کر غائب کرانا:
انڈین فوج کے مظالم کی پاکستان میں خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ کشمیر میں اتنے بے گناہ مسلمانوں کو اغوا کیا، اتنوں کو قتل کر ڈالا، حالانکہ ہندوستان میں عام زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ وہاں مسلمان انڈیا سے کشمیر کی علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔ جس پر حکومت انہیں ظلم کا نشانہ بناتی ہے۔ جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔ تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں آج تک کسی شیعہ نے کبھی پاکستان سے علیحدگی کی بات نہیں کی۔ مگر پتہ نہیں، کیا وجہ ہے کہ شیعہ جوانوں، علماء اور سکالرز کو اغوا کرکے لاپتہ کرایا جاتا ہے۔ سالہا سال تک انہیں نامعلوم مقامات پر اذیت ناک سزائیں دی جاتی ہیں، جن کی تاب نہ لاکر آج تک بیسیوں بے گناہ افراد کی تشدد زدہ لاشیں گھر پہنچ چکی ہیں۔ عوام کو شاید اس کی اصل وجہ معلوم نہ ہو، تاہم میں بتا دیتا ہوں، وہ یہ کہ یہاں کسی ایسے شخص کو کچھ نہیں کہا جاتا، جو دن رات نیٹ یا تقریر اور تحریر میں مقدسات کو نشانہ بناتا ہے، بلکہ یہاں ایسے افراد ہمارے اداروں کے نشانے پر ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل کے مخالف اور فلسطین کاز کے حامی ہیں۔ اس فلسطین اور مظلوم نواز پالیسی پر اہل تشیع کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

3۔ دیگر ممالک میں موجود اپنے شہریوں سے غفلت:
دنیا کے تمام ممالک بشمول انڈیا کے بیرونی ممالک میں موجود اپنے شہریوں کے حقوق کا بھرپور تحفظ کرتے ہیں۔ عرب امارات خصوصاً سعودی عرب میں ان کے شہریوں کو جو بھی مسئلہ درپیش ہو، اپنی سفارت کے ذریعے فوراً اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں اور متعلقہ ملک کو اپنے شہریوں کو ان کا حق دلانے پر مجبور کرتے ہیں۔ مگر ہماری حکومت کے ریکارڈ میں یہ بات آپکو کبھی نظر نہیں آئے گی۔ عرب ممالک سے لاکھوں پاکستانی شہریوں خصوصاً اہل تشیع کو نکالا گیا۔ ہزاروں افراد کو جیل بلکہ موت کی سزائیں مل گئیں۔ مگر حکومت پاکستان نے اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کیا، وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملک انہی ممالک کے ٹکوں پر پل رہا ہے۔

4۔ مغرب کی خوشنودی کی خاطر میڈیا پر اسرائیل نواز پروگرامات کی تشہیر:
ملکی میڈیا غلامانہ ذہنیت کا حامل ہے۔ نجی اور سرکاری ٹی وی پر امریکہ، اسرائیل، خصوصاً عالم عرب میں کسی بہت بڑے ایسے واقعے کو کوئی کوریج نہیں دی جاتی، جس سے عوام کے بجائے حکومت کی کمزوری نمایاں ہوتی ہوں۔ مثلاً امریکہ میں سیاہ فاموں پر ہونے والے ظلم، سعودی عرب اور بحرین کی جانب سے اپنے اور یمن کے مظلوم مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کو یہاں کوئی کوریج نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ ایران، شام، لبنان، عراق میں اسرائیل اور امریکہ خصوصاً داعش کی پے درپے شکستوں کے مقابلے میں ان کی معمولی کامیابی کو خوب کوریج ملتی ہے۔ لہذا عراق میں جنرل سلیمانی کے قتل کو پاکستانی میڈیا نے خوب کوریج دی، مگر چار ہی دن بعد امریکی اڈوں پر ایرانی حملوں کو کوئی خاص کوریج نہیں مل سکی۔

یمنی فوج کی جانب سے سرکاری اور فوجی عمارات کو نشانہ بنایا جائے تو اسے مکہ اور مدینہ پر حملہ قرار دیا جاتا ہے، جبکہ یمن میں بچوں کے سکولوں اور ہسپتالوں پر انتہائی وحشیانہ حملوں کو یہاں کا میڈیا مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت پاکستان اپنے شہریوں سے بھلائی کی توقع بھی رکھ رہی ہوگی۔ تاہم ایسے متاثرہ اور مظلوم اپنے شہریوں سے خیر کی توقع رکھنا کسی بھی حکومت کی بھول ہوگی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان جدا ہونے کا سبب ہی یہی تھا کہ وہاں کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ ظلم ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے مجبور ہوکر عوامی احتجاج شروع ہوا، چنانچہ حکومت پاکستان ہوش کے ناخن لے، ورنہ پھر کافی دیر ہو جائے گی۔ جس کا ازالہ کبھی ممکن نہ ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 870835

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/870835/حکومت-پاکستان-ہوش-کے-ناخن-لے-ورنہ-بہت-دیر-ہوجائیگی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org