QR CodeQR Code

کشمیر کی حالت زار اور راہ حل

25 Jun 2020 23:31

اسلام ٹائمز: خدا ہی ہے جو فلسطینیوں، کشمیریوں، یمنیوں، افغانیوں اور افریقی نیز دنیا بھر مستضعف انسانوں کی داد رسی کرے۔ اگر یہ مظلومین انسانوں اور اقوام متحدہ جیسے کفن چوروں کے رحم و کرم پر رہے تو شاید کبھی بھی آزادی و استقلال کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا نہ دیکھ پائیں۔ یہ ان مظلوموں کیلئے بھی سبق ہے کہ وہ شرق و غرب کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے رب سے لو لگائیں اور اپنے ہی زور بازو پر انحصار کرتے ہوئے دشمن کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ یہ سنت الہیٰ ہے کہ جب خدا پر توکل کرکے اقدام کیا جائے تو اکثر چھوٹے گروہ بڑے بڑے لشکروں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اللہ کریم کشمیری، فلسطینی، یمنی، افغانی اور دنیا بھر کے مستضف لوگوں کو کامیابی و کامرانی نصیب فرمائے۔


تحریر: سید اسد عباس

کشمیری پانچ اگست 2019ء سے اپنے گھروں میں قیدیوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی فوج نے وادی میں، مارکیٹیں، بزنس اور پبلک ٹرانسپورٹ بند کر رکھی ہے، ادویات کی کمی کی وجہ سے مریض جان سے ہاتھ دھونے لگے ہیں۔ اپنے گھروں میں بھی کشمیریوں کو سکھ کا سانس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ وادی کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے نام پر کریک ڈاون جاری ہے، جس میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ہزاروں کشمیری اغوا کیے جاچکے ہیں، جن میں 14 برس سے کم عمر بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ کرفیو اور لاک ڈاون کے باعث وادی میں اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ وادی میں 5 اگست کو لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس مکمل بند کی گئیں، جن میں سے اب وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد جزوی بحالی ہو رہی ہے۔ فقط 301 ويب سائٹس تک رسائی دی گئی ہے۔ وادی میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت جو 5 اگست کو مکمل طور پر بند کی گئی تھی، اب اسے 2 جی کی حد تک کھولا گیا ہے، البتہ سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر پابندی اب بھی برقرار ہے۔ وادی بھر میں کئی ایک سوشل میڈیا اکاونٹس اور انٹرنیٹ صارفین کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

5 اگست کے بعد سے شہریوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں کرنے دی جا رہی تھی، سرینگر کی مشہور جامعہ مسجد 19 ہفتوں کے بعد کھلی اور وہاں نمازیوں کو باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کرفیو کے نفاذ سے 80 لاکھ کشمیریوں کی زندگی پٹڑی سے اتر چکی ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے خلاف آپریشن کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس میں اطلاعات کے مطابق رواں سال میں 100 کے قریب نوجوانوں کو عسکریت پسند قرار دے کر قتل کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی گئی ہے اور صرف پچھلے دو ہفتے کے دوراں وادئ کشمیر میں 22 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔

جارحیت کے شکار بچوں کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے گذشتہ برس 5 اگست کے بعد سے 13000 سے زائد کم عمر بچوں کو غیر قانونی حراست میں لیا۔ یہ اعداد و شمار نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد پیش کئے گئے اور جسے مغربی ذرائع ابلاغ کے کئی حصوں کی جانب سے 4 جون کو انٹرنیشنل ڈے آف انوسینٹ چلڈرن وکٹمز آف ایگریشن کے دن کی مناسبت سے شائع کیا۔ رپورٹ کے مطابق 5 اگست 2019ء کو جب مودی حکومت کی جانب سے ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کیا گیا، اس کے بعد بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں 14 سال سے کم عمر 13000 سے زائد بچوں کو حراست میں لیا، جو قانونی طور پر ان کے اغوا کے مترادف ہے۔

رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم جاری ہیں۔ جہاں اس تشدد میں خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان گرفتار بچوں کو 45 دن سے زیادہ حبس بیجا میں رکھنے کے علاوہ انہیں نظر بند بھی کیا گیا۔ ان میں سے کچھ بچے 7 سے 8 سال کی عمروں کے بھی تھے، جن کی رہائی کیلئے والدین یا خاندانوں نے 60 ہزار روپے تک ادا کئے۔ اس رپورٹ میں عوام الناس کیلئے کچھ امتیازی کہانیوں کو بھی رپورٹ کا حصہ بناتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گلی میں جاتے ان معصوم بچوں کو نہ صرف اٹھایا گیا بلکہ ان کو ان کے گھروں سے میلوں دور پہنچا دیا گیا۔ تاکہ ان کے والدین ان کا فوری سراغ نہ لگا سکیں۔ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے اس وفد کی رپورٹ میں کچھ لوگوں کے انٹرویو بھی کئے گئے، جن میں کویتا کرشنن بھی ہیں۔ انہوں نے وفد کو ثبوتوں کے ساتھ بتایا کہ کس طرح بھارتی فوج نے 7 سال سے لے کر 14 سال کے بچوں کو آدھی رات کے وقت ان کے بستروں سے مارتے ہوئے اٹھایا، انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا اور اس کی کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔ اس صورتحال میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں اغوا کیا گیا۔

ان سب مظالم کے ساتھ ساتھ مودی سرکار کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو بدلنے کے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہے۔ اس مقصد کے لیے کئی لاکھ غیر مقامی افراد کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر دیئے گئے ہیں، ڈومیسائل حاصل کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔ یہ ڈومیسائل جموں اینڈ کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفیکٹ (پروسیجر) رولز دو ہزار بیس کے مطابق جاری کیے جا رہے ہیں، جس کو او آئی سی کے اجلاس میں مسترد کیا گیا ہے۔ ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم کے انسانی حقوق کے بارے میں آزاد مستقل کمیشن نے کہا ہے کہ دنیا کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کی کوششیں کر رہی ہے اور بھارت اس موقع کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے گھناؤنے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ بھارت سرکار کا یہ اقدام چوتھے جنیوا کونشن کی شق ستائیس اور انچاس سمیت انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کے تحت کشمیری عوام کو دیئے گئے انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال، وہاں کے رہنے والے نہتے مسلمانوں پر ہونے والے بھارتی مظالم اور ہتھکنڈوں کے مقابل عالمی برادری کی چپ اور اسلامی برادری کے شرمناک تجاہل کو دیکھ کر دل فقط ایک خواہش کرتا ہے کہ کاش امام خمینی زندہ ہوتے اور یوم القدس کی مانند ایک دن یوم کشمیر کا بھی متعین کرتے، تاکہ دنیا کے مسلمان اس دن نکل کر اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ہم آواز ہوتے۔ جس سے کم از کم کشمیریوں کو یہ حوصلہ تو ملتا کہ مسلمان حاکم نہ سہی عوام ہمارے دکھ اور درد میں برابر کے شریک ہیں۔ فلسطنیوں کی مانند آج کشمیری مسلمانوں کو بھی ان کی آزادی اور استقلال کی خواہش کی سزا دی جا رہی ہے، ان کی نسلیں پاکستان سے الحاق کی خواہش کی جو قیمت ادا کر رہی ہیں، شاید خود پاکستانیوں نے یہ وطن بنانے کے لیے اتنی قیمت ادا نہ کی ہو۔

 پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہر اہم ترین مسئلہ کی مانند اس مسئلہ کو بھی فقط سیاسی بیان بازی کا میدان سمجھ لیا ہے۔ کشمیریوں کے دکھوں کے مداوا کے لیے کچھ سفارتی اقدامات کے علاوہ ہم کوئی عملی مدد دینے سے قاصر ہیں، جبکہ یہ مسئلہ پاکستان کے بقا کا مسئلہ ہے۔ بقول قائد، کشمیر ہماری شہ رگ حیات ہے، اگر فقط کشمیر کی وادی سے آنے والے دریا رک جائیں تو پاکستانی زمینیں خشک و بنجر ہو جائیں گی، تاہم جب ہمارے پاس قائد کی اس نعمت جسے پاکستان کہا جاتا ہے، کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے تو شہ رگ کی کیا اہمیت ہوگی۔ ہمارے سیاستدانوں نے اس وطن کو ہمیشہ معاشی طور پر نقصان ہی پہنچایا ہے، ایسے میں ان سے بھلا کیا توقع کی جائے کہ وہ شہ رگ پاکستان کے تحفظ کے لیے کوئی اقدام کریں گے۔

خدا ہی ہے جو فلسطینیوں، کشمیریوں، یمنیوں، افغانیوں اور افریقی نیز دنیا بھر مستضعف انسانوں کی داد رسی کرے۔ اگر یہ مظلومین انسانوں اور اقوام متحدہ جیسے کفن چوروں کے رحم و کرم پر رہے تو شاید کبھی بھی آزادی و استقلال کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا نہ دیکھ پائیں۔ یہ ان مظلوموں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ شرق و غرب کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے رب سے لو لگائیں اور اپنے ہی زور بازو پر انحصار کرتے ہوئے دشمن کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ یہ سنت الہیٰ ہے کہ جب خدا پر توکل کرکے اقدام کیا جائے تو اکثر چھوٹے گروہ بڑے بڑے لشکروں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اللہ کریم کشمیری، فلسطینی، یمنی، افغانی اور دنیا بھر کے مستضف لوگوں کو کامیابی و کامرانی نصیب فرمائے۔ نصر من اللہ و فتح قریب


خبر کا کوڈ: 870916

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/870916/کشمیر-کی-حالت-زار-اور-راہ-حل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org