7
Saturday 27 Jun 2020 19:35

چین و بھارت محدود تصادم کا سبق برائے پاکستان

چین و بھارت محدود تصادم کا سبق برائے پاکستان
تحریر: محمد سلمان مہدی

بہ لحاظ آبادی دنیا کے دو سب سے بڑے ملک چین اور بھارت کی افواج متازعہ علاقے لداخ کے علاقے وادی گلوان پر گتھم گتھا ہوئیں۔ گو کہ باقاعدہ اسلحے کا استعمال نہیں ہوا، لیکن لاٹھی جیسی لکڑی اور شٹرنگ میں استعمال ہونے والی کیلوں سے لیس تختے ٹائپ لکڑیوں کو اسلحے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ باقاعدہ ہاتھا پائی اور مذکورہ کیل سے لیس کاٹھیوں و لاٹھیوں کے استعمال سے فریقین کا جانی نقصان بھی ہوا۔ بھارت نے سرکاری سطح پر 20 بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کی تصدیق کی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ چین کے بھی 43 فوجی مارے گئے ہیں۔ البتہ چین نے اپنے مرنے والے فوجیوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی۔ گو کہ یہ محدود تصادم ہے، لیکن اس میں پاکستانی ریاست کے لئے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے۔ بھارت اور چین دونوں ہی ایٹمی اسلحے سے لیس بڑے ملک ہیں۔ اس کے باوجود تصادم کا خطرہ دونوں نے ہی مول لیا اور دونوں ہی نے اسے محدود رکھا اور یہ محدود تصادم بھی مین لینڈ میں نہیں بلکہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ہوا۔ یعنی اس تنازعہ کا ایک سرا مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جب کشمیر ایشو یا مسئلہ کشمیر کی بات کی جاتی ہے تو اس میں لداخ بھی اسی تنازعہ کا ایک حصہ شمار کیا جاتا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی نظر میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر و لداخ کا علاقہ مقبوضہ علاقہ ہے۔ بھارت اور بھارتیوں کی نظر میں پاکستان کے زیر انتظام جو آزاد جموں و کشمیر کا علاقہ ہے، یہ مقبوضہ علاقہ ہے اور یہی موقف چین اور بھارت کا لداخ کے تنازعہ پر ایک دوسرے کے بارے میں ہے۔ گو کہ برطانوی سامراج نے یہاں سے تسلط (نوآبادی) کو ختم کیا تھا، لیکن ساتھ ہی ورثے میں یہ تنازعہ چھوڑ دیا تھا۔ اس تنازعہ میں بنیادی فریق متنازعہ علاقے کی مقامی آبادی ہے، یعنی جموں و کشمیر اور ساتھ ہی لداخ و دیگر علاقے۔ انٹرنیشنل لاء کے تحت یہ علاقے متنازعہ علاقے ہیں۔ گلگت و بلتستان کو بھی اسی کشمیر ایشو میں شامل علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن چین و بھارت کے مابین سرحدی تنازعہ لداخ تک محدود نہیں، بلکہ شمال مشرقی بھارتی صوبے اروناچل پردیش میں پینتیس ہزار مربع میل علاقے کو بھی چین جنوبی تبت قرار دیتا ہے، جبکہ پورے تبت کو چین اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔

چین کے دیگر معاملات جیسا کہ تائیوان و ہانگ کانگ وغیرہ کا بھارت کے ساتھ یا کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ البتہ امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک ان معاملات میں چین کے خلاف موقف رکھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ چین کی باقاعدہ جنگ 1962ء میں ہوئی تھی۔ تب سے دونوں ملکوں کی افواج اس طرح متصادم نہیں ہوئیں تھیں کہ جانی نقصان ہوتا۔ لیکن جون کے جاری مہینے میں خونیں تصادم ہوا ہے۔ اس تصادم کی بنیاد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیراعظم نریندرا مودی کی بھارتی سرکار نے پچھلے برس رکھ دی تھی۔ سانحہ پانچ اگست 2019ء میں بھارت نے متنازعہ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ سے متعلق بھی قانونی و آئینی حیثیت میں چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ اس کے تحت یہ متنازعہ و مقبوضہ علاقے بھارت کا اٹوٹ انگ بنا دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد لداخ کے علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لئے سڑکوں اور پلوں کو تیزی سے تعمیر کیا گیا۔ ان کا مقصد اکسائی چن اور شاہراہ قراقرم سے نزدیک ترین علاقوں تک بھارت کو رسائی حاصل کرنا تھا۔ اکسائی چن پر بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ بھی اس کا حصہ ہے۔

یاد رہے کہ لداخ و اکسائی چن وغیرہ کا یہ علاقہ سطح سمندر سے 14 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں اپریل و مئی تک موسم سرد رہتا ہے، برف جمی رہتی ہے۔ جس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر لائن آف کنٹرول (سیز فائر لائن) کے تحت دو حصوں میں تقسیم ہے، اسی طرح چین اور بھارت کے مابین متنازعہ علاقے لائن آف ایکچول کنٹرول کے ذریعے تقسیم ہیں۔ دونوں ملک اپنی طرف والے حصے میں فوجی موجودگی رکھتے ہیں۔ بھارتیوں کا کہنا ہے کہ چینی افواج نے اپنی طرف والے حصے میں روڈ راستے بنائے، لیکن جب بھارت نے اپنی طرف کے علاقے میں روڈ راستے بنائے تو چین نے اعتراض کر دیا۔ ہوا یوں کہ بھارت نے لداخ میں دربوک، شیوک و دولت بیگ اولدی طویل شاہراہ تعمیر کی ہے۔ دولت بیگ اولدی میں بھارتی فضائی افواج کا اڈہ اور طیاروں کے اترنے کی جگہ ہے۔ یہ علاقہ شاہراہ قراقرم سے محض بارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ شاہراہ اکسائی چن سے نزدیک پٹی پر بنائی گئی ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم ہی لداخ کو چینی صوبے شنجانگ (سنکیانگ) سے جدا کرتی ہے۔ یعنی اس علاقے کی اسٹرٹیجک اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔

اس دوران بین الاقوامی سیاسی منظر نامے میں یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا اور اس کے عرب اتحادی بھی بھارت پر مہربان نظر آئے۔ چین کی قیادت نے یہ منظر بھی دیکھا کہ او آئی سی کے بانی رکن ملک پاکستان پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھارت کو ترجیح دی۔ وزیراعظم نریندرا مودی کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات سے نوازا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے مودی کے بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی اور اس حوصلہ افزائی کے سائے میں بھارت نے پاکستان اور آزاد کشمیر کی طرف بھی انٹرنیشنل لاء کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ لیکن ریاست پاکستان نے سعودی و اماراتی و بحرینی شیوخ و شاہ کے دوست مودی کے خلاف محض زبانی کلامی جمع خرچ کرنے تک خود کو محدود رکھا۔ چین نے اپنے دوست اور اتحادی پاکستان کی روش کے برعکس بھارت کو واقعی جواب دیا۔

البتہ چین کو حق ہے کہ وہ کہے کہ بھارت کو اس نے منہ توڑ جواب دیا بلکہ ٹانگ توڑ، ہاتھ توڑ، سر توڑ جواب دیا ہے۔ چین نے 15 جون 2020ء کو جو کچھ کیا ہے، یہ مودی کے پانچ اگست 2019ء سے شروع کئے جانے والے اقدامات کے جواب کی پہلی قسط سمجھی جانی چاہیئے۔ بھارت کو بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ ہر ملک پاکستان نہیں ہے کہ جس کو امریکا یا سعودی و اماراتی و بحرینی حکمران ڈکٹیشن دے سکتے ہیں۔ چین کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک اس خطے میں چین کے خلاف متحد ہیں۔ تائیوان، تبت، ہانگ کانگ، ساؤتھ چائنا سمندر سمیت پورے انڈو پیسیفک سمندری حدود میں امریکی اتحاد بھارت، جاپان، جنوبی کوریا کو چین کے خلاف استعمال کر رہا ہے، بلکہ آسٹریلیا بھی اس سمندری کواڈ گروپ میں چین کے خلاف استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔ عالمی سطح پر تجارتی جنگ میں بھی امریکا نے چین کو مرکزی حریف قرار دے رکھا ہے۔

چین اور بھارت کے مابین تصادم اور جاری کشیدگی میں پاکستانیوں کے لئے ایک واضح پیغام یا سبق موجود ہے۔ خود بھارت میں مودی سرکار کے مخالفین نے اس کو محسوس کرکے ردعمل کیا ہے۔ بھارتی اپوزیشن و ناقدین مودی سرکار سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف تو اس نوعیت کا ردعمل ظاہر نہیں کرتے، جیسا چین کے مقابلے پر ظاہر کیا ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ امریکی حکام اور مقننہ کے اراکین نے بھارت کے حق میں چین پر تنقید کی ہے۔ ان کے بیانات مودی سرکار کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں کہ وہ چین کے خلاف بھارت کے ساتھ ہیں۔ لیکن مودی سرکاری کو اچھی طرح معلوم ہے کہ چین اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کا ایک مستقل رکن ہے۔ اس لئے چین اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں امریکا کے کسی بھی اقدام کو ویٹو ووٹ کے ذریعے مسترد کر دے گا۔

البتہ پاکستان کے لئے پیغام یہی ہے کہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں اور سویلین آبادی کو نشانہ بنائے جانے پر بھارت کے خلاف چین جیسا فوری ردعمل ظاہر کرے۔ سیز فائر معاہدہ پاکستان کے ساتھ بھی بھارت نے کر رکھا ہے، مگر وہ اس کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ چین اور بھارت نے 1993ء سے اب تک پانچ معاہدے کئے ہیں۔ ان معاہدوں کے ہوتے ہوئے بھی چین نے اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھا تو جیسے کو تیسا ردعمل کرکے دکھا دیا۔ باتوں کی حد تک معاملے کو ٹھنڈا کرنے پر اتفاق ظاہر کیا جا رہا ہے، مگر چین نے تاحال "اسٹیٹس کو" کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے چین سے تعاون مانگنا چاہیئے۔ چین، پاکستان کا دوست ہے اور پاکستان نے بھی ہر مشکل وقت میں چین کی مدد کی ہے۔ جس طرح چین لائن آف ایکچول کنٹرول پر امریکی اتحادی بھارت کو سبق سکھا رہا ہے، چین یہ فکر ریاست پاکستان کو بھی ایکسپورٹ کرے کہ بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دے۔ یاد رہے کہ چین اور بھارت کا یہ تصادم لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ہوا ہے۔ ریاست پاکستان کو یہی کچھ لائن آف کنٹرول پر کرنا چاہیئے۔ مسئلہ کشمیر بھی زبانی جمع خرچ سے حل نہیں ہونے والا۔

یقیناً کوئی بھی جنگ کی حمایت نہیں کرے گا، لیکن بھارت نے باقاعدہ جنگ کے بغیر ہی بہت کچھ حاصل کرکے دکھا دیا ہے۔ ریاست پاکستان نہ تو اس کو درست انداز میں کاؤنٹر کر پائی ہے اور نہ ہی زمینی حقائق تبدیل کر پائی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں سانحہ پانچ اگست 2019ء برپا کر دیا اور وہ برقرار ہے۔ لیکن چین نے سانحہ پانچ اگست کے مقابلے میں بھارت کو واقعہ 15 جون 2020ء کے ذریعے ڈھیر کر دیا ہے۔ بھارتی غرور کا سر جھکا دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے بیانات واضح طور پر اس بھارتی شکست کی طرف اشارہ ہیں۔ اب پاکستان کی باری ہے کہ وہ بھی باقاعدہ جنگ کئے بغیر 27 فروری 2019ء سے زیادہ بڑا اور بھرپور بلکہ فیصلہ کن ردعمل ظاہر کرے اور مقبوضہ جموں و کشمیر بھی آزاد جموں و کشمیر کی طرح آزاد ہو جائیں۔ مگر اس کے لئے خود پر انحصار کرنا ہوگا۔ ریاستی قیادت تو سعودی و اماراتی شیوخ و شاہ کے آسرے پر ہے۔ اس لئے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کاش کہ ہمالیہ سے زیادہ اونچی، سمندر سے زیادہ گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہر موسم میں یکساں و برقرار پاکستان و چین دوستی سے ریاستی حکام اتنا اثر تو چین سے لیں کہ کشمیر ہی آزاد ہو جائے۔ کم سے کم قوم سے یہ جھوٹ تو نہ بولیں کہ مودی کو اعلیٰ ترین سرکاری اعزازات دینے والے اور ابھینندن کو آزاد کرانے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالنے والے پاکستان کے دوست اور محسن ہیں۔
خبر کا کوڈ : 871234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش