0
Sunday 28 Jun 2020 12:22

ہم نمرود سے کیوں ڈریں؟؟؟

ہم نمرود سے کیوں ڈریں؟؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس کیخلاف اس کی پیدائش سے ہی سازشیں شروع ہوگئیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کے مقدر میں جتنے بھی حکمران آئے، سب کے سب ریاست پر اپنے مفاد کو ترجیح دیتے رہے۔ مال لوٹتے، بیرون ملک جائیدادیں بناتے اور چپکے سے بیرون ملک منتقل ہو جاتے۔ یہ کام صرف سیاستدانوں نے نہیں کیا، بلکہ ہمارے بیوروکریٹس، جرنیلوں، ججز اور صحافیوں نے بھی یہی کچھ کیا۔ ملک پھر بھی سلامت ہے اور میرے اللہ کی رحمت سے تاقیامت سلامت رہے گا۔ اس ملک  کے عوام اتنے بھولے اور سادہ ہیں کہ عطار کے جس لونڈے کے سبب بیمار ہوتے ہیں، پھر دوا بھی اسی سے لینے چل پڑتے ہیں۔ ہم اتنے سادہ ہیں کہ کبھی کبھی ایسی حرکت بھی کر بیٹھتے ہیں کہ اپنے پاوں پر کلہاڑی مار لیتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں دنیا میں واحد قوم پاکستانی ہیں، جو اُڑتے تیر کے سامنے آجاتے ہیں، جو گِرتے پہاڑ کے نیچے جا کھڑے ہوتے ہیں، جو سمندر سے اُٹھتے طوفان کے قریب جا کر نظارہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ جو اتنے ہر فن مولا ہیں کہ آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیں، یہ کسی متعلقہ ماہر کے پاس بھیجنے کے بجائے خود ہی اس کا حل تجویز کر دیں گے۔ آپ تجربہ کر لیں، آپ کسی سے کہیں، آپ کو بخار ہے، پیٹ میں درد ہے، ٹانگوں میں ورم ہے۔ وہ آپ کو فوراً اس کا علاج بتا دے گا، بجائے اس کے کہ وہ آپ سے کہے بھئی یہ کسی ڈاکٹر کو چیک کراو، نہیں، وہ خود ڈاکٹر بن جائے گا اور آپ کو ایسا شافی علاج بتائے گا کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔

آپ کسی کیساتھ یہ معاملہ ڈسکس کر لیں کہ میری فلاں زمین کا کیس ہے، کیسے لڑوں، بس وہی بندہ جو چند لمحے پہلے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھا، فوراً ماہرِ قانون بن جائے گا اور آپ کو تمام قانونی رموز و اوقاف سمجھا دے گا۔ انہیں قدموں پر آپ اسے بچوں کی تعلیم کا پوچھ لیں، تو ایک سے بڑھ کر ایک سکول کا پتہ، نصاب، طریقہ تدریس، اساتذہ کی تعلیم، سکول کے ڈسپلن سے آپ کو آگاہ کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم 73 برس کے بعد بھی، وہیں کھڑے ہیں، جہاں 47ء میں ہم نے سفر شروع کیا تھا۔ مجھے تو بعض اوقات ایسے لگتا ہے کہ ہم دائرے میں ہی گھوم رہے ہیں۔ ہم قوم نہیں بلکہ کولہو کے بیل ہیں۔ جو میلوں سفر کرنے کے بعد بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہوتا ہے۔ ہماری ترجیح اپنی نبیڑنے کی بجائے پرائی زیادہ ہے۔ ہم اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی کا کوئی معاملہ ہو، اس کیلئے ہماری رائے اور ہماری خدمات بہت ضروری ہیں۔

اسی سوچ کے تابع ہم نے ماضی میں افغانستان کی جنگ کو اپنے گلے میں ڈال لیا۔ قوم کو بیوقوف بنانے کیلئے ہم نے ایسی کہانی گھڑی کہ روس ہمارے گرم پانیوں کی طرف آرہا تھا، روس کو روکنے کیلئے ہم نے افغانستان میں ہی "جہاد کی دیوار" کھڑی کر دی۔ ہم نے یہ جہاد بھی اپنی بقاء کیلئے نہیں بلکہ امریکہ کی رضا کیلئے کیا۔ ہم نے اپنے ہزاروں جوان اس "میڈ اِن امریکہ جہاد" کی بھٹی میں جھونک دیئے۔ پھر اس کے خمیازے کے طور پر 71 ہزار قیمتی جانوں کا خراج بھی دیا۔ آج اتنی قربانیاں دینے کے بعد ہم نے اعتراف کر لیا کہ روس کیخلاف جہاد ہمارا نہیں تھا۔ یہ کلہاڑی ہم نے خود اپنے پاوں پر ماری۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انڈیا کو افغانستان میں گھس بیٹھنے کا موقع مل گیا۔ مشرقی کیساتھ ہماری مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ امریکہ کی پیدا کردہ دہشتگردی ہمارے گھروں تک پہنچ گئی۔

ہم نے دہشتگردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کیلئے ایک بار پھر قربانی دی۔ ہم صرف ایک ٹیلی فون کال پر لیٹ گئے۔ وہ پرویز مشرف جو کہتا تھا "میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں"، اس کیلئے صرف ایک ٹیلی فون ہی کافی ثابت ہوا۔ یوں ہم دہشتگردی کیخلاف نام نہاد ایک دوسرے محاذ کا ایندھن بن گئے۔ اس کے بعد جب ہماری معیشت بربادی کے دہانے پر پہنچی تو ہم نے کشکول اُٹھا لیا۔ پھر ہمارے فیصلے ہم نہیں وہ لوگ کرنے لگے، جو ہمیں کبھی امداد کے نام پر خیرات دیتے اور کبھی قرض کی بھیک فراہم کرتے۔ ہماری پالیسیاں اسلام آباد کے بجائے واشنگٹن میں بننے لگیں۔ یہاں تک کہ ہمارے حکمران کون ہوں گے، اس کے فیصلے بھی وہیں ہونے لگے۔ یہاں تک کہ ہمارے مولانا فضل الرحمان کو امریکیوں کو یقین دہانی کروانی پڑی کہ اقتدار کا ہُما اِن کی پکڑی پر بٹھا دیں، وہ امریکی مفادات کا بھرپور تحفظ کریں گے۔

ہم ایک آزاد قوم تھے، مگر ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے ہمیں غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ ہم اتنے محتاج ہوچکے ہیں کہ ہم نے کیا کھانا ہے، کب کھانا ہے اور کیسے کھانا ہے؟ یہ فیصلے بھی باہر ہونے لگے۔ واقفان حال کہتے ہیں، پاکستان کی سمندری حدود میں تیل کے ذخائر دریافت ہوچکے ہیں، مگر "اوپر" سے سخت حکم آگیا کہ خبردار، اگر تیل کا نام لیا تو اور ہم سہم کر بیٹھ گئے۔ کوالالمپور میں ہم نے ہی کانفرنس کی تجویز دی، "آرڈر" ملا، پیچھے ہٹ جاو، ہم فوراً سعودی عرب جا کر "سجدہ ریز" ہوگئے اور ہمارے وزیراعظم نے ملایشیا جانے سے انکار کر دیا۔ ہم نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ کیا۔ ایران نے اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھا کر ہماری سرحد تک پہنچا دی، ہمیں پھر "اوپر" سے آرڈر ملا، خبردار اور ہم بھیگی بلی کی طرح چھپ کر بیٹھ  گئے۔ ہم نے اپنے مفاد کا سودا غیروں کی خوشنودی کیلئے ترک کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے غیروں کیلئے اپنا پیٹ کاٹ ڈالا۔

ریکوڈک کا منصوبہ کہاں گیا، یہ کون ہے، جس کے اشارہ آبرو سے ہم چوہوں کی طرح بِلوں میں گھس جاتے ہیں۔ کارکے کا منصوبہ بھی ہم نے لپیٹ دیا۔ اب آجا کر ہماری معیشت کی آخری اُمید سی پیک منصوبہ ہے، مجھے تو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں ہم اس منصوبے کی بساط بھی لپیٹ کر امریکہ کی جھوٹی خوشنودی کی بھینٹ نہ چڑھا دیں، امریکہ کا ڈو مور کا مطالبہ سوراخوں والی بالٹی میں پانی بھرنے کے مترادف ہے۔ آپ جتنا مرضی پانی ڈالتے جائیں گے، وہ رِستا جائے گا۔ ہم کبھی بھی امریکہ کو خوش نہیں کرسکیں گے۔ اس کا صرف ایک حل ہے کہ ہمیں امریکہ کو مائنس کرنا ہوگا۔ جس دن ہم نے امریکہ کو مائنس کرکے اپنے ہی علاقے میں ایک بلاک تشکیل دیدیا، اسی دن ہمارے دن پھر جائیں گے۔ امریکہ کا زوال شروع ہوچکا ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ ہم امریکہ کی اس ڈوبتی کشتی سے بروقت اُتر جائیں۔ اپنے ہی پڑوس میں اپنے نئے پارٹنر تلاش کریں۔

دنیا کا اصول ہے کہ جب تک آپ معاشی طور پر محفوظ نہیں ہو جاتے، آپ دفاعی طور پر محفوظ نہیں ہوسکتے، ریاست مدینہ کی باتیں کرنیوالے وزیراعظم یاد رکھیں کہ حضور نبی کریم (ص) نے اُس وقت تک نبوت کا اعلان نہیں کیا، جب تک آپ (ص) کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مال پر دسترس نہیں ہوگئی۔ جب اسلام کو مالی تحفظ ملا تو اعلان نبوت کرکے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی گئی۔ آج ہم ہاتھ میں کاسہ لئے بڑے بڑے دعوے اور بڑے بڑے منصوبوں کی باتیں کر رہے ہیں۔ غلاموں کے جسم ہی نہیں، فکر بھی غلام ہوتی ہے اور ہمیں خودداری کیساتھ جینا ہے تو ملک میں موجود مافیاز کی گردنیں دبوچنی ہوں گے، جو کبھی پٹرول تو کبھی آٹا، کبھی چینی تو کبھی گیس کا بحران پیدا کر دیتے ہیں۔ ہم نے ان کا "بندوبست" کر لیا تو پھر ہم بڑے دشمن کا مقابلہ بھی آسانی سے کرلیں گے۔ ارادہ پختہ کرکے خدا کی ذات پر یقین کرنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہونے والے جان لیں کہ صرف ایک معمولی سے کورونا وائرس نے بڑی بڑی سپرپاورز کا زعم خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہے میرے خدا کی طاقت، جو نمرود کیلئے صرف ایک مچھر بھیجتا ہے، تو پھر ہم نمردو وقت سے کیوں ڈریں۔؟؟
خبر کا کوڈ : 871316
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش