QR CodeQR Code

جنوبی یمن نئی صہیونی سازش کے نشانے پر

28 Jun 2020 20:34

اسلام ٹائمز: اس سے پہلے اسرائیل نے بحیرہ احمر میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے سوڈان کی سرحد کے قریب دو فوجی اڈے "رواجیات" اور "مکہلاوی" تشکیل دے رکھے تھے اور وہاں سے آبنائے باب المندب پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ آبنائے باب المندب بحیرہ احمر کو خلیج عدن اور بحر ہند سے جدا کرتا ہے۔ اسی طرح یہ آبنائے دو براعظموں افریقہ اور ایشیا میں حد فاصل بھی ہے۔ لہذا اسٹریٹجک اعتبار سے انتہائی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ صرف 2016ء میں ہر روز 48 لاکھ بیرل خام تیل اور تیل کی دیگر مصنوعات اس علاقے سے گزر کر یورپ، امریکہ اور ایشیا منتقل ہوئے ہیں۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ 1995ء میں اسرائیل اور یمن کے درمیان "حنیش" جزیرے پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ اس زمانے میں اسرائیل نے اس جزیرے پر قبضے کیلئے اریتھرے کو مدد فراہم کی تھی۔ اس وقت بھی اسرائیل اریتھرے میں ایک فوجی اڈے کا مالک ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے اپنے گھیراو کی کوشش کا مقابلہ کرے اور اپنے اردگرد ایک محفوظ بیلٹ تشکیل دے۔ اسی طرح یمن میں اثرورسوخ بڑھا کر انصاراللہ یمن کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ تل ابیب اپنے خیال میں خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک (ایران، شام، لبنان، عراق، فلسطین، یمن) کا گھیراو توڑنے کے درپے ہے۔ جنوبی یمن میں کٹھ پتلی حکمران برسراقتدار لانا اسی منظرنامے کا حصہ ہے۔


تحریر: فاطمہ صالحی

حال ہی میں اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے یمن سے متعلق بعض سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔ یہ رپورٹ یمن سے متعلق صہیونی سازشوں اور شیطانی منصوبوں کے بارے میں خبروں کی دنیا میں ایٹمی دھماکے سے کم نہیں ہے۔ اسرائیلی اخبار "اسرائیل ہیوم" جو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے وابستہ ہے نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان "یمن میں اسرائیل کا نیا خفیہ دوست" ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی یمن میں عیدروس قاسم عبدالعزیز الزبیدی کی سربراہی میں ایک نئی حکومت تشکیل پائی ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ بہت اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اسی طرح رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جنوبی یمن کے نئے حکمرانوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان خفیہ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے: "جنوبی یمن کی عبوری کونسل نے اس علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔" اس سے پہلے الزبیدی نے بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کا اعتراف کیا تھا۔ اسی طرح جنوبی یمن کی عبوری کونسل کے سابق نائب سربراہ ہانی بن بریک نے بھی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار ہونے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ یمن میں جاری جنگ اب نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کیونکہ جنوبی یمن کی عبوری کونسل نے سعودی عرب کی سربراہی میں فوجی اتحاد سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔
 
جنوبی یمن کی عبوری کونسل نے جس علاقے میں حکومت تشکیل دے رکھی ہے وہ انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہ علاقہ آبنائے باب المندب کے قریب اور بحیرہ احمر، خلیج عدن اور کینال سویز کے درمیان واقع ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ تل ابیب خود کو جنوبی یمن کی عبوری کونسل کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیلئے تیار کر رہا ہے۔ یاد رہے جنوبی یمن کی عبوری کونسل میں شامل رہنما متحدہ عرب امارات کے زیر اثر ہیں اور حال ہی میں اس کونسل نے سقطری جزیروں کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جو اسٹریٹجک لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کے حامل تصور کئے جاتے ہیں۔ جنوبی یمن کی عبوری کونسل 2017ء میں اس وقت تشکیل پائی تھی جب عدن کے سابق گورنر عیدروس الزبیدی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس کونسل کی تشکیل میں ابوظہبی نے موثر کردار ادا کیا تھا جبکہ کونسل نے اپنے بنیادی اہداف میں سے ایک جنوبی یمن کی خودمختاری کو قرار دیا تھا۔ موجودہ حالات میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے یمن خاص طور پر اس کے جنوبی حصے پر اس قدر توجہ دینا انتہائی قابل غور ہے۔ اسرائیلی حکام زیادہ تر اپنے اردگرد کے علاقوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور اپنے لئے محفوظ پٹی تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس بار انہوں نے جنوبی یمن کو اپنی توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے اور اس علاقے میں بھی جنوبی سوڈان کی طرح ایک کٹھ پتلی حکومت تشکیل دینے کے درپے ہیں۔
 
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی جانب سے یمن کو توڑنے کی کوشش
وہ نکتہ جو خاص طور پر یمن کے سیاسی حالات اور عام طور پر خطے کے تمام ممالک سے متعلق قابل توجہ ہے بعض قوتوں کی جانب سے ان ممالک کو توڑ کر وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں تشکیل دینے کی سازش ہے۔ اگر ہم شام، عراق، لبیا اور ان جیسے دیگر ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ان ممالک میں مداخلت کرنے والی قوتوں نے اپنی تمام تر توجہ کٹھ پتلی عناصر کے ذریعے ان ممالک کو توڑ کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ یہی چیز یمن میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک ایک بار پھر جنوبی یمن کو علیحدہ کر کے خودمختار ریاست بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ دو ممالک اپنے مفادات کی خاطر یمن کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں اور آپس میں بندر بانٹ کے درپے ہیں۔ سعودی عرب یمن کے مشرق میں واقع صوبہ المہرہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے یمن کے صوبوں حضر موت، عدن اور الساحل پر نظریں جما رکھی ہیں۔ البتہ اس وقت بھی ان علاقوں اور وہاں موجود اہم بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کا کنٹرول سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے زیر اثر عناصر کے ہاتھ میں ہی ہے۔ یوں یہ دو ممالک یمن میں اپنے اہداف کی تکمیل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
 
سعودی عرب کی سربراہی میں فوجی اتحاد نے یمن پر فوجی جارحیت کا آغاز اس بہانے سے کیا تھا کہ وہ یمن کی مستعفی حکومت کو واپس اقتدار میں لوٹانا چاہتے ہیں لیکن جارحیت کے چند سال بیت جانے کے بعد اب یمن کو چند حصوں میں تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ وہ یمن کو چند ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اپنا اپنا حصہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمن کو توڑنے کی کوششیں اس قدر واضح تھیں کہ حتی ریاض میں مقیم یمن کی سابق حکومتی عہدیدار بھی اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یمن کے سابق حکمرانوں نے کئی بار ریاض اور ابوظہبی کو خبردار بھی کیا ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بھی اس کشمکش میں کود پڑی ہے کیونکہ یمن ٹوٹنے میں اس کا بھی فائدہ ہے۔ لہذا اسرائیلی حکام جنوبی یمن کی عبوری کونسل سے دوستانہ تعلقات استوار کر کے انہیں ایک خودمختار ریاست تشکیل دینے میں مدد فراہم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
 
اسرائیل کیلئے آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر کی اہمیت
اگر یمن ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے مختلف حصے خاص طور پر جنوبی حصے اس سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے پاس ان علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا سنہری موقع میسر آ جائے گا۔ تل ابیب ہمیشہ سے آبنائے باب المندب کو اسٹریٹجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ تصور کرتا آیا ہے اور اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کو اپنی قومی سلامتی کیلئے ضروری سمجھتا ہے۔ 2014ء میں بنجمن نیتن یاہو نے یمن کی صورتحال اور انصاراللہ کی فورسز کی تیزی سے جاری باب المندب پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ آبنائے باب المندب پر ان کا قبضہ نہ ہونے پائے۔ ان کی اس وارننگ سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اس انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل علاقے میں انصاراللہ کی موجودگی اور اثرورسوخ سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ اسی طرح تل ابیب بحیرہ احمر کے بارے میں بھی شدید حساس ہے اور ہر گز نہیں چاہتی وہاں انصاراللہ یمن کا کنٹرول ہو۔ اسرائیلی حکمران سب سے زیادہ اس بارے میں پریشان ہیں کہ کہیں انصاراللہ یمن کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کو میزائل حملوں کا نشانہ نہ بنا ڈالا جائے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی دھمکی انصاراللہ یمن کے رہنما کئی بار اسرائیل کو دے چکے ہیں۔ لہذا اسرائیلی حکام کی پہلی ترجیح جنوبی یمن کو ملک سے علیحدہ کر کے وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت برسراقتدار لانا ہے۔
 
اس سے پہلے اسرائیل نے بحیرہ احمر میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے سوڈان کی سرحد کے قریب دو فوجی اڈے "رواجیات" اور "مکہلاوی" تشکیل دے رکھے تھے اور وہاں سے آبنائے باب المندب پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ آبنائے باب المندب بحیرہ احمر کو خلیج عدن اور بحر ہند سے جدا کرتا ہے۔ اسی طرح یہ آبنائے دو براعظموں افریقہ اور ایشیا میں حد فاصل بھی ہے۔ لہذا اسٹریٹجک اعتبار سے انتہائی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ صرف 2016ء میں ہر روز 48 لاکھ بیرل خام تیل اور تیل کی دیگر مصنوعات اس علاقے سے گزر کر یورپ، امریکہ اور ایشیا منتقل ہوئے ہیں۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ 1995ء میں اسرائیل اور یمن کے درمیان "حنیش" جزیرے پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ اس زمانے میں اسرائیل نے اس جزیرے پر قبضے کیلئے اریتھرے کو مدد فراہم کی تھی۔ اس وقت بھی اسرائیل اریتھرے میں ایک فوجی اڈے کا مالک ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے اپنے گھیراو کی کوشش کا مقابلہ کرے اور اپنے اردگرد ایک محفوظ بیلٹ تشکیل دے۔ اسی طرح یمن میں اثرورسوخ بڑھا کر انصاراللہ یمن کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ تل ابیب اپنے خیال میں خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک (ایران، شام، لبنان، عراق، فلسطین، یمن) کا گھیراو توڑنے کے درپے ہے۔ جنوبی یمن میں کٹھ پتلی حکمران برسراقتدار لانا اسی منظرنامے کا حصہ ہے۔ 


خبر کا کوڈ: 871390

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/871390/جنوبی-یمن-نئی-صہیونی-سازش-کے-نشانے-پر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org