0
Sunday 28 Jun 2020 13:30

غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد(1)

غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد(1)
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
جامعۃ الرضا، بہارکہو اسلام آباد

غلو کا لغوی معنی:
الغُلُوُّ کا معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، اگر یہ تجاوز کسی کی قدر و منزلت اور فضلیت کے متعلق ہو تو اسے غُلُوُّ کہا جاتا ہے اور اگر اشیاء کے نرخ اور قیمت کے بارے میں ہو تو اسے غلاء (مہنگائی) کا نام دیا جاتا ہے اور اگر تیر اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو غُلُوُّ کہتے ہیں۔ ابلنے اور جوش کھانے کو غلیان اور غیر معمولی سرکش حیوان کو غلواء کہتے ہیں، ان تمام معنوں کے لئے فعل کا ایک ہی مادہ استعمال ہوتا ہے۔(۱) بعض افراد کی رائے ہے کہ غلو، افراط و تفریط دونوں طرفوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ بعض دوسرے افراد غلو کو فقط افراط کے معنی میں منحصر سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے پر تقصیر استعمال کرتے ہیں۔(۲) علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں غلو کی تفسیر بیان کرتے ہو ئے کہا ہے: ’’بانہ ما یقابل التقصیر وھو تجاوز الحدفقال ان معنی الا یۃلا تتجاوزوا الحد الذی حدہ اللہ لکم الی الا زدیاد وضدہ: التقصیر وھو الخروج عن الحد الی النقصا۔، والزیادہ فی الحد والنقصان عنہ کلا ھما فساد و دین اللہ الذی امر بہ ھو بین الغلو والتقصیر وھو الا قتصاد، ای الا عتدال۔‘‘(۳)

اصطلاحی معنی:
شرعی اعتبار سے انبیا ؑ، آئمہ ؑاور اولیاء کرام کے مقام و مرتبے میں مبالغہ کرنا، اس طرح کہ انہیں الوھیت اور ربوبیت کے مقام پر پہنچا دینا یا انہیں معبودیت، خلق اور رزق وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کا اس طرح شریک قرار دینا کہ ضروریات دین کا انکار لازم آئے۔(۴)
قرآن میں غلو کا معنی:
قرآن مجید کی دو آیات میں غلو استعمال ہوا ہے:
یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ د ِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللَّہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّّہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقَھَآ اِلَیٰ مَرْیَمَ وَرُوْحؒمِِّّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللَّہِ وَ رُسُلِہٖ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَۃُٗ ط اِنْتَھُوَْا خَیْرً الَّکُمْ ط اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہُٗ وَّاحِِدُٗط سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ  ْیَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدُٗ لَہُٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْْضِ وَ کَفَیٰ بِاللّٰہ ِ وَکِیْلاً۔(۵) "اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں۔ لہذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ، اس میں تمہاری بہتری ہے۔ یقیناً اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کار سازی کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔"

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: اس آیت میں اہل کتاب کو غلو کرنے سے منع کیا ہے، اہل کتاب سے مراد عیسائی ہیں یا یہودی؟ تو اس بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ عیسائی مراد ہیں، کیونکہ غلو کے موارد عیسائیوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔(۶) اور بعض کی رائے کے مطابق عیسائی اور یہودی دونوں مراد ہیں۔(۷) البتہ اس بارے میں اتفاق ہے کہ غلو کا موضوع حضرت عیسیٰ ہیں، اس غلو کے حوالے سے عیسائیوں کے تین گروہ ہیں۔ بعض کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑ خدا ہیں، بعض کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تین خداؤں میں سے ایک ہیں، تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہیں۔(۸) حضرت عیسی ؑ کے بارے میں یہودیوں نے یہ غلو کیا کہ انہیں فعل حرام کا نیتجہ قرار دیا اور حضرت مریم کی طرف ناروا نسبت دی ہے۔(۹) مفسرین نے اس نکتہ پر بھی بحث کی ہے کہ عیسائیوں سے مراد کون سے ہیں؟ بعض نے کہا کہ اہل نجران مقصود ہیں۔(۱۰) دوسروں کا قول ہے کہ تمام نصاریٰ مراد ہیں۔(۱۱)

قرآن مجید کی ایک دوسری آیت جس میں غلو کا تذکرہ ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: ’’قُلْ یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْ ا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآ ئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْ امِنْ قَبْلُ وَ اَ ضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْ ا عَنْ سَوَآ ئِ السَّبِیْلِ‘‘(۱۲) "اے رسولﷺ! کہہ دو کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، جو پہلے گمراہ ہوچکی ہے اور بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کرچکی اور سیدھے راستہ سے بہک چکی ہے۔" اس آیت میں خطاب رسول اکرمﷺ سے ہے کہ وہ اہل کتاب سے کہیں وہ دین الہیٰ میں غلو نہ کریں اور جو حدود مقرر کی گئی ہیں، ان سے تجاوز نہ کریں، یہاں پر دین میں غلو سے مراد اکثر مفسرین نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں الوھیت اور خدا قرار دینے کا عقیدہ مراد لیا ہے، گویا وہی مطالب جو گذشتہ آیت میں بیان ہوئے ہیں، وہ یہاں پر ذکر ہوئے ہیں۔(۱۳) اس سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں غلو سے مراد کسی کو خدا قرار دینا اور اسے الوھیت کا درجہ دینا ہے۔ ان آیات سے اور قرآن کی دیگر آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ غلو کی تاریخ پرانی ہے، اسلام سے قبل مختلف اقوام میں بالخصوص یہود و نصاریٰ کے درمیان یہ موجود تھا۔

یہودیوں نے حضرت عزیر کی الوھیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن کریم نے ان کے باطل نظریئے کو یوں نقل کیا ہے: ’’وَقَالَتِ الْیَھُوْ دُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰہِ۔‘‘(۱۴) یعنی "یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔" روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ حضرت عزیر کے توسط سے کچھ ایسے معجزات رونما ہوئے، جس کے سبب یہودی یہ کہنے لگے کہ ان میں الوہیت پائی جاتی ہے یا اس کا کچھ جزء شامل ہے۔ یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی ایسے نظریات پائے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ گذشتہ آیات میں ہوچکا ہے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں غلو کیا اور ان کی الوہیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے عقیدے کو بیان کرنے کے فوراً بعد ان کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے: ’’وَقَالَتِ النَّصارَیٰ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ۔ ذٰلِک قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط  قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُئْوفَکُوْن‘‘(۱۵) "اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں، یہ سب زبانی باتیں ہیں، ان باتوں میں وہ بالکل اپنے سے پہلے کافروں کی طرح ہیں۔ اللہ انہیں قتل کرے، یہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں۔" اس آیت میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہود و نصاریٰ سے پہلے بھی کفار اپنے بزرگوں کے بارے میں غلو کا شکار تھے۔

قرآن مجید ایک اور مقام پر عیسائیوں کے غلو کا پردہ چاک کرتا ہے: ’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ‘‘(۱۶) یعنی "حقیقت میں وہ لوگ کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم اللہ ہے۔" غلو جیسا باطل اور انحرافی عقیدہ مسلمانوں میں بھی سرایت کر گیا۔ جس کی طرف رسول اکرمﷺ نے توجہ دلائی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
1۔’’حد سے زیادہ میری مدح و ستائش نہ کرو، جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑکی مدح و ستائش میں افراط سے کام لیا ہے، میرے بارے میں کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔‘‘(۱۷)
2۔ ابو رافع قرظی اور سید نجرانی نے کہا کہ: اے محمد ؐ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم تمہاری پرستش کریں اور تمہیں رب قرار دیں؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش کریں اور اس کے سوا کسی اور کا حکم دوں۔ اس نے مجھے اس لیے مبعوث نہیں فرمایا اور نہ ہی اس قسم کا حکم دیا ہے، اس پر یہ آیت (وما کان لبشر) سورہ آل عمران ۷۹ نازل ہوئی۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے رسول اللہ! کیا ہم تمہیں سجدہ نہ کریں! رسول اکرمﷺ نے جواب دیا: خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اپنے نبی کی عزت و احترام کرو اور حق کو اس کے اہل کے لیے پہچان کرو۔(۱۸)

3۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:۔ مجھے میری شان و منزلت سے آگے نہ بڑھاؤ۔ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے مجھے اپنا بندہ قرار دیا ہے۔(۱۹)
4۔ آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے: دو قسم کے گروہوں کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی: ایک ظالم اور ستم کار بادشاہ اور دوسرا دین میں غلو کرنے والا، جو دین سے خارج ہو جاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا اور غلو سے اجتناب نہیں کرتا۔(۲۰) پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں غلو کے اشارے موجود تھے اور رسول اکرمﷺ اپنے بعد امت میں اس کے پھیلنے کے امکانات کو دیکھ رہے تھے، لہذا آپ ؐ نے غلو کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا اور اس سے بچنے کی تاکید فرمائی۔" مسلمانوں میں اس عقیدے کے داخل ہونے کے مختلف عوامل اور اسباب تھے:
1۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے وہ افراد جنہوں نے ظاہر میں اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا، لیکن دل سے اسلام کی حقانیت کو تسلیم نہیں کیا، انہوں نے مسلمانوں کے عقائد کو بگاڑنے کے لیے مختلف اسلامی شخصیات کے متعلق غلو کو رواج دیا۔ انہوں نے ضعیف الایمان مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان کے درمیان غلو جیسے باطل عقائد کو ہوا دی۔
2۔ دوسری جانب وہ قومیں جو مجوسیت اور دیگر ادیان کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئیں، لیکن اسلام کی روح کو نہ سمجھ سکیں یا انہوں نے ظاہر میں اسلام کو قبول کیا اور اپنے باطل عقائد کو مسلمانوں کے اندر پھیلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 871516
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش