QR CodeQR Code

غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد(3)

30 Jun 2020 11:08

اسلام ٹائمز: امام ؑنے فرمایا: "یہودی حضرت عزیر ؑسے محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے انکے بارے میں وہ کچھ کہا، جو نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ لہذا نہ حضرت عزیر ؑ ان سے تھے، نہ وہ حضرت عزیز سے تھے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو دل و جان سے چاہا اور انکے بارے وہ کچھ کہا، جو انکے شایان شان نہ تھا۔ لہذا نہ حضرت عیسیٰ ؑ کا ان سے کوئی تعلق رہا اور نہ ہی انکا حضرت عیسیٰ ؑسے کوئی تعلق رہا اور حقیقت میں ہم بھی اس بدعت کا شکار ہونگے۔ بہت جلد ہمارے شیعیوں کا ایک گروہ ہم سے محبت کریگا، یہاں تک کہ وہ ہمارے بارے میں وہی کچھ کہے گا، جو یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں کہا تھا۔ لہذا یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہونگے اور نہ ہی ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا۔"


تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
جامعۃ الرضا، بہارکہو اسلام آباد


امام زین العابدین ؑ کا موقف:
امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو ہم پر جھوٹ باندھے، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو، میں نے جب عبد اللہ بن سبا کے بارے میں سوچا تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اس نے بہت بڑا دعویٰ کیا تھا، اسے کیا ہوگیا تھا! اللہ کی اس پر لعنت ہو۔ خدا کی قسم علیؑ اللہ کے صالح بندے اور رسول اللہ کے بھائی تھے، درگاہ احدیت میں انہیں جو مقام و مرتبہ ملا، اس کی وجہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تھی، جس طرح رسول اکرم ﷺ کو عظیم مقام و منزلت سے نہیں نوازا گیا، مگر خدا کی اطاعت کی وجہ سے۔ امام زین العابدین ؑنے ابو خالد کابلی کو امت میں غلو کے بارے میں آگاہ کیا، جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا تھا۔ امام ؑنے فرمایا: "یہودی حضرت عزیر ؑسے محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کے بارے میں وہ کچھ کہا، جو نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ لہذا نہ حضرت عزیر ؑ ان سے تھے، نہ وہ حضرت عزیز سے تھے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو دل و جان سے چاہا اور ان کے بارے وہ کچھ کہا، جو ان کے شایان شان نہ تھا۔ لہذا نہ حضرت عیسیٰ ؑ کا ان سے کوئی تعلق رہا اور نہ ہی ان کا حضرت عیسیٰ ؑسے کوئی تعلق رہا اور حقیقت میں ہم بھی اس بدعت کا شکار ہوں گے۔ بہت جلد ہمارے شیعیوں کا ایک گروہ ہم سے محبت کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہمارے بارے میں وہی کچھ کہے گا، جو یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں کہا تھا۔ لہذا یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا۔"(۴۰)

غالیوں کے بارے میں امام محمد باقر ؑکی رائے:
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ابو الخطاب، اس کے اصحاب اور اس پر لعنت میں شک کرنے والوں اور اس بارے میں توقف کرنے والوں اور شک کرنے والوں پر لعنت کرے۔۔ اے علی! ان پر لعنت کرنے میں کوتاہی نہ کرو، بتحقیق اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے۔" اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول ؐخدا نے فرمایا ہے: "جو شخص اس فرد پر لعنت کرنے سے ناراض ہو، جس پر ذات باری تعالیٰ نے لعنت کی ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔"(۴۱) ابو الخطاب محمد بن مقلاص بن راشد منقری بزاربراداجدع اسدی تھا، کوفے کا رہنے والا ایک غالی انسان تھا، اس کے اصحاب اور پیروکاورں کو خطابیہ کہا جاتا ہے۔(۴۲) ابتداء میں وہ امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادق ؑکے اصحاب میں سے تھا، شروع میں اس کا عقیدہ یہ تھا کہ آئمہ، پیغمبر ہیں، پھر انہیں خدا سمجھنے لگا اور جعفر بن محمد ؐ اور ان کے آباء کی الوھیت کا قائل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ امام جعفر صادق ؑ اپنے زمانے کا خدا ہے اور یہ وہ نہیں جسے وہ محسوس کرتا ہے اور اس سے روایت کرتا ہے، چونکہ اس نے عالم بالا سے اس دنیا میں نزول کیا ہے، اس لیے اس نے آدمی کی شکل اختیار کی ہے۔(۴۳)

اس کا خیال تھا کہ جعفر صادق ؑنے اسے اپنے بعد اپنا قیم اور وصی مقرر کیا ہے، پھر اس سے آگے بڑھا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا اور یہ کہا کہ وہ اسم اعظم جانتا ہے اور آخر میں کہنے لگا کہ وہ فرشتوں میں سے ہے۔(۴۴) رفتہ رفتہ اس کے گروہ میں اضافہ ہوا اور انہوں نے کوفے کے گورنر کی مخالفت شروع کر دی۔ ایک دن جب ان میں سے ستر افراد ہنگامہ برپا کرنے کے لیے مسجد کوفہ میں جمع تھے تو گورنر کوفہ نے ان پر حملہ کر دیا اور سخت مقابلے میں اس کے بہت سارے ساتھی مارے گئے، اس دوران ابوالخطاب کو گرفتار کیا گیا، حاکم کوفہ نے حکم دیا کہ فرات کے کنارے ’’دار الرزق‘‘ میں اس کے پیروکاروں کے ساتھ سولی پر لٹکایا جائے۔ اس کے بعد ان کے جسموں کو جلایا گیا اور ان کے سروں کو منصور دوانقی کے پاس بھیجا گیا، اس نے حکم دیا کہ تین دن تک ان سروں کو بغداد کے دروازے پر لٹکایا جائے اور پھر آگ میں جلایا جائے۔(۴۵)

زرارہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ  بیان یا بنان پر لعنت کرے، بنان (اللہ کی لعنت ہو اس پر) نے میرے باپ پر جھوٹ اور افتراء باندھا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے باپ علی ابن الحسینؑ عبد صالح تھے۔"(۴۶) بیان بن سمعان تمیمی نھدی غلات کا سرغنہ تھا، اس کے پیروکاروں کو بیانیہ کہا جاتا ہے، اس کا نام بنان بن سمعیان فھدی اور تمیمی بھی آیا ہے، یہ شخص امام زین العابدین ؑاور محمد باقر ؑکا معاصر تھا۔(۴۷) اس نے پہلے تو اپنے آپ کو ابو ہاشم عبد اللہ ابن محمد بن حنفیہ کا جانشین کہا، پھر غلو کیا اور علی ؑ کو خدا سمجھا اور تناسخ اور رجعت کا عقیدہ اپنایا۔(۴۸) پھر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور امام محمد باقر  ؑکو خط لکھا کہ تو اسلام قبول کر اور امان میں رہ، بلند ہو جا اور نجات اور کامیابی پالے، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کو کہاں رکھا ہے اور رسول کا فرض صرف پہنچا دینا ہے، جس نے کسی کو ڈرایا، اس نے عذر کو برطرف کر دیا۔ امام ؑنے اس کے خط لانے والے عمر و بن عفیف ازدی کو مجبور کیا کہ وہ خط نگل لے۔ پس اس نے خط کھایا اور مرگیا۔(۴۹) آخرکار انہوں نے مسجد کوفہ میں ہنگامہ برپا کیا۔ خالد بن عبداللہ قسری نے اسے اور اس کے پندرہ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا، انہیں رسی سے باندھ کر ان پر تیل چھڑکا گیا اور انہیں آگ لگا دی گئی۔ یہ واقعہ ۱۱۹ ہجری کو رونما ہوا۔(۵۰)

غالیوں کیخلاف امام صادق ؑکی جدوجہد:
امام صادق ؑکے دور میں غلاۃ کا مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا، اسی کے پیش نظر امام نے اپنے شاگردوں کے درمیان مختلف علوم کی تعلیم شروع کر دی، آپ کی علمی تحریک آفاقی ہوگئی اور آپ کے شاگردوں اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، آپ ؑ لوگوں کو ان علوم سے آگاہ کرنے لگے، جن سے وہ بالکل جاہل تھے اور جو کچھ اپنے آباء اور رسول اکرمﷺ سے سینہ بہ سینہ آپ کو ملا تھا، اسے لوگوں کے دلوں میں منتقل کرنے لگے۔ اس کے سبب سطحی اور سادہ لوح افراد یہ سمجھے کہ امام غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کا علم رکھنے والا الوہیت (خدائی) کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ بعض فتنہ پرور افراد نے سادہ لوح افراد کو آلہ کار بنایا، تاکہ لوگوں کے عقائد کی تخریب کے سلسلہ میں اپنی غرض کو پورا کرسکیں، جو ان کا اصلی مقصد تھا۔ یہ کام خاص طور پر ان لوگوں سے لے رہے تھے، جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تعلق سوڈان، زط وغیرہ سے تھا، جو اپنے آبائی عقائد لے کر آئے تھے، اس طرح سے بعض نے مادی اور روحانی احتیاج کے پیش نظر غلو کو اپنایا اور راہ حق اور صراط مستقیم سے دور ہوگئے اور امام صادقؑ کے بارے میں طرح طرح کے خرافات پھیلانے لگے۔

مالک ابن عطیہ نے امام صادق ؑکے بعض اصحاب سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن امام صادق ؑ بہت غیظ و غضب کی کیفیت میں باہر آئے اور آپ نے فرمایا: "میں ابھی اپنی ایک حاجت کے لیے باہر نکلا، اس وقت مدینہ میں مقیم بعض سوڈانیوں نے مجھ کو دیکھا تو ’’لبیک یاجعفر بن محمد لبیک‘‘ کہہ کر پکارا، تو میں الٹے پاؤں اپنے گھر لوٹ آیا اور جو کچھ ان لوگوں نے میرے بارے میں بکا تھا، اس کے لیے بہت دہشت زدہ تھا، یہاں تک کہ میں نے مسجد جا کر اپنے رب کا سجدہ کیا اور خاک پر اپنے چہرے کو رگڑا اور اپنے نفس کو ہلکا کرکے پیش کیا اور جس آواز سے مجھے پکارا گیا تھا، اس سے اظہار برات کیا، اگر حضرت عیسیٰ ؑ اس حد تک بڑھ جاتے، جو خدا نے ان کے لیے معین کی تھی تو وہ ایسے بہرے ہوگئے ہوتے کہ کبھی نہ سنتے، ایسے نابینا بن جاتے کہ کبھی کچھ نہ دیکھتے، ایسے گونگے بن جاتے کہ کبھی کلام نہ کرتے۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا: "خدا ابوالخطاب پر لعنت کرے اور اس کو تلوار کا مزہ چکھائے۔"(۵۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 871544

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/871544/غلو-اور-غالیوں-کیخلاف-ائمہ-طاہرین-کی-جدوجہد-3

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org