1
0
Wednesday 1 Jul 2020 10:08

غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد(4)

غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد(4)
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
جامعۃ الرضا، بہارکہو اسلام آباد


گذشتہ سے پیوستہ
ابو عمرو کشی نے سعد سے روایت کی ہے، مجھ سے احمد بن محمد بن عیسیٰ، انہوں نے حسین ابن سعید بن ابی عمیر سے اور انہوں نے ہشام بن الحکم سے، انہوں نے امام صادق  ؑسے روایت کی کہ امام نے فرمایا: "خدا بنان اور سری بزیع پر لعنت کرے، وہ لوگ سر تا پا انسان کی حسین صورت میں درحقیقت شیطان تھے۔" روای کہتا ہے کہ میں نے آپ ؑ سے عرض کی کہ وہ اس آیت :’’ھوا لذی فی السماء الہ و فی الارض الہ‘‘ وہ، وہ زمین و آسمان کا خدا ہے۔"(۵۲) کی یوں تاویل کرتا ہے کہ آسمان کا خدا دوسرا ہے اور جو آسمان کا خدا ہے، زمین کا خدا نہیں ہے اور آسمان کا خدا، زمین کے خدا سے عظیم ہے اور اہل زمین آسمانی خدا کی فضلیت سے آگاہ ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم ان دونوں کا خدا صرف ایک اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ زمینوں اور آسمانوں کا رب ہے، بنان جھوٹ بول رہا ہے، خدا اس پر لعنت کرے، اس نے خدا کو چھوٹا کرکے پیش کیا اور اس کی عظمت کو حقیر سمجھا ہے۔"(۵۳)

کشی نے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق ؑسے روایت کی ہے کہ آپ نے اس قول پروردگار: ’’ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ ٭ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍٍ۔‘‘(۵۴) "کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں" کے بارے میں فرمایا: "وہ (جھوٹے و بدکردار) لوگ سات ہیں: مغیرہ بن سعید، بنان، صائد، حمزہ بن عمار زبیدی، حارث شامی، عبداللہ بن عمرو بن حارث، ابواالخطاب۔"(۵۵) کشی نے حمدویہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے یعقوب نے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے عبد الصمد بن بشیر سے، انہوں نے مصارف سے روایت کی ہے، جب کوفہ سے کچھ لوگ آئے تو میں نے جا کر امام صادق  ؑکو ان لوگوں کے آمد کی خبر دی، آپ فوراً سجدے میں چلے گئے اور زمین سے اپنے اعضاء چپکا کر رونے لگے اور انگلیوں سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ کر فرما رہے تھے، نہیں بلکہ میں اللہ کا بندہ اس کا ذلیل و پست ترین بندہ ہوں اور اس کی تکرار کرتے جا رہے تھے، جب آپ نے سر اٹھایا تو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا، جو آنکھوں سے چل کر ریش مبارک سے بہہ رہا تھا، میں اس خبر دینے پر نہایت شرمندہ تھا، میں نے عرض کی: یابن رسول اللہ ؐ ! میری جان آپ پر فدا ہو، آپ کو کیا ہوا اور وہ کون ہیں۔؟

آپ نے فرمایا: "مصادف! عیسیٰ کے بارے میں نصاریٰ جو کچھ کہہ رہے تھے، اگر اس کے سبب وہ خاموشی اختیار کر لیتے تو ان کا حق تھا کہ اپنی سماعت گنوا دیتے اور بصارت کھو دیتے، ابو الخطاب نے جو کچھ میرے بارے میں کہا، اگر اس کے سبب سکوت کر لوں اور اپنی سماعت و بصارت سے چشم پوشی کر لوں تو یہ میرا حق ہے۔"(۵۶) شیخ کلینی نے سدیر سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت امام صادق  ؑکی خدمت میں عرض کی کہ ایک گروہ ہے، جو اس بات کا عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ ہی خدا ہیں اور اس کے ثبوت میں اس آیت :’’ھو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ۔‘‘(۵۷) کو ہمارے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔ آپ ؑنے فرمایا: "سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور رواں رواں ان لوگوں سے بیزار ہے اور خدا بھی ان سے بیزار ہے، وہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں ہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ غضب و عذاب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔"(۵۸)

روای کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول خدا ؐ ! ایک گروہ ایسا ہے، جو اس بات کا معتقد ہے کہ آپ رسولوں میں سے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں: ’’یٰٓاَ یُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْ اصَالِحًا ٭ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم۔‘‘ ’’اے میرے رسولو! پاکیزہ غذائیں کھاؤ اور نیک اعمال انجام دو کہ میں تمہارے نیک اعمال سے خوب با خبر ہوں۔‘‘(۵۹) آپ نے فرمایا: "اے سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور خون ان لوگوں سے اظہار برات کرتے ہیں، یہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ عذاب و غضب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔" روای کہتا ہے، میں نے عرض کی: فرزند رسول خدا پھر آپ کیا ہیں۔؟ آپ نے فرمایا: "علم الہیٰ کے خزانہ دار، احکام الہیٰ کے ترجمان اور معصوم قوم ہیں، اللہ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے اور ہماری نافرمانی سے منع کیا ہے، ہم زمین پر بسنے والے اور آسمان کے رہنے والوں کے لیے حجت کامل ہیں۔"(۶۰)

مغیرہ بن سعید غلو کرنے والے گروہ کا ایک فرد تھا، جو سحر و جادو کے ذریعے سادہ لوح اور عام فکر کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا، پھر ان لوگوں کے لیے آئمہ اہل بیتؑ کے حوالے سے غلو کو آراستہ کر دیتا تھا۔ امام صادق ؑنے اس غالی شخص کی حقیقت اپنے اصحاب کے سامنے واضح کر دی۔ ایک دن اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: "خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے اور اس یہودیہ پر لعنت کرے، جس سے وہ مختلف قسم کے جادو، ٹونے اور کرتب سیکھتا تھا۔ مغیرہ نے ہماری طرف جھوٹی باتوں کو منسوب کیا ہے، جس کے سبب خدا نے اس سے نعمت ایمان کو لے لیا۔ ایک گروہ نے ہم پر جھوٹا الزام لگایا تو خدا نے ان کو تلوار کا مزہ چکھایا۔ خدا کی قسم ہم کچھ نہیں، صرف اللہ کے بندے ہیں۔ اس نے ہم کو خلق کیا اور انتخاب کیا، ہم کسی کے فائدہ اور نقصان پر قادر نہیں ہیں، اگر کچھ ہے تو رحمت الہیٰ ہے، اگر کوئی مستحق عذاب ہے تو اپنی غلطیوں کے سبب ہوگا۔ خدا کی قسم! خدا پر ہماری کوئی حجت نہیں، ہم مرنے والے ہیں، قبروں میں رہنے والے، محشور کیے جانے والے، واپس بلائے جانے والے، روکے جانے والے اور سوال کیے جانے والے ہیں۔ ان کو کیا ہوگیا ہے، خدا ان پر لعنت کرے، انہوں نے خدا کو اذیت دی اور رسول اکرمﷺ کو قبر میں اذیت دی اور امیر المومنین و فاطمہ زہراء، حسن، حسین بن علی کو اذیت دی ہے۔

آج کل تمہارے درمیان میں ہوں، جو رسول اکرم کا گوشت پوست ہوں، لیکن راتوں کو جب کبھی بستر استراحت پر جاتا ہوں تو خوف و ہراس کے عالم میں سوتا ہوں، وہ لوگ چین و سکون کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میں دہشت و جبل کے درمیان لرزہ بر اندام ہوں، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جو کچھ میرے بارے میں بنی اسد کے غلام اجرع براد اور ابوالخطاب نے کہا: خدا اس پر لعنت کر ے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ ہمارا امتحان لیتے اور ہم کو اس کا حکم دیتے تو واجب ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ لوگ ہم کو خائف و ہراساں پا رہے ہیں۔؟ ہم ان کے خلاف اللہ کی مدد چاہتے ہیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں فرزند رسول ؐ خدا ہوں، اگر ہم نے آپﷺ کی اطاعت کی تو اللہ ہم پر رحمت نازل کرے اور اگر آپﷺ کی نافرمانی کی تو ہم پر شدید عذاب نازل کرے۔"(۶۱)

امام صادق ؑ نے غلاۃ کی جانب سے دی گئی ساری نسبتوں کی نفی کی ہے، مثلاً علم غیب، خلقت، تقسیم رزق وغیرہ۔ ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق  ؑ سے عرض کی یا بن رسول اللہﷺ! وہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ بارش کے قطرات، ستاروں کی تعداد، درختوں کے پتوں، سمندر کے وزن، ذرات زمین کا علم رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "سبحان اللہ! خدا کی قسم، خدا کے علاوہ کوئی بھی ان کا علم نہیں رکھتا۔" آپ سے کہا گیا کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ آپ بندوں کے رزق تقسیم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ہم سب کا رزق صرف خدا کے ہاتھوں میں ہے، مجھ کو اپنے اہل و عیال کے لیے کھانے کی ضرورت پڑی تو میں کشمکش میں مبتلا ہوا، میں نے سوچ بچار کے ذریعے ان کی روزی فراہم کی، اس وقت میں مطمئن ہوا۔"

زرارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق ؑسے عرض کی کہ عبد اللہ بن سبا کے فرزندوں میں سے ایک تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض سے کیا مراد ہے۔؟ میں نے کہا: کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے محمد ؐو علی ؑ کو خلق کیا، اس کے بعد سارے امور ان کو تفویض (حوالے) کر دیئے، لہذا اب یہی لوگ رزق تقسیم کرتے ہیں اور موت و حیات کے مالک ہیں۔ آپ نے فرمایا: "وہ دشمن خدا جھوٹ بولتا ہے، جب تم اس کے پاس جانا تو اس آیت کی تلاوت کرنا:
’’ اَمْ جَعَلُوْ الِلّٰہِ شُرَکَآئَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَا بَہَ الخلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھّار۔‘‘(۶۲) "یا ان لوگوں نے اللہ کے لیے ایسے شریک بنائے ہیں، جنہوں نے اس کی طرح کائنات خلق کی ہے اور ان پر خلقت مشتبہ ہوگئی ہے، کہہ دیجیے کہ اللہ ہی ہر شی کا خالق ہے، وہی یکتا اور سب پر غالب ہے
۔‘‘ میں واپس گیا اور جو کچھ امام ؑنے فرمایا تھا، وہ پیغام سنا دیا تو گویا وہ پتھر کی طرح ساکت ہوگیا یا بالکل گونگا ہوگیا۔ مفضل روای ہیں کہ امام صادق ؑ نے ہم سے ابو خطاب کے اصحاب اور غلاۃ کے حوالے سے فرمایا: "اے مفضل! ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے میل جول نہ رکھو، نہ ان کے وراث بنو اور نہ ان کو اپنا وارث بناؤ۔"(۶۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 871545
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسید
Pakistan
غلو کے بارے میں جتنی احادیث بیان ہوئی ہیں، ان کے مکمل حوالے بھی ساتھ درج ہونے چاہیئے۔
ہماری پیشکش