0
Friday 3 Jul 2020 05:36

بہترین لوگ تہہ خاک گئے

بہترین لوگ تہہ خاک گئے
تحریر: محمد ثقلین واحدی
Msaqlain1412@gmail.com

سال 2020ء کا آغاز ہی دھماکے دار انداز میں ہوا۔ 3 جنوری 2020ء کو امن مشن پہ مامور ایرانی و عراقی کمانڈرز بغداد ائیرپورٹ کے نزدیک امریکی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ دنیا بھر میں اس امریکی بربریت پہ کئی دن تک احتجاج ہوتے رہے۔ ابھی اس اندوہناک واقعے کو رونما ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ کورونا نامی وباء نے عالمِ انسانیت کو اپنے شکنجے میں دبوچ لیا۔ تمام تر دعائوں اور دوائوں کے باوجود یہ عفریت ٹلنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ آئے روز صورتحال گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے۔ اب تک اس مہلک وباء سے دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد لوگ متاثر جبکہ پانچ لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی متاثرین کی تعداد دو لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ آئے روز احباب کی جدائی کی دکھ بھری خبریں ملتی ہیں۔ چند ہفتے پہلے ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والی سیاسی، سماجی، کاروباری شخصیت،  انتہائی ملنسار سید رضی عباس نقوی کی وفات کی خبر سے دل انتہائی اداس رہا۔  ابھی یہ غم بھلا نہ پائے تھے کہ جواں سال دوست سید انتخاب حیدر اپنے معصوم بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چل بسے۔ ہمہ گیر علمی شخصیت علامہ قاضی غلام مرتضیٰ بھی علم دوست حلقوں کو افسردہ کر گئے۔

اسی کورونا وباء کے دوران کچھ ایسی نابغہ روزگار شخصیات بھی چل بسیں، جن کا خلا پر کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان میں سرِفہرست ڈاکٹر حسین شیخ الاسلام جن کا انتقال کورونا کے ابتدائی ایام میں ہوا۔ ایرانی شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والے حسین شیخ الاسلام ایرانی خارجہ سیاست میں اہم مقام رکھتے تھے وزارتِ خارجہ سے مربوط رہنے کے ساتھ ساتھ وہ دمشق میں ایرانی سفیر بھی رہے۔ مجمع جھانی تقریب مذاہب اسلامی اور فلسطین ایشو پر بھی انتہائی فعال کردار ادا کیا۔ ایران کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر حسین شیخ الاسلام ایرانی سیاست میں ایک قد آور شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1953ء میں اصفہان میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر حسین شیخ الاسلام نے 2020ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ جدائیوں کے اس موسم میں جون کا مہینہ خاصا بھاری رہا، اس ماہ کی ابتداء میں آزادی فلسطین کے حوالے سے انتہائی متحرک شخصیت اور جہاد اسلامی فلسطین کے سابقہ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر رمضان عبداللہ کا انتقال ہوا، ان کی شخصیت پہ ایک مفصل تحریر چند ہفتے پہلے قارئین کی نذر کرچکا ہوں۔

وطن عزیز پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی جون علمی و ادبی حلقوں پہ خاصا بھاری رہا۔ دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کی معروف آواز خاموش ہوگئی۔ طارق عزیز مرحوم کا پروگرام نیلام گھر بلا شبہ آج کل کے بیہودہ اور غیر اخلاقی شوز سے یکسر مختلف ایک ایسا معلوماتی پروگرام تھا، جسے فیملی کے ساتھ مل بیٹھ کر دیکھنے میں کوئی دقت نہیں تھی۔ مرحوم پاکستان کی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ 1997ء میں لاہور سے ممبر قومی اسمبلی بھی رہے، لیکن انہیں صحیح معنوں میں شہرت نیلام گھر سے ملی۔ طارق عزیز مرحوم ایک محب وطن پاکستانی تھے، جو جاتے جاتے اپنا تمام سرمایہ مملکتِ پاکستان کے نام کر گئے۔ ذکر کیا جائے کراچی شہر کا تو گذشتہ دو ہفتوں کے دوران تین علمی شخصیات یکے بعد دیگرے چل بسیں۔ 20 جون کو مفتی محمد نعیم مہتمم جامعہ بنوریہ راہیِ عدم ہوئے۔ 1958ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے مفتی نعیم نے سولہ برس تک جامعہ بنوریہ میں بطورِ استاد خدمات سرانجام دیں۔ مرحوم ایک اچھے مہتمم و مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصنف بھی تھے۔ تفسیر روح القرآن سمیت انہوں نے کئی معروف کتب تحریر کیں۔ مرحوم مفتی نعیم وفاق المدارس العربیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔

تم نے گریہ کیا، مجلس تمام ہوئی اور اب تو دامنِ وقت میں گنجائش بھی نہیں رہی، یہ جملے گویا آج بھی سماعتوں کی پیاس بڑھا رہے ہیں، علم و ادب کے جوہر علامہ طالب جوہری نے 21 جون کو داغِ مفارقت دیا۔ دس محرم کی شام شامِ غریباں کی مجلس ہوتی یا نشتر پارک میں محرم الحرام کے عشرے، شیعہ سنی بلا تفریق  علامہ طالب جوہری کے علم اور انداز ِخطابت کو سراہتے نظر آتے۔ ان کے چاہنے والے اس انداز اور فن خطابت کو شاید کبھی نہ بھول پائیں، وہ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر، مورخ اور مصنف بھی تھے۔ انہوں نے آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی اور آیت اللہ شہید باقر الصدر جیسی مایہ ناز علمی شخصیات سے کسبِ فیض کیا۔ عراق کی مشہور و معروف مذہبی و سیاسی شخصیت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے ہم جماعت رہے۔ علامہ صاحب ویسے تو ہر حوالے سے انتہائی علمی شخصیت تھے، لیکن علم قرآن کریم سے انہیں خصوصی لگائو رہا، اس سلسلے میں انہیں قادر الکلام کہا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل قرآنی موضوعات پہ ان کی مشہور و معروف کتب جن میں احسن حدیث، عالمی معاشرہ اور قرآن حکیم، اساس آدمیت اور قرآن، انسانیت کا الوحی منشور، میراث عقل اور وحی الہیٰ شامل ہیں۔ اردو ادب میں حرفِ نمو، پس آفاق اور شاخِ صدا  ان کی بہترین تصانیف ہیں۔ افسوس کہ علم کا طالب کتابوں کا یہ جوہری دبستان، کراچی کی ایک توانا آواز اب ہمارے درمیاں نہیں رہی۔

26 جون کو کراچی سے ایک اور افسوس ناک خبر سابق امیر جماعتِ اسلامی سید منور حسن کے انتقال کی صورت میں موصول ہوئی۔ دہلی میں پیدا ہونے والے سید منور حسن نے سیاست کا آغاز 1959ء میں ایک طلبہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے کیا۔ تاہم جلد ہی وہ اسلامی جمیعت طلبہ کا حصہ بن گئے۔ 1967 میں انہوں نے جماعت اسلامی پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ 1977ء میں وہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ سید منور حسن جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ 2009ء میں امیرِ جماعت منتخب ہوئے 2014ء تک یہ ذمے داری ان کے کاندھوں پہ رہی۔ سید منور حسن حق گو اور بے باک شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی درویش صفت انسان بھی تھے۔ ان کی سادہ زیستی کی ایک جھلک دیکھئے کہ جب انکی بیٹی کی شادی ہوئی تو انہوں نے باقاعدہ دعوت ناموں پہ لکھا کہ مہمان حضرات کوئی تحفہ ساتھ نہ لائیں، اس کے باوجود ڈھیروں تحائف جمع ہوئے، جن میں سونے کے زیورات بھی شامل تھے، لیکن سید منور حسن جیسے ہی شادی کے معاملات سے فارغ ہوئے، انہوں نے وہ سب تحائف اٹھا کر جماعت کے بیت المال میں یہ کہ کر جمع کرا دیئے کہ یہ تحائف منور حسن کو نہیں بلکہ امیر جماعت اسلامی کو ملے ہیں، اس لئے ان پہ جماعت کا حق ہے۔

سید منور حسن مرحوم کی زندگی کا ایک روشن پہلو اتحاد بین المسلمین کے لئے ان کی کاوشیں تھیں۔ انہوں نے مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد مرحوم اور علامہ سید ساجد علی نقوی کے ساتھ مل کر اتحاد و وحدت کے لئے عملی اقدامات کیے۔ آخر میں مفتی نعیم مرحوم کے ورثاء علامہ طالب جوہری کے اہلخانہ، خصوصاً ان کے فرزندان اسد جوہری اور امجد جوہری، سید منور حسن کے ورثاء خصوصاً امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور نائب امیر لیاقت بلوچ صاحب کو تعزیت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مرحومین کے لئے مغفرت کا طلب گار ہوں۔
خبر کا کوڈ : 872192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش