0
Tuesday 7 Jul 2020 02:12

عراق، اسلامی مزاحمتی بلاک کا اہم اور بنیادی رکن

عراق، اسلامی مزاحمتی بلاک کا اہم اور بنیادی رکن
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

عراق علاقائی خاص طور پر عرب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں مرکزی حیثیت کا مالک ہے۔ اگر ہم 22 عرب ممالک کی صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ان سب میں عراق ایک "مخصوص صورتحال" کا حامل ہے۔ عراق ایسا ملک ہے جو سیاسی لحاظ سے "سب سے زیادہ جمہوریت رکھنے والا"، اقتصادی لحاظ سے "سب سے زیادہ مستحکم اور پائیدار"، ثقافتی اعتبار سے "سب سے زیادہ متاثر کرنے والا"، تہذیبی لحاظ سے "سب سے زیادہ طویل تاریخ کا حامل" اور سیاسی اور ثقافتی ماہرین کے لحاظ سے "سب سے زیادہ تعداد" والا ملک ہے۔ اسی وجہ سے عراق کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیاں ہر عرب ملک سے زیادہ عرب دنیا کو متاثر کرتی ہیں۔ لہذا عراق یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ ہم اسے عرب دنیا کے ممالک میں سرفہرست قرار دے سکیں۔ دوسری طرف وہ طاقتیں جو عرب ممالک کو مستحکم اور طاقتور نہیں دیکھنا چاہتیں تاکہ ان کے مقابلے میں نہ اٹھ سکیں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ عراق کو بھی مصر کی طرح ایک کمزور ملک میں تبدیل کر کے اسے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پائی جانے والی طاقت کی رساکشی سے نکال باہر کر سکیں۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ گذشتہ سو برس میں عرب ممالک نے بمشکل ہی کوئی بڑا اور اہم اقدام انجام دیا ہے۔ مصر نے 1951ء سے 1971ء کے درمیان بہت مختصر عرصے کیلئے عرب دنیا کی لیڈرشپ اپنے ہاتھ میں لی اور عرب ممالک کو ایک پیج پر لا کر انہیں طاقتور بنایا اور مشترکہ اہداف کے حصول کی کوشش انجام دی۔ کینال سویز کی آزادی، برطانوی استعمار سے وابستہ استبدادی نظام کا خاتمہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک کا آغاز، فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کا مقابلہ، عظیم فوج کی تشکیل، عرب تحریک کا آغاز، جمہوری نظام کا قیام اور عرب ممالک میں مغربی ممالک کے اثرورسوخ کا مقابلہ ایسے چند ایک اقدامات تھے جنہوں نے مصر کو منفرد تشخص عطا کیا اور عرب ممالک کو بھی منفرد حیثیت بخشی۔ جمال عبدالناصر کی موت کے بعد ان کی تحریک بھی ٹھنڈی پڑ گئی اور آج ان کے فخر آمیز کارناموں کی صرف یادیں اور باتیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ خود مصر بھی آج مکمل طور پر گوشہ نشینی کا شکار ہو چکا ہے اور مختلف قسم کی مشکلات سے روبرو ہے۔ اس زمانے کا جمہوری اور ڈیموکریٹک مصر گذشتہ 50 برس سے فوجیوں کے کنٹرول میں ہے۔ انور سادات، حسنی مبارک اور اب عبدالفتاح السیسی۔ یہ فوجی جرنیل مغرب نواز ہو گئے ہیں اور ان کی نظر میں عوام کی کوئی اہمیت باقی نہیں بچی۔ اس وقت مصر پر فوجی آمریت کا راج ہے۔
 
عرب دنیا سے مغربی اثرورسوخ کے خاتمے کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والا مصر اور مقبوضہ فلسطین پر غاصب صہیونی رژیم کے قبضے کے خلاف جدوجہد کی فرنٹ لائن پر لڑنے والا مصر آج تحقیر آمیز رویوں کا شکار، مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی اور گوشہ گیر ملک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ حتی دس سالوں میں بھی اس ملک سے کوئی قابل توجہ خبر سنائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب، سوڈان اور الجزائر جیسے دیگر عرب ممالک بھی جو ایک طاقتور ملک بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں مصر سے بھی زیادہ ابتر صورتحال کا شکار ہیں۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ مغربی طاقتیں عرب ممالک کو تباہ و برباد کرنے میں بہت زیادہ کامیاب رہی ہیں۔ البتہ عرب اقوام کے اندر شجاعت اور غیرت کی چنگاریاں موجود ہیں اور ہم ان سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئے۔ لہذا عرب عوام ایسے پیغامات پر مثبت ردعمل ظاہر کرتے نظر آتے ہیں جن میں "موجودہ صورتحال میں تبدیلی" کا مفہوم پایا جاتا ہو۔ یہ پیغامات بعض اوقات صداقت پر مبنی ہوتے ہیں جس طرح اسلامی بیداری یا عرب اسپرنگ میں سامنے آئے تھے اور بعض اوقات جھوٹ اور مکاری پر مبنی ہوتے ہیں جس طرح عرب خلافت کے احیاء کا نعرہ لگانے کے ذریعے مغربی تکفیری سازش میں دیے گئے تھے۔ یوں عرب اقوام کے اندر اب بھی ایک "عرب نجات دہندہ" پیدا ہونے کی امید پائی جاتی ہے۔
 
2)۔ عراق میں عرب دنیا کیلئے "نجات دہندہ" کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کی مکمل صلاحیت پائی جاتی ہے۔ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے عراق کا ماضی پانچ سے سات ہزار سال پرانی تاریخ پر مشتمل ہے۔ آشور، بابل، سومر اور اکد تہذیبیں اسی سرزمین پر معرض وجود میں آئیں۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر بھی اسی سرزمین پر خدا کی رسالت کی ذمہ داری انجام دیتے رہے۔ دین مبین اسلام کے ظہور کی ابتدا سے عراق کی سرزمین اسلام کی طرف دعوت دینے اور اسلامی سرزمین کی سرحدوں میں وسعت پیدا کرنے کا مرکز اور محور قرار پائی تھی۔ جس زمانے میں بنی امیہ نے شام کی مرکزیت میں پوری اسلامی دنیا میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا عراق کی عوام نے اس ظالمانہ حکومتی نظام کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد انجام دی۔ اسی طرح یہ سرزمین "رضا من آل محمد ص" کے پرچم تلے شروع ہونے والی تحریک کا مرکز بھی بنی جس کے نتیجے میں بغداد میں بنی عباس کی حکومت تشکیل پائی۔ بنی عباس کا سلسلہ حکومت اگلے چھ سو سال تک جاری رہا۔ قریشیان اور آل عباس نے بغداد میں جو حکومت تشکیل دی وہ ظلم و ستم کے لحاظ سے بنی امیہ سے کسی طور کم نہیں تھی لہذا ایک بار پھر عراق کی سرزمین سے ہی اس کے خلاف بھی مسلح جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔
 
ظلم و ستم کے خلاف عراقی عوام کے قیام کا سلسلہ جاری رہا اور بنی عباس کے بعد سلطنت عثمانیہ کے خلاف بھی یہ سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ البتہ اس دوران برطانوی استعمار نے عراقیوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کی توانائیوں کو اسلامی خلافت کے خاتمے کا ذریعہ بنایا۔ ہم جس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا چاہتے ہیں وہ عراقی عوام کے اندر بیرونی قوتوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ ہونے اور اپنی آزادی اور خودمختاری برقرار رکھنے کا جذبہ ہے۔ عراقی عوام نے مصری عوام کے برعکس، حجازی عوام کے برخلاف، افریقہ کے صوفیوں کے برعکس اور سائیکس پیکو کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی حکومتوں کے برخلاف اپنے حقوق کا ڈٹ کر دفاع کیا اور دوسروں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنے میں کامیاب رہے۔ اگر عرب دنیا میں کہیں ایک طاقتور عرب حکومت تشکیل پانے کی امید پائی جاتی ہے تو وہ عراق ہے۔ مثال کے طور پر 2003ء سے لے کر 2013ء تک عراق، مصر، تیونس اور لیبیا میں حکمفرما نظام کے خلاف تحریکیں جنم لے چکی ہیں لیکن جو حکومت اب تک محفوظ رہی ہے وہ عراقی حکومت ہے۔ عراق میں نیا حکومتی نظام 2005ء میں تشکیل پایا۔ عراقی عوام نے مصری اور دیگر عرب ممالک کی عوام کے برعکس اپنا حکومتی نظام برقرار رکھا اور شدید قسم کے بحرانوں سے کامیابی کے ساتھ عبور کیا ہے۔ دیگر عرب ممالک میں ایک مضبوط حکومت تشکیل نہ پا سکی اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں لیبیا میں اب تک خانہ جنگی جاری ہے۔ گذشتہ ایک عشرے کے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عراق نے زیادہ استحکام اور پائیداری کا مشاہدہ کیا ہے۔
 
3)۔ امریکی حکام نے ایک طرف تو عراق کو خطے میں اپنی استعماری اور تسلط پسندانہ پالیسیوں اور اقدامات کا مرکز قرار دے رکھا ہے جبکہ دوسری طرف وہ عراق کا عرب دنیا کی طاقت بحال کرنے کیلئے "مرکزی طاقت" میں تبدیل ہو جانے کے شدید مخالف ہیں۔ امریکی حکمران تصور کرتے ہیں کہ سعودی عرب، ترکی اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سمیت کوئی دوسرا ملک خطے میں وہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو عراق ادا کر سکتا ہے۔ لہذا امریکہ عراق میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر مصر نظر آتا ہے۔ عراق میں امریکہ نے دو بڑے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ ایک حریر فوجی اڈہ جو اربیل میں واقع ہے اور دوسرا بغداد کے نواح میں عین الاسد فوجی اڈہ ہے۔ اب جبکہ عراقی عوام ملک میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی کی شدید مخالف ہے اور عراقی پارلیمنٹ میں بھی امریکہ کے مکمل فوجی انخلاء سے متعلق بل منظور ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی حکام اقتصادی سہولیات کے جھوٹے وعدوں اور داعش کے دوبارہ سرگرم ہو جانے کی دھمکیوں سمیت مختلف حیلوں سے اس ملک میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے درپے ہیں۔ امریکی حکمران عراق کو عرب دنیا میں طاقت کا محور و مرکز بننے کے بھی مخالف ہیں لہذا مختلف طریقوں سے اس ملک میں سیاسی، سکیورٹی اور سماجی بحران پیدا کر رہے ہیں۔
 
امریکی حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ اسلامی مزاحمتی بلاک میں عراق کی موجودگی کے باعث یہ ملک ایران کی جانب سے اسٹریٹجک حمایت سے برخوردار ہے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے عراق کو سائنس، ٹیکنالوجی، نظریاتی اور اعتقادی شعبوں میں معلومات اور صلاحیتوں کی منتقلی بہت جلد بغداد کو عرب دنیا کے اہم مرکز میں تبدیل کر سے گی۔ اگر عظیم قدرتی ذخائر اور زرخیز زمینوں کا مالک جمہوری اقدار کا حامل عراق اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی استحکام حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے مغربی طاقتوں کی بے جا مداخلت کے خلاف عوام بھی سرگرم عمل ہو جائیں تو ایشیا اور افریقہ میں عرب حکومتیں، قومیں اور اہم شخصیات اس کی طرف امڈ آئیں گی۔ یوں عراق میں امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے کٹھ پتلی عناصر اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور حقیقی معنوں میں ایک "اسلامی طاقت" اور "عرب طاقت" معرض ظہور میں آ جائے گی۔ اس طرح مستقبل میں عراق کی مرکزیت میں عرب دنیا ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آ جائے گی۔ امریکی حکمران جانتے ہیں کہ اگر عرب حکومتیں آپس میں متحد ہو گئیں تو وہ ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آ سکتی ہیں کیونکہ اس وقت دنیا میں 22 عرب ممالک ہیں جن میں سے 12 براعظم ایشیا جبکہ 10 براعظم افریقہ میں ہیں۔ عرب دنیا میں ہمیشہ سے ایک متحدہ عرب بلاک تشکیل دینے کی آرزو موجود رہی ہے اور اسی وجہ سے "عرب دنیا" اور "امت عرب" جیسی اصطلاحات بھی معرض وجود میں آئی ہیں۔
 
تمام عرب ممالک کا مجموعی رقبہ 130 ملین کلومیٹر مربع ہے۔ یہ رقبہ براعظم یورپ اور امریکہ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہے جن کا رقبہ بالترتیب 10 ملین کلومیٹر مربع اور 9.8 ملین کلومیٹر مربع ہے۔ یہ ایک عظیم صلاحیت اور توانائی ہے۔ دوسری طرف ایک عالمی تحقیقاتی ادارے "پیو فاونڈیشن" کی رپورٹ کے مطابق عرب دنیا میں مغرب سے نفرت کرنے والے افراد کی تعداد 70 سے 95 فیصد ہے۔ لہذا مغربی طاقتیں عرب ممالک کے ممکنہ اتحاد سے شدید خوف زدہ ہیں۔ امریکی حکمران اس خطرے کو حقیقت کا روپ دھارنے سے روکنے کا راز عرب ممالک خاص طور پر عراق کو ایران سے دور کرنے میں تصور کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران "سیاسی طاقت" اور "استعمار دشمنی" کا مرکز ہے اور اگر عراق ایران کا اتحادی ملک بن جاتا ہے تو اس میں بھی یہ دو چیزیں اکٹھی ہو جائیں گی اور عراق کے ذریعے باقی عرب ممالک میں منتقل ہو جائیں گی۔ بدقسمتی سے عراق میں بھی بعض ایسی شخصیات اور سیاسی گروہ پائے جاتے ہیں جو اس غلط تصور کا شکار ہیں کہ اگر عراق اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ہوتا ہے تو اسے شدید قسم کے دباو اور خطرے برداشت کرنا پڑیں گے۔ ان کے خیال میں عراق اس دباو کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک میں عراق کی شمولیت اس ملک کو ایک عرب طاقت میں تبدیل ہونے میں مددگار ثابت ہو گی۔
 
بہتر ہے کہ عراق کی یہ سیاسی شخصیات اور گروہ ایک نظر مصر پر ڈالیں اور دیکھیں کہ مصر جمال عبدالناصر کے دور میں زیادہ طاقتور تھا یا حسنی مبارک اور جنرل السیسی کے دور میں؟ اسی طرح انہیں چاہئے کہ وہ محمد مرسی کی زیر صدارت مصر اور انصاراللہ یمن کے زیر کنٹرول یمن کا بھی آپس میں موازنہ کریں۔ محمد مرسی کی حکومت مشکل سے ایک سال تک چلی اور ہلکے سے جھٹکے کے نتیجے میں ہی سرنگون ہو گئی لیکن یمن میں اںصاراللہ گذشتہ کئی برس سے برسراقتدار ہے اور عالمی طاقتوں سمیت بڑے بڑے عرب ممالک کی شدید مخالفت اور دشمنی کے باوجود ابھی تک قائم ہے۔ انصاراللہ نے نہ صرف اپنا اقتدار برقرار رکھا ہے بلکہ شجاعت اور مزاحمت کی بدولت امریکہ اور سعودی عرب کو گھٹنے ٹیکنے پر بھی مجبور کر ڈالا ہے۔ اگر عراقی حکام اس حقیقت سے باعلم ہو جائیں کہ ان کے ملک کی تباہی کیلئے بالکل ایسی ہی صہیونی مغربی سازش انجام پا رہی ہے جس نے 1971ء اور 1981ء میں مصر کی طاقت خاک میں ملا ڈالی تھی تو پھر وہ امریکہ کے شیطانی وسوسوں کا ہر گز شکار نہیں ہوں گے۔ انہیں چاہئے کہ وہ امریکی حکمرانوں کی جانب سے عراق میں اپنی مستقل فوجی موجودگی یقینی بنانے میں بے چارگی کا راز سمجھ لیں تاکہ مصری حکمرانوں کی طرح مستقبل کو گنوانے سے محفوظ رہیں۔
 
عراقی حکام جان لیں کہ جس امریکہ نے عراق کے دو حصوں، کردنشین اور سنی نشین علاقوں میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے کی ذلت آمیز درخواست کی ہے اور اس مقصد کیلئے انہیں ایک طرف مالی تعاون کا لالچ جبکہ دوسری طرف داعش کو دوبارہ زندہ کرنے کی دھمکی دی ہے، وہی امریکہ ہے جس نے کسی زمانے میں پورے عراق پر فوجی قبضہ جمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت امریکہ نے حتی اقوام متحدہ سے بھی اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ وہ عراق جو تین لاکھ مغربی فوجیوں کی جارحیت کے مقابلے میں ذلت آمیز شکست کا شکار ہوا صدام حسین کا عراق تھا۔ باوثوق ذرائع کے بقول صدام حسین قاہرہ یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے سے لے کر اپنی حکومت کے آخری دن تک سی آئی اے سے تنخواہ وصول کرتا تھا اور ان کا باقاعدہ ایجنٹ تھا۔ لیکن آج کا عراق جس سے امریکہ اپنے پانچ ہزار فوجیوں کی موجودگی کی بھیک مانگتا نظر آتا ہے گذشتہ دو عشروں سے اسلامی مزاحمتی بلاک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔
4)۔ لیکن عراق اپنا راستہ خود ڈھونڈ نکالے گا اور بعض کینہ توز سازشی عناصر نے جو غبار آلود فضا بنا رکھی ہے اس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایک طاقتور عراق معرض وجود میں آئے گا اور اس تصویر کے برخلاف جو امریکہ کے مرکزی جاسوسی ادارے این ٹی سی نے عراق کے بارے میں پیش کی ہے براعظم ایشیا کی مرکزیت میں تشکیل پانے والے نظام کے تحت علاقائی محاذ میں شامل ہو کر رہے گا۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ یہ راستہ اس قدر اہم ہے کہ دشمن آئے روز نیا سازشی منصوبہ سامنے لائے گا کیونکہ وہ موجودہ حقائق کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 872915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش