0
Wednesday 8 Jul 2020 21:23

رسومات ِبد کی فلک بوس لہریں، معاشرہ بربادی کے دہلیز پر

رسومات ِبد کی فلک بوس لہریں، معاشرہ بربادی کے دہلیز پر
تحریر: مجتبیٰ شجاعی

مجموعی طور پر اگر ہم مسلم معاشرے کا جائزہ لیں تو خواہشات کی غلامی، حرص و ہوس، تمنائے مال و متاع اور بے جا اخراجات سے سماج میں اضطراب کی فلک بوس لہریں پیدا ہوگئی ہیں۔ اسراف میں ایک دوسرے پر سبقت اور بے جا تمناوں نے حلال و حرام، جائز و ناجائز کی تمیز ختم کر دی ہے۔ مقتدر دین میں اعلیٰ انسانی اقدار پائمال ہوتی جا رہی ہیں۔ دولت کے پجاری دنیا پر آخرت کو ترجیح دے رہے ہیں، سادہ طرز زندگی کو حقارت کی نظر اور قناعت پسند لوگ تنگ نظری کا شکار ہو رہے ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے۔ افسوس صد افسوس ہم مدہوش نیند میں خراٹے لے رہے ہیں اور برائیوں کے کثیف لحد میں کروٹیں بدل رہے ہیں۔ بے جان ملت کی بدعملی، مفاد پرستی، ضمیر فروشی اور غفلت شعاری سے مسلم معاشرہ بربادی کے دہلیز پر کھڑا ہوگیا ہے۔

 بے جا اخراجات اور دولت کی نمائش نے ہمارے پاک و صاف معاشرے کو جکڑ کر رکھ دیا۔ شادی بیاہ اور دیگر انفرادی و اجتماعی تقریبات میں انتہائی اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کیا، اب غریب لوگ ملک الموت کے آنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔ وقت احتضار اور فشار قبر سے بھی زیادہ ڈر، آخری رسومات کا ڈر ہے۔ شادی بیاہ کی تو بات ہی نہیں۔ جہیز کے لعنت سے لے کر سینکڑوں پکوان والے دسترخوان اور گاڑیوں کی ریل پیل تک مال و زر کا انبار چوبیس گھنٹوں میں گیس کی طرح اڑ جاتا ہے۔ معاشرے میں اخلاقی اور اسلامی حس کی کوئی شے باقی نہیں رہی۔ رسومات بد کا یہ بیہودہ نظام غریب اور مسکین عوام کی شادیوں میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے۔ ہمارے سماج میں لاکھوں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں عمر کی حدیں پار کرچکے ہیں۔

کثیر تعداد میں ہمارے لخت جگر عرصہ دراز سے اسی انتظار میں ہیں کہ کب ان کے ہاتھوں پر شادی کی خوبصورت مہندی لگ جائے۔ بیہودہ رسم و رواج اور جھوٹی شان و شوکت کے سبب لاکھوں والدین نفسیاتی امراض کے شکار ہوگئے ہیں۔ لیکن مردہ ضمیر اور بے غیرت قوم اپنی بدنصیب آنکھوں سے بڑی بے دردی کے ساتھ ان تمام برائیوں کا نظارہ کر رہا ہے۔ دین مبین اسلام نے نکاح کا جو میعار مقرر کیا ہے، مال و متاع کے پجاریوں نے اس کو پاوں تلے روند ڈالا ہے، اگر اسی میعار کو ملحوظ نظر رکھا جاتا تو غریب، مفلس اور نادار بیٹیوں کا نکاح بھی بآسانی ہو جاتا۔ آج مسلم معاشرے میں مسائل کے انبار سے انسانی اور اسلامی اصولوں کے تحفظ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔

 چودہ سو برس قبل مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے موجودہ پرفتن دور کی پیشن گوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”لوگوں پر ایک ایسا دور بھی آنے والا ہے، جب قرآن میں صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا۔ مسجدیں تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔ اس کے رہنے والے اور آباد کرنے والے سب بدترین اہل زمانہ ہوں گے۔ انہی سے فتنہ باہر آئے گا اور انہی کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔ جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا، اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جو دور رہنا چاہے گا، اسے ہنکا کر لے آئیں گے۔“ (نہج البلاغہ حکمت ۳۲۹)

واقعاً آج کے پرُفتن دور میں نام نہاد مسلمان نے تعلیمات قرآنی کو بالائے طاق رکھ کر بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلموں کو اپنا آئین تسلیم کر لیا ہے۔ فحاشی اور عریانیت کے اداکاروں کو اپنا آئیڈیل سمجھا۔ سینما ہالوں، شراب خانوں اور فحاشی کے دیگر اڈوں میں تربیت پاکر زیبا ترین زندگی کو جہنم کا راستہ دکھایا۔ ہمارے حکمران، دانشور اور دیگر ذمہ دار طبقے خود ایسے خرافات اور رسومات بد کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ جہاں سے نکلنا دشوار لگ رہا ہے۔ ہماری مسجدیں بے روح نمازوں تک محدود رہ گئی ہیں۔ ہماری درگاہیں تفریح گاہ بن گئے ہیں۔ علماء کو ڈر ہے کہ اگر برائیوں خاص طور پر اسراف کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو وازہ وان (لمبی فہرست والے پکوان) والا دستر خوان بند ہ وجائے گا۔

ختم قرآن اور مردے کی آخری رسومات اور فاتحہ خوانی کی مجلسوں میں ان کو نظر انداز کیا جائے گا۔ بے جا نہ ہوگا کہ بگڑتے معاشرے کا ذمہ دار علماء اور حکمران ہی ہیں۔ حکمرانوں نے ہی رسم و رواج کی آڑ میں جہیز جیسی لعنت اور اسراف کو پروان چڑھایا۔ علماء اور دانشور حضرات نے آنکھیں بند کیں۔ اسراف اور فضول خرچی کا گھوڑا بے لگام ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ برباد ہوگیا۔ جس معاشرے میں قانون ساز اور قانون کی رکھوالی کرنے والے افراد اس طرح کی برائیوں کے شکار ہوں گے، رعایا پر انگلی اٹھانا بے سود ہوگا۔

مرسل اعظم نے فرمایا: ”میری امت کے دو طبقے اگر ٹھیک ہو جائیں تو میری امت کی اصلاح ہو جائے گی، لیکن اگر یہ دونوں خراب ہو جائیں تو میری اُمت بگڑ جائے گی۔ سوال ہوا، اے ﷲ کے رسول وہ کون ہیں۔؟ فرمایا: علماء اور حکام۔“(کتاب الخصال صفحہ ۶۳) مسلمانوں کے لیے کتنی بڑی حماقت کی بات ہے کہ ایک طرف مرسل اعظم کے امتی ہونے کے دعویدار ہیں، دوسری جانب آپ کی تعلیمات سے منہ پھیر رہے ہیں۔ آپ کی طرز زندگی اپنانے میں شرم و عار محسوس کر رہے ہیں۔ جس قرآن کو مسلمان کلام اللہ سمجھ کر ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت اس کے اصل اہداف سے روگردانی اختیار کرکے مغرب کے ذلیل و خوار معاشرے کو پیار کر رہے ہیں۔ قرآن و سنت سے روگردانی سب سے بڑی وجہ بنا کہ معاشرہ زوال پذیری کی جانب گامزن ہے۔

قرآن پاک اسراف اور بے جا خرچی کے بارے میں فرماتا ہے: ”کھاو، پیو اور اسراف نہ کرو، کیونکہ خدا اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔“(سورہ اعراف آیت نمبر۱۳) اسی طرح اسراف کرنے والوں کو ﷲ تبارک و تعالیٰ نے شیطان کا بھائی بنا دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ”اسراف کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔“(سورہ اسراء آیت ۷۲) رسول گرامی کا فرمان ہے ”کھاو، پیو، پہنو اور صدقہ دو لیکن اسراف سے بچو“(بحار الانوار ج ۰۷)۔ آپ فرماتے ہیں کہ ”میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں، جو فضول خرچی پر مبنی نعمتوں اور عیاشیوں میں پروان چڑھتے ہیں۔“(تنبیہ الخواطر و نزہتہ النواظرجلد ۱)۔ اسی فرمان نبوی کے تناظر میں امیر المومنین حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: ”وائے ہو فضول خرچی کرنے والے پر! وہ اپنی اصلاح اور اپنے معاملے کو درست کرنے کی منزل سے کس قدر دور ہے۔“(غرر الحکم)

مسلمانو! قرآن و سنت کی کسوٹی پر اپنے نفس کو پرکھ کر محاسبہ کیجئے، باریک بینی سے جائزہ لے کر بتائیں کہ قرآن و سنت کی رو سے کیا ہم امت محمدی کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ اگر ہمیں قرآن و سنت سے محبت ہے۔ سچے عاشقان رسول اور پیروان اہلبیتؑ کے دعویدار ہیں تو اس مادی جاہ و حشمت، مال و دولت، بے جا اخراجات اسراف اور فضول خرچی سے گریز لازمی ہے۔ خواہشات نفسانی کے غلام اور ضمیر فروش افراد کسی بھی صورت میں امت محمدی کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالبؑ ارشاد ہے، "جو ہم اہلبیت ؑسے محبت کرے، اسے جامہ فقر پہننے کے لئے تیار ہونا چاہیئے۔"(نہج البلاغہ حکمت ۱۱۲)

دور حاضر میں اگر ہم سامراجی اور صیہونی مظالم پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ کشمیر، یمن، بحرین، نائیجریا، سیریا اور عراق میں ہو رہی سامراجی مداخلت پر واویلا مچا رہے ہیں۔ یزیدیت کے خلاف نفرت و بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں تو کیا کبھی ہم نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا۔؟ کہیں ہم بھی وقت کے یزید، فرعون اور نمرود تو نہیں۔؟ اگر ہمارے افعال کی وجہ سے کسی مفلس بیٹی کا ہاتھ مہندی لگنے سے رہ جائے تو ہم سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے۔ یہی یزیدی کردار ہے کہ غریب عوام ہمارے شر سے محفوظ نہیں۔ امام عالی مقام امام حسینؑ نے میدان کربلا میں انہی برائیوں کے خاتمے کے لیے (جن سے اقدارِ اسلامی کی پامال ہو رہی تھیں) عظیم الشان قربانیاں پیش کیں۔ حلال و حرام جو مخلوط ہوگیا تھا، اس کو الگ کرنے کے لیے قیام کیا، لیکن اس ظلم کو برداشت نہیں کیا، جو دین محمدی میں ملعون یزید نے حلال کیا تھا۔ دین اسلام میانہ روی، مساوات اور امن کا دین ہے، جو ظلم کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ظلم چاہے تلوار سے کیا جائے یا کردار سے۔ مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں: ”ظلم کی ابتدا کرنے والے کو کل ندامت سے اپنا ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔“(حکمت ۱۸۶)

آج دولت کے پجاریوں نے اپنی بدکرداری سے جس طرح ماحول کو آلودہ کیا ہے، نچلے طبقے کی امنگوں اور امیدوں کا سرعام قتل کیا ہے، قوم کی لاکھوں بیٹیوں کو ضائع کر دیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دور جاہلیت نے ایک مرتبہ پھر سر نکالا ہے، اس دور میں اگر باپ شرم سے بیٹی کو زندہ درگور کرتا تھا، آج والدین اپنے آپ کو زندہ درگور کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بے جا اخراجات نے سماج کے نچلے طبقے کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہماری وادی میں ہزاروں لڑکیاں ازدواجی زندگی کے لیے ترس رہی ہیں، لیکن ریکارڈ توڑ رسومات نے ان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ معاشرہ کا ذی شعور طبقہ، علماء، حکمران اور دانشوران ”صم بکم عمی فھم لا یعقلون“ کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اب بھی خواب مدہوش سے بیدار نہ ہوئے تو انجام عبرتناک ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے افراد اور ایسے گھرانوں کا بائیکاٹ کیا جائے، جو رسومات بد، بے جا اخراجات، جھوٹی شان و شوکت، اسراف اور فضول خرچی سے معاشرے کو آلودہ کر رہے ہیں۔ علماء اور ذی شعور طبقہ اس ناسور کے خلاف مل کر مزاحمت کا اعلان کریں۔
رہ گئی رسم اذاں روح ِ بلالی نہ رہی (علامہ اقبال)
خبر کا کوڈ : 873292
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش