0
Saturday 11 Jul 2020 18:29

بوسنیا سے کشمیر تک، قتل عام اور بے حسی کی داستان

بوسنیا سے کشمیر تک، قتل عام اور بے حسی کی داستان
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

عالم اسلام داخلی کمزوریوں اور خارجی سازشوں کیوجہ سے ابتلاء کا شکار ہے۔ کئی زخم تازہ ہیں اور اس دوران برطانوی خبر رساں ادارے نے 1995ء میں بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے۔ دوسری طرف کشمیر کئی مہینوں سے لاک ڈاون کا شکار ہے اور صیہونی غاصبین فلسطین میں مسلمانوں کے ایک اور تاریخی قبرستان کو تباہ کرکے یہودی بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان سال پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کا قتل عام ہوسکتا ہے، حالانکہ مسلمانوں کیخلاف مظالم کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بوسنیا میں ہونیوالے قتل عام اور نسل کشی کو اقوام متحدہ کی فوجیں نہیں روک سکین، نہ عالمی اداروں نے کوئی تدارک کیا، ایسے ہی خدشات مقبوضہ کشمیر سے متعلق ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بوسنیا کی تاریخ کے میں 1992ء سے 1995ء کا دور ایسا تھا، جس میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ یہ وہ دور ہے جب کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر تھی اور جہاد کے نام پر غیر ریاستی عناصر پاکستان میں اہل تشیع سمیت سنی شیعہ کی تفریق کے بغیر مسلمانوں کا قتل عام بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ یعنی کس طرح عام مسلمان اشرافیہ کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کیساتھ ساتھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سماجی رابطے کی سائیٹ پر بیان میں کہا ہے کہ یہ دنیا کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسا سانحہ دوبارہ رونما نہ ہو۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ 1995ء کے قتل عام سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔

کشمیر کیساتھ ساتھ فلسطین میں جاری مظالم کا ذکر خوش آئند ہے۔ البتہ اب جبکہ صرف کشمیر میں مظالم جاری ہیں بلکہ غاصب اسرائیلی حکام 200 سالہ قدیم قبرستان کی جگہ پر بے گھر یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں، جو کہ فلسطین میں قدیم اور یادگار مقامات پر قبضہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے، لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عالمی صیہونی آقاوں کی مخالفت مول لینے کو تیار نہیں۔ رپورٹ کے مطابق جب بوسنیائی سرب یونٹس کے کمانڈر راتکو ملادچ کے فوجی قتلِ عام شروع کر رہے تھے، وہ خود خوفزدہ شہریوں کو بے خوف رہنے کا مشورہ دے رہے تھے، قتل عام کا یہ سلسلہ 10 روز تک جاری رہا۔ اس دوران اسلحے سے لیس اقوامِ متحدہ کے امن فوجیوں نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے پناہ گاہ قرار دیئے گئے اس علاقے میں اپنے اردگرد جاری تشدد کو روکنے کیلئے کوئی کردار ادا نہ کیا، یہ قتلِ عام بوسنیائی جنگ کے دوران بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا۔

بوسنیائی جنگ سنہ 1990ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے بکھرنے کے دوران ہونے والے کئی مسلح تنازعات میں سے ایک تھی۔ یوگوسلاویا ٹوٹنے کے بعد 1992ء میں شروع ہونے والی بوسنیا کی جنگ میں سرب، کروشین اور بقوسنیا کے مسلمان ایک دوسرے سے نبردآزما تھے اور 1995ء میں امن معاہدے سے قبل اس تنازع میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے۔ سربرینکا میں جو کچھ ہوا وہ عالمی برادری کے لیے شرم کا مقام ہے، کیونکہ اس علاقے کو 1993ء میں اقوام متحدہ نے عوام کے لیے محفوظ مقام قرار دیا تھا۔ دو سال بعد 1995ء میں بوسنیا کی سرب افواج کو چڑھائی کا موقع ملا تو بوسنیا کے 15 ہزار مسلمانوں نے جان بچانے کے لیے جنگلات کا رخ کیا اور اس سے دگنے افراد نے اس امید کے ساتھ سابقہ صنعتی علاقے میں قائم اقوام متحدہ کے رہائشی علاقوں کا بھی رخ کیا کہ نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے امن پسند نمائندے ان کا تحفظ کرسکیں گے۔

لیکن یہ امن کے نمائندے بھی سربیا کی افواج کے سامنے بے بس نظر آئے اور 2 ہزار مرد و لڑکوں کو اقوام متحدہ کے ان رہائشی علاقوں سے نکال کر قتل کر دیا گیا اور عورتوں اور بچیوں کو بوسنیا کی حکومت کے زیر قبضہ علاقے میں لے گئے۔ سربرینکا میں پناہ کے لیے جنگلات کا رخ کرنے والے مسلمانوں کو سرب فوج نے چن چن کر نشانہ بنایا اور بعد میں اس نسل کشی کے ثبوت چھپانے کی بھی کوشش کی گئی اور لاشوں کو بلڈوزر کے ذریعے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد آنے والے سالوں میں ان لاشوں کو نکالا گیا اور مقتولین کی ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کی گئی اور تقریباً ایک ہزار مرنے والوں کی شناخت ہونا اب بھی باقی ہے۔ سربرینکا میں نسل کشی سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر ہیگ میں اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبونل نے ان جرائم کی سربراہی کرنے والے سرب فوج کے سربراہ ریڈووان کریڈزک اور کمانڈو ریٹکو ملیڈچ سمیت 50 سے زائد سرب فوجیوں کو 700سال سے زائد قید کی سزا سنائی تھی۔

الم ناک سانحے و نسل کشی کے 25 سال بعد آج بھی متاثرین کی لاشیں اور اجتماعی قبریں ملتی ہیں، سن 2002ء کی ایک رپورٹ میں نیدر لینڈز کی حکومت اور فوجی عہدیداروں پر ان ہلاکتوں کو روکنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا۔ رپورٹ کے پیش نظر پوری حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔ سن 2019ء میں ملک کی عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا، جس میں نیدر لینڈ کو سریبرینیکا میں 350 افراد کی اموات کیلئے جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ سربیا نے جنگ کے خاتمے کے بعد رونما ہونے والے جرائم پر معذرت کی، لیکن پھر بھی اس نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا ہے۔ سریبرینیکا کی طرح آج بالکل اسی طرح کشمیری مسلمانوں کو بھارتی ظالم افواج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، بھارتی فوجی مسلمان بستیوں میں داخل ہوتے ہیں اور جعلی مقابلوں کی صورت میں مسلمان بچوں، بزرگوں اور جوانوں کو قتل کر دیتے ہیں، خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ آج بھی عالم اسلام پارہ پارہ ہے۔ کشمیری بھائیوں کا دکھ درد ہمیں احساس دلانے کیلئے کافی ہے کہ دنیا بھر میں ظالمانہ اقدامت کی کھل کر مخالفت کی جائے اور مقبوضۃ کشمیر کی صورت حال بدلنے کیلئے انکی مکمل حمایت کی جائے۔
خبر کا کوڈ : 873811
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش