1
2
Monday 13 Jul 2020 21:40

مذہبی شخصیات اور شدت پسند رویئے

مذہبی شخصیات اور شدت پسند رویئے
تحریر: سید اسد عباس

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

شاعر بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں، اپنے معشوق کی صفات کو کیسے کیسے بیان کرتے ہیں، اس شعر میں اگرچہ مبالغہ ہے لیکن یقیناً جس کے بارے شعر کہا گیا ہے، اس کی گفتگو اتنی نرم، خوشبودار اور رنگین ہوگی کہ شاعر کو اسے ان الفاظ سے خراج تحسین پیش کرنا پڑا۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کا دہن درج بالا صفات کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ بولیں تو آگ ہی اگلتے ہیں، ہر لفظ کسی نہ کسی جگر کو چھلنی کرتا ہے، الفاظ کی ادائیگی گولیوں کی تڑتڑاہٹ کا سماں پیدا کرتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر ایسے لوگوں کے دوش پر مذہب کا لبادہ آجائے تو ان کی آتش فشانی کسی جدید آٹومیٹک ہتھیار سے کم نہیں ہوتی۔ جو منہ میں آتا ہے، بس بولے چلے جاتے ہیں۔ کلاشنکوف چاہے کتنی ہی جدید ہو جائے، اس میں جتنی بھی سائنسی ٹیکنالوجی کا استعمال کر لیا جائے، اس کا کام آگ اگلنا اور لوگوں کو قتل کرنا ہی ہے۔

 فہم و فراست بھی ایک ایسی متاع ہے، جو بازار میں دستیاب نہیں ہوتی۔ یہ رب کریم کی جانب سے ودعیت ہوتی ہے، اس کا لباس، تعلیم اور حافظے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دولت سے محروم انسان حالات کو غلط انداز سے تجزیہ کرتا ہے اور یقیناً جب اس تجزیہ کی بنیاد پر رائے دے گا تو پھر اس کی زبان سے پھول نہیں جھڑیں گے۔ فہیم انسان تو حالات و واقعات کے مطابق بات کرتا ہے، جہاں دیکھتا ہے کہ خاموشی مناسب ہے، وہاں فاتح خیبر و خندق ہونے کے باوجود خاموشی اختیار کرتا ہے اور جہاں بولنا ضروری سمجھتا ہے، وہاں خواہ کوئی بھی ساتھ نہ کھڑا ہو، تن تنہا حق کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے ہی اصلاح کا جذبہ ہو تو انسان ہزار راہیں ڈھونڈتا ہے کہ کس مناسب طریقے سے بات کی جائے کہ بات بھی ہو جائے اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ اسی لیے تبلیغ دین کوئی آسان کام نہیں، اس کے لیے انسانوں میں سے بہترین لوگوں کا انتخاب کیا گیا۔ سورہ توبہ یقیناً حضرت ابو بکر بھی کفار کو سنا سکتے تھے، لیکن نبی کریم ؐ کو حکم دیا گیا کہ کسی اپنے جیسے کو وہاں بھیجو۔ حضرت حسنین کریمینؐ کا ایک واقعہ بہت سنایا جاتا ہے کہ کوئی بزرگ غلط وضو کر رہے تھے تو حسنین کریمین نے اس بزرگ کا مذاق اڑانے، ٹھٹھہ کرنے کے بجائے کہا کہ ہم وضو کرتے ہیں، آپ دیکھیں کیا ہمارا وضو درست ہے یا نہیں۔ یہ ہے اصلاح۔

درج بالا گفتگو حسن ظن پر مشتمل ہے، اگر کوئی شخص جان بوجھ کر، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ کام انجام دے تو اس کے بارے میں غور و خوض کی ضرورت ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ فکری و عملی شدت پسندی کے پیچھے مذہبی سوچ کا عمل دخل ہوتا ہے، معاملہ اس کے بالکل برعکس ہونا چاہیئے۔ اسی شدت پسندی سے شعلہ بیانی جنم لیتی ہے۔ حال ہی میں ایک مذہبی درسگاہ کے مہتمم جو اپنے پیروکاروں میں استاد محترم کے لقب سے بھی جانے جاتے ہیں، انہوں نے اپنی اسی شعلہ بیانی کے سبب معاشرے کے ایک طبقے میں بے چینی کو جنم دیا۔ استاد محترم نے بہت کم مدت میں ملک میں کئی ایک علمی درسگاہیں، ادارے، تحریک اور فکری پیروکاروں کو جنم دیا۔

استاد محترم کا خاصہ رہا ہے کہ وہ اکثر اپنے خطبات جمعہ نیز مجالس میں استعمار و استمثار اور طاغوت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے ایک امام بارگاہ کی جانب سے ولایت کے نام پر اٹھنے والے فتنے کے خلاف بھی انہوں نے اپنی روایتی شعلہ بیانی کو جاری رکھا، لیکن جیسے ہی ایک محاذ پر فتح نصیب ہوئی، جس کی بنیادی وجہ ملک میں کرونا کی وبا کے سبب مذہبی اجتماعات پر پابندی تھی تو استاد محترم نے فتح کے شادیانے بجانے کا آغاز کیا اور یہ شادیانے فقط اپنی فتح کے نہیں تھے بلکہ ان کا پہلا دوستانہ فائر ملک کی اس طلبہ تنظیم کے خلاف تھا، جو انقلاب اسلامی ایران کی آمد سے قبل ہی ملک میں اپنے دور کے بہترین علماء کی زیر سرپرستی تشیع کے دفاع اور نوجوانوں کی دینی و فکری تربیت کے لیے سرگرم عمل تھی۔ اس تنظیم نے اس وقت ملک کے نوجوانوں کو کیمونسٹ نظریات سے بچانا شروع کیا، جب استاد محترم شاید ابھی سکول بھی نہ گئے ہوں۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ تنظیم اور اس کے جوان ملک میں اسلامی فکر کے علمبردار کی حیثیت سے پیش پیش رہے۔ ان جوانوں کی جواں مردی اور استقامت اور حوصلہ کو دیکھتے ہوئے ملک کے مختلف عدالت پسند علماء سے اس تنظیم کے جوانوں اور طرزعمل کو خراج تحسین پیش کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای تک جب اس تنظیم کے جوانوں کی مقاومت اور استقامت کی خبریں پہنچیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جوان میری آنکھوں کا نور ہیں۔ استاد محترم فرماتے ہیں کہ اس تنظیم کو یہ مقام آقای رہبر کی وجہ سے ملا۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ آئی ایس او کو جو بھی پذیرائی اور تحسین ملی، اس کی اپنی فعالیت کے سبب ملی نہ کہ تحسین کی وجہ سے یہ طلبہ تنظیم فعال ہوئی۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی جو آئی ایس او کے جوانوں سے مل کر فرماتے تھے کہ آپ سے مل کر میں ایک نیا جذبہ پاتا ہوں جبکہ سید جواد کہتے ہیں کہ آئی ایس او نے ان اعزازات کا بھرم نہیں رکھا۔ سید جواد نے فقط آئی ایس او پر طعن و تشنیع کا نشتر نہیں چلایا بلکہ ملک میں گذشتہ تین دہائیوں سے تشیع کی قیادت کرنے والی شخصیت کے کردار کو بھی مورد سوال قرار دے دیا۔ اعتراض ان کا یہ ہے کہ ملک میں اٹھنے والے فتنہ کے خلاف ان جماعتوں اور شخصیات کا کوئی قابل ذکر کردار نہ تھا۔

علامہ جواد نقوی صاحب اپنے چند ایک گذشتہ بیانات کی وجہ سے ملک کے مذہبی حلقوں میں عموماً زیر بحث رہتے ہیں، انتخابات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ملک میں رائج جمہوری نظام ایک طاغوتی نظام ہے، اس نظام کے تحت قائم ہونے والے ادارے طاغوتی ہیں۔ لہذا اس نظام کا حصہ بننا طاغوت کی حمایت ہے، تاہم جلد ہی استاد محترم کو سمجھ آگئی کہ انہیں اسی نظام، انہی اداروں کے ہمراہ زندہ رہنا ہے۔ اب استاد محترم اپنے ہی بنائے ہوئے ان طاغوتی اداروں سے ملاقات میں عار نہیں محسوس کرتے۔ تاریخ اور عقائد کے حوالے سے بھی علامہ صاحب کے نظریات زیر بحث رہتے ہیں، لیکن معاشرے میں سوچنے سمجھنے والے حلقوں کی اصل پریشانی علامہ سید جواد کے زیر اثر آنے والے وہ نوجوان ہیں، جو اپنے نظریات اور عقائد میں شدت پسندانہ روش کے حامل ہیں اور سید جواد یا ان کے نظریات کے خلاف ایک لفظ سننے کے بھی روادار نہیں، اگر کوئی شخص یہ جرات کر بیٹھے تو پھر اس کی پگڑی سلامت نہیں رہتی۔ حال ہی میں اسلامی تحریک کے مرکزی راہنما علامہ سید سبطین سبزواری کے حوالے سے ان جوانوں کی مذمتی ویڈیوز منظر عام پر آرہی ہیں، جس میں جوانوں کا لہجہ اور طرز کلام کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔

علامہ سید جواد کو اپنے طاغوت کے حوالے سے نظریات کی طرح جوانوں کی تربیت کے نظام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر موجود یہ جوان ملت تشیع میں اتفاق و احترام کی ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے مخالفت اور نفرت کی ثقافت کو رواج دے رہے ہیں۔ ان جوانوں کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی بھی عالم دین کے حوالے سے یہ کہیں کہ اس کی زبان اور دماغ قابو میں نہیں رہے۔ ان جوانوں اور ان کے استاد محترم کی یہ شدت پسندی ایک تشویش ناک رویہ ہے، جس سے معاشرے میں تقسیم کا عمل مزید گہرا ہوگا۔ اگر کوئی شخص آپ کی روش کے مطابق عمل نہیں کرتا تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں لیا جانا چاہیئے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں انجام نہیں دے رہا۔ اگر ایسے ہی ہر گروہ اپنی رائے تو حتمی قرار دے کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے لگے تو پھر چہرہ کسی کا بھی آلودگی سے محفوظ نہیں رہے گا۔ مناسب یہ ہے کہ اپنے مثبت کاموں پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور طعن و تشنیع کی روش کو ترک کر دیا جائے، تاکہ توانائیاں کیچڑ اتارنے اور پھینکنے میں ہی نہ صرف ہوتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 874217
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسید
Pakistan
مذہبی شخصیات اور شدت پسند رویئے
(علامہ سید جواد کو اپنے طاغوت کے حوالے سے نظریات کی طرح جوانوں کی تربیت کے نظام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر موجود یہ جوان ملت تشیع میں اتفاق و احترام کی ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے مخالفت اور نفرت کی ثقافت کو رواج دے رہے ہیں۔ ان جوانوں کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی بھی عالم دین کے حوالے سے یہ کہیں کہ اس کی زبان اور دماغ قابو میں نہیں رہے۔ ان جوانوں اور ان کے استاد محترم کی یہ شدت پسندی ایک تشویش ناک رویہ ہے، جس سے معاشرے میں تقسیم کا عمل مزید گہرا ہوگا۔ اگر کوئی شخص آپ کی روش کے مطابق عمل نہیں کرتا تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں لیا جانا چاہیئے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں انجام نہیں دے رہا۔ اگر ایسے ہی ہر گروہ اپنی رائے کو حتمی قرار دے کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے لگے تو پھر چہرہ کسی کا بھی آلودگی سے محفوظ نہیں رہے گا۔ مناسب یہ ہے کہ اپنے مثبت کاموں پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور طعن و تشنیع کی روش کو ترک کر دیا جائے، تاکہ توانائیاں کیچڑ اتارنے اور پھینکنے میں ہی نہ صرف ہوتی رہیں۔)
بہت خوب ۔۔۔ جزاک اللّٰہ
ہماری پیشکش