QR CodeQR Code

مخصوص شخصیات کیخلاف شدت پسندانہ رویئے

14 Jul 2020 16:28

اسلام ٹائمز: بعض ایسے شکوہ شکایات ہوتے ہیں، جن پر خاموشی بہترین راہ حل ہوتا ہے، جبکہ بعض ایسے کام ہوتے ہیں، جن پر خاموشی گناہ ہوتا ہے۔ اصل یہی تشخیص کا مقام ہے کہ کہاں سکوت کرنا ہے، کہاں جواب دینا ہے اور یہی بات معاشرتی فراست و اجتماعی بصیرت کی متقاضی ہے۔ ہر "علی ولی اللہ " کہنے والا ہمارا بھائی ہے، درست بات ہے اور اس سے بھی درست تر یہ ہے کہ ہر "محمد رسول اللہ" کہنے والا ہمارا بھائی ہے، لیکن یہی "محمد رسول اللہ" کہنے والا یا "علی ولی اللہ " کہنے والا اگر دشمن کی سازش کا شکار ہو جائے یا دشمن کا مہرہ بن جائے اور اسی "محمد رسول اللہ اور علی ولی اللہ" کی بنیاد پر وار شروع کر دے اور مالک اشتر کیخلاف تلوار کھینچ لے تو وہاں برادرانہ رویہ نہیں رہیگا، یہی وہ مقام ہے، جہاں "حسن ظن" کی ضرورت نہیں بلکہ "سوء ظن" کا مقام ہے۔


تحریر: سید میثم ہمدانی
meesamhamadani@gmail.com

پوری دنیا میں بے شمار یونیورسٹیاں ہیں، جہاں شیعہ شناسی کے خصوصی شعبہ جات بنائے گئے ہیں۔ ان مراکز کا کام دنیا میں تشیع پر تحقیق کرنا ہے۔ ہر مرکز اپنے زاویہ نگاہ اور اپنے اسلوب و روش سے اس بارے میں تحقیقات انجام دیتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مفکر حضرات ان مراکز کے بارے میں اچھا خاصہ "حسن ظن" رکھتے ہیں اور ان کو اکیڈمک دنیا میں مگن اپنی علمی پیاس بجھانے والے محققین کے مراکز کے عنوان سے دیکھا جاتا ہے۔ عجیب حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ مومنین کے بارے میں ہمیشہ مشوش رہتے اور سوء ظن سے بھرے ہوئے ہیں، وہ کس طرح یہود و نصاریٰ کے بارے میں "حسن ظن" کی نعمت سے مالا مال ہیں، حالانکہ یہود و نصاریٰ کو قرآن نے دشمن کی کٹیگری میں ڈالا ہے اور دشمن کے بارے میں حسن ظن رکھنے والے یہ بظاہر پڑھے لکھے پروفیسر اور مفکر حضرات نہ جانے اس بات کو کس طرح جسٹیفائی کریں گے!

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، مجھے بھی ایک ایسے ہی جرمن نسل کے امریکی یونیورسٹی کے اسکالر سے ملاقات کا موقعہ ملا، بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہے کہ ان کی خواہش پر اس ملاقات کی توفیق اجباری حاصل ہوگئی کہ جن کی بیگم بھی پنجاب پر پی ایچ ڈی کر رہی تھیں اور ہمارے اکثر اکیڈمک فعال دوست یا حوزات کے حوالے سے شخصیات کی اس اسکالر سے ملاقات رہی تھی۔ بہرحال بات کرنے کا ہدف و مقصد یہ ہے کہ گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ میں آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور جو اصلی سوال ہے، وہ یہ ہے کہ "پاکستان میں کیوں شیعہ محافل اور خصوصاً نوجوانوں کے اندر ولایت فقیہ پر اتنا لٹریچر موجود نہیں ہے؟ آیا شیعہ اس کو اہمیت نہیں دیتے یا اور کوئی وجہ ہے۔؟'' ان کے اس سوال کا جواب جو بھی ہو، لیکن میرے لئے یہی بات دلچسپی کا باعث تھی کہ ان کی شیعہ شناسی میں اصل دلچسپی "ولایت فقیہ" پر ہی ہے، لیکن میرے لئے یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ اردو، انگریزی، جرمن، فارسی اور عربی فرفر بولنے والے اس شیعہ شناسی کے پی ایچ ڈی اسکالر کو کیوں پاکستان میں ہی ولایت فقیہ پر اتنی دلچسپی ہے؟ اگر اس کو اس موضوع پر کتب یا قدیم قلمی نسخے بھی چاہیئے ہوں تو اس کو قم یا نجف کی لائبریریوں میں اس کی تلاش کرنا چاہیئے!

 لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہمارے معاشرے میں پیش آرہا ہے، اس کو دیکھ کر میں اپنے سوال کے جواب کے نزدیک پہنچ رہا ہوں۔ جب پچھلے سال لاہوری گروپ کی طرف سے ولایت فقیہ کو نشانہ بنا کر علی الاعلان تضحیک اور توہین کا بازار گرم کیا گیا تو فوراً میرے ذہن میں اس جرمن امریکن اسکالر کا سوال ابھر کر سامنے آگیا ہے اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ حتماً یہ اسکالر پی ایچ ڈی کمپلیٹ کرچکا ہے۔ باقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہود و نصاریٰ دشمن نے شام، عراق، یمن اور دیگر محاذوں پر شکست کے بعد اپنی اسٹریٹیجی وار کو خاص ہدف اور مقصد کی طرف موڑ دیا ہے اور وہ ہے ولایت فقیہ و مرجعیت! دشمن کے راستہ میں جو چیز اصلی رکاوٹ ہے، وہ ولایت فقیہ اور مرجعیت ہے۔ اس ہدف کے حصول کیلئے نوجوانوں کے درمیان "گفتمان ولایت فقیہ و رہبریت" یعنی ولایت فقیہ کی ڈاکٹرائن کو تخریب کرنا ضروری ہے۔

ظاہر سی بات ہے، اس ڈاکٹرائن کی تخریب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر ایسے مرکز اور شخصیت کی تخریب کی جائے، جو اس ڈاکٹرائن کا محافظ یا مدافع ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اس زاویہ سے دیکھنے سے یہ مسئلہ بہت واضح ہو جائے، کیوں گذشتہ کچھ عرصہ میں اس طرح مختلف احزاب و گروہوں کی جانب سے یہ "جنگ احزاب" تھونپی جا رہی ہے، جس جنگ میں ہر اس شخصیت اور مرکز کو نشانہ بنایا  گیا ہے، جو ولایت فقیہ یا رہبریت کی گفتمان یعنی ڈاکٹرائن ولایت فقیہ میں کسی بھی حوالے سے کسی کردار کا حامل ہو۔ دشمن سے تو گلہ نہیں ہے، اس کا کام ہے دشمنی کرنا، لیکن گلہ ان دوستوں سے ہے، جو مسائل کو سمجھتے ہوئے بھی "فردی مفادات، گروہی مفادات، یا حزبی تعصبات" کی بنا پر دشمن کے جال میں پھنس کر اس کے اہداف کو عملی کرنے کا سہارا بن رہے ہیں۔ بہانہ بنانے میں کیا دیر لگتی ہے، کسی نے کہا کہ ساس بہو کی لڑائی کی وجہ کیا ہے۔؟ جواب ملا کہ ساس نے بہو سے کہا کہ تم آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو۔؟!

بعض ایسے شکوہ شکایات ہوتے ہیں، جن پر خاموشی بہترین راہ حل ہوتا ہے، جبکہ بعض ایسے کام ہوتے ہیں، جن پر خاموشی گناہ ہوتا ہے۔ اصل یہی تشخیص کا مقام ہے کہ کہاں سکوت کرنا ہے، کہاں جواب دینا ہے اور یہی بات معاشرتی فراست و اجتماعی بصیرت کی متقاضی ہے۔ ہر "علی ولی اللہ" کہنے والا ہمارا بھائی ہے، درست بات ہے اور اس سے بھی درست تر یہ ہے کہ ہر  "محمد رسول اللہ" کہنے والا ہمارا بھائی ہے، لیکن یہی "محمد رسول اللہ" کہنے والا یا "علی ولی اللہ" کہنے والا اگر دشمن کی سازش کا شکار ہو جائے یا دشمن کا مہرہ بن جائے اور اسی "محمد رسول اللہ اور علی ولی اللہ" کی بنیاد پر وار شروع کر دے اور مالک اشتر کے خلاف تلوار کھینچ لے تو وہاں برادرانہ رویہ نہیں رہے گا، یہی وہ مقام ہے، جہاں "حسن ظن" کی ضرورت نہیں بلکہ "سوء ظن" کا مقام ہے۔

اسی وجہ سے دشمن شناسی کے اندر بھی اہم ترین کردار "ولایت فقیہ اور الہیٰ رہبر" کا کردار ہے، جس کی تشخیص پر امت اسلامی اعتماد کرتے ہوئے اس کی اتباع کرے۔ کیا خوبصورت بات تھی، ایک عالم دین سے سننے کا موقع ملا کہ آپ فرما رہے تھے کہ امت اور رہبر کا رابطہ، امت کا رہبر سے اپنے آپ کو موازنہ کرنے کا رابطہ نہیں ہے بلکہ امت کا رہبر کی اطاعت کرنے کا رابطہ ہے۔ اگر امت اور رہبر کے رابطہ اطاعت کا سامان فراہم ہو جائے تو دشمن کی تمام سازشیں دم توڑ جائیں اور یہی چیز ہے جس سے دشمن کو خوف آتا ہے اور وہ نت نئی سازشیں تیار کرتا رہتا ہے، لیکن یہ وعدہ الہیٰ ہے: يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿٨﴾ "یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے (چراغ) کی روشنی کو منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں۔ حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا، خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔"


خبر کا کوڈ: 874405

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/874405/مخصوص-شخصیات-کیخلاف-شدت-پسندانہ-رویئے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org