0
Wednesday 15 Jul 2020 15:44

پاکستانی عوام کی امیدوں کا ٹمٹماتا چراغ

پاکستانی عوام کی امیدوں کا ٹمٹماتا چراغ
تحریر: ارشاد حسین ناصر
irshadhnasir@gmail.com


قومی سیاسی و سماجی افق پر نگاہ دوڑائیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پیارا پاکستان اس وقت مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ ان مسائل کو پاکستان کے بائیس کروڑ عوام جھیل رہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مسائل آج کے نہیں بلکہ ان کا تعلق ماضی و حال سے ہے۔ ان کے حل کی کوئی امید اگر بندھتی ہے تو کچھ ہی عرصہ بعد یہ مایوسی میں بدل جاتی ہے، لہذا ان کے فوری حل کی کوئی امید بھی نہیں دکھتی کہ ارباب اقتدار یعنی حکومت اور اپوزیشن اقتدار کی کھینچا تانی اور رسہ کشی میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ عالمی سطح پہ جہاں کرونا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وہاں پاکستان بھی اس سے بے حد متاثر ہوا ہے، جبکہ کرونا کے ساتھ دیگر آنے والی آفات نے عوام کو صحیح معنوں میں پیس کر رکھ دیا ہے۔ اگر ہم سماج کو دیکھیں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ سفید پوش اور نچلا طبقے پر کرونا کے کافی زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی طرح یہاں بھی بے روزگاری کا گراف بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور بہت ہی افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت نے اس طرح کے اقدامات نہیں کئے جیسا کہ حق تھا، بالخصوص کرونا سے متاثر ہونے والے وہ بے روزگار افراد جو مختلف فیکٹریوں اور مختلف جگہوں پر کام کرتے تھے، ان کا روزگار ختم ہوچکا ہے۔ ان کے لئے کوئی خاطر خواہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے، نہ ہی ان کی کوئی مدد کی گئی ہے۔ بس ایک پروگرام جو احساس پروگرام کے نام سے چلا، اس میں بھی بہت سارے گھپلے اور بہت ساری خرابیاں نظر آئی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت بارہ ہزار روپے دیئے گئے ہیں، جو انتہائی ناکافی ہیں۔ شروع میں سماجی ویلفیئر اداروں نے اس پہ کام کیا، مگر اب یہ ادارے اور تنظیمیں بھی خاموش نظر آتی ہیں۔

اسی طرح اگر پاکستان کا سیاسی منظرنامہ دیکھیں تو ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ہے، اس حکومت کو گرانے کیلئے ایک طرف اپوزیشن اپنا زور لگا رہی ہے تو دوسری طرف حکومت اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ احتساب کے نام پہ ہمیشہ یہاں پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ ہم گذشتہ کئی برس سے دیکھ رہے ہیں کہ احتساب کے نام پہ سیاستدانوں کو قید و بند کی صعوبتیں دی جاتی ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اور ہر آنے والی حکومت کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے قومی خزانے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور اپنے اپنے ادوار میں بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ ماضی کے حکمران بھی ایک دوسرے پر کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات لگاتے آئے ہیں اور اس لوٹ مار کی دولت اور خزانے کو ان سے نکالنے کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے رہے ہیں، لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں کیا گیا، جسے اطمینان بخش کہا جا سکے۔

موجودہ حکومت نے بھی احتساب کا نعرہ اور دعویٰ کیا اور اقتدار میں آکر کرپٹ سیاستدانوں کو ناصرف جیلوں میں ڈالنے کی بات کی بلکہ ان کے دعوے اس سے بھی کہیں بڑھ کر تھے اور یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے قائدین کو احتساب کے نشانہ پر رکھا ہوا ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ماضی کی طرح مسلم لیگ کے قائدین پر کروڑوں اربوں روپے کرپشن کے الزام اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے دعوے ہیں، ان کو ابھی تک بڑی سزا نہیں دی گئی ہے۔ ایک مجرم جو پاکستان کا 3 بار وزیرِاعظم بھی رہ چکا ہے، ایک مقدمہ میں جیل میں موجود تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ ایک سزا یافتہ مجرم جو جیل میں تھا، اس کو شخصی ضمانت پر جیل سے نکال کر لندن بھیج دیا گیا ہے اور اب وہ واپس بھی نہیں آرہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ اور جو باتیں کی گئی تھیں کہ نواز شریف ڈیل کرکے باہر چلا جائے گا، اس میں صداقت نظر آ تی ہے۔

اسی حکومت نے چینی سکینڈل کی رپورٹ جاری کی تو اس کے اپنے لوگ اس میں ملوث پائے گئے، جن میں سب سے اہم نام جہانگیر ترین کا تھا، وہ بھی بڑے کر و فر سے لندن پہنچ گئے ہیں، جو ایک سوالیہ نشان ہے، جبکہ زرداری اور پی پی قائدین پر جو کرپشن کے الزامات اور مقدمے درج ہیں، وہ انہیں بھگت رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مقدمات ان کے ماضی کے حریف اور موجودہ اتحادی نون لیگ نے قائم کئے تھے، اس لحاظ سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ حکومت نے جو دعوے کئے تھے کہ ہم کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں ڈالیں گے، یہ بات صرف دعویٰ ہی دکھائی دیتی ہے، عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکا۔ جس سے لوگوں کا اعتماد موجودہ حکمرانوں پر اور احتساب کرنے والی ٹیم پر اٹھ گیا ہے۔ بہت سارے اسکینڈلز احتساب کرنے والی ٹیم اور احتساب کمیشن کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔

چیئرمین احتساب بیورو ہوں یا جج ارشد ملک (جنہوں نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا دی تھی) کا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے عوامی اعتماد کو کافی ٹھیس پہنچی ہے۔ اگر احتساب اسی کا نام ہے تو پھر موجودہ حکمرانوں کا اللہ ہی حافظ ہے، جو بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے، وہ فقط اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کیلئے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کو اس وقت صحیح معنوں میں ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جو پاکستان کے بنیادی مسائل کو حل کرسکے۔ ہمارے ملک پاکستان کو 73 برس ہو چلے ہیں، 73 برس کے بعد پاکستان کو صحیح رخ میں ڈال سکیں۔، وہی رخ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، جس کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے کوششیں کی تھیں اور لاکھوں لوگوں نے اپنے مال و جان کی قربانی دے کر اس وطن عزیز کے قیام میں کردار ادا کیا تھا۔

پاکستان کو واقعاً ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جو خود بھی صالح ہو، اس میں جرات و استقامت ہو اور بلا کسی ڈر، بغیر کسی لالچ کے اپنا کام کرسکے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کیلئے جن سیڑھیوں سے مدد لی جاتی ہے، وہ سیڑھیاں بعد میں مجبوریاں بن جاتی ہیں اور بہت ہی افسوس اس بات پر بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی طرح اقتدار کی کرسی پر پہنچا جائے، پھر بعد میں جو ہوسکا کر لیں گے، یہ روش ہمارے سیاستدانوں میں چل رہی ہے، مگر عملی طور پر انہیں ناکامی ہوتی ہے اور عوام کو مایوسی جبکہ ملکی مسائل بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے والے، اقتدار کی اصل طاقت کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان کو کٹھ پتلیوں کو پیچھے بیٹھ کے ڈوری سے ہلاتے ہیں۔

الیکشن ہوتا ہے مگر ہمارے نام نہاد جمہوری عوام کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچنے کیلئے ڈیل کی جاتی ہے، ڈیل کرنے والے کسی کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ اب دیکھیں کہ کس طرح حکومتی حلقوں سے ایک بار پھر اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، جس میں سیاستدانوں کو صدارتی نظام کی بو آرہی ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط روش ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل یہی ہے کہ قائدِاعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں یہاں پر سیاسی نظام  معرضِ وجود میں آئے اور ایسی قیادت ہو جو اپنے مقصد میں واضح ہو۔ جو ڈر، خوف اور لالچ کے بغیر اپنا کام کرے اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرے۔ اے کاش کوئی ایسا مخلص اور مرد میدان اس ملک کو مل سکے۔
خبر کا کوڈ : 874628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش