1
1
Friday 17 Jul 2020 10:49

قانون اور ہمارا معاشرہ

قانون اور ہمارا معاشرہ
تحریر: سید شکیل بخاری ایڈووکیٹ

انسان مختلف قبیلوں، علاقوں اور رویوں کے مالک ہیں۔ مزاج، پسند، ناپسند، چاہت اور مختلف اختیارات رکھتے ہیں۔ ایک قبیلہ، قوم بعض دفعہ دوسرے سے طاقتور اور بعض دفعہ کمزور ہوتے ہیں، اس لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے حق کو  چھیننے اور اپنی بڑھوتری کے لئے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اگر ایسا ہو تو معاشرہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس طرح کا معاشرہ ترقی و رشد حاصل نہیں کرسکتا اور مسلسل تنزلی کا شکار ہو کر مردہ ہو جاتا ہے۔ اس کے وجود سے ناصرف  روح نکل جاتی ہے بلکہ باقی ماندہ جسم ناکارہ اور تعفن زدہ ہو جاتا ہے، جو کسی کام کا نہیں رہتا اور ایسے معاشرے دنیا کے لئے باعث عبرت بن جاتے ہیں۔ آج دنیا کے اندر ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا ایک راز قانون کی پاسداری ہے، اس معاشرے کے نظم، بڑھتی خوشحالی اور مسلسل کامیابیوں میں اہم کردار قانون کی حکمرانی کا ہے۔

ہمارے معاشرے کی تنزلی اور بدحالی کی ایک بڑی وجہ قانون کی پاسداری نہ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جاتا ہے، کیونکہ مال کی عدل و انصاف پر مبنی تقسیم کا عمل رک جاتا ہے۔ آج یہی وجہ ہے کہ ہم دوسرے ممالک سے پیچھے ہیں اور ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہے۔ زندہ معاشروں میں ہمیشہ نہ صرف قانون پر عمل درآمد ہوتا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً قانون اور دوسرے شعبہ جات میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کی جاتی ہیں، اس طرح رشد و کمال کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔ دنیا کے تمام قانون دان، تمام دانشور اور دانا لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ قانون ایک دھارے کی طرح ہوتا ہے، جو ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے۔ جس طرح آبشاریں ندیاں اور دریا اونچائی سے اترائی کی طرف آتی ہیں۔ اسی طرح قانون، انصاف اور اخلاقیات بھی حکمران طبقے، اشرافیہ اور سیاستدانوں سے عوام کی طرف بہتے ہیں۔

کسی ملک میں قانون کا کتنا احترام کرنا چاہیئے، اس کا فیصلہ حکمران طبقے کا رویہ کرتا ہے۔ جب کسی ملک کے حکمران پیسے دے کر کسی باغ کا پھل توڑتے ہیں تو اس ملک کے سارے باغ اور سارے باغبان ہمیشہ کے لئے چوروں اور ڈاکوﺅں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی جب کسی ملک کا حکمران ٹریفک کے سگنل پر کھڑا ہوتا ہے تو پورا ملک ریڈ سگنل کا احترام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، لیکن اسلام کے قلعہ یعنی پاکستان میں اگر جناب وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا جناب صدر کا گزر ہو تو ارد گرد نقل و حرکت پر پابندی لگا دی جاتی ہے، یاد رکھیئے یہ مہذب اور قانون کے تابع معاشرے کا عمل ہرگز نہیں ہے۔ پولیس جس کی ذمہ داری معاشرے میں چوری، قتل اور باقی بہت سارے جرائم کو روکنا تھی، وہ ارباب اقتدار کے پروٹوکول سے فرصت ہی حاصل نہیں کر پاتی۔

صالح معاشرے کے قیام کے لئے قانون محافظت کا عمل انجام دیتا ہے، اس کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی طرح اہمیت کے حامل ہیں، جیسے خود قانون ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر بہت سے ممالک کی طرح پاکستان اس میں بہت پیچھے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسے عملی جامہ پہنائیں، تاکہ وطن عزیز دنیا کے ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکے۔ پاکستان کی ترقی میں جہاں دوسرے شعبہ جات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہاں لازمی طور قانون کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ایک بڑی پیش رفت اور ریسرچ درکار ہے کہ کیسے اس نظام کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔


اگر پاکستان کے تمام ادارے اپنی من مانی اور لوٹ کھسوٹ کے عمل کو انجام دیتے رہے، یہ نعمت جو خدا نے ہمیں عطا کی، اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھیں گے۔ یہاں بے ہنگم صورتحال ہے، عوام شعور کی کمی کا شکار ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ایک عملی نمونہ کے طور پر موجود ہے اور ضابطہ قوانین قرآن مجید جیسی زندہ و جاوید کتاب میسر ہے، ضرورت صرف اور صرف استفادہ کرنے کی ہے۔ اسی طرح کامیاب ممالک کا عملی نمونہ بھی موجود ہے، جہاں کئی درجے ہم سے بہتر کام ہوچکا ہے، ان کی بہترین چیزوں کو کاپی کیا جا سکتا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے حکمرانوں، سیاست دانوں، اعلیٰ عدلیہ اور عوام کو قانون کی حقیقی اور عملی حکمرانی کو قبول کرنا ہوگا، جس کے لئے میڈیا کا کردار انتہائی موثر ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 874964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Jawad
Pakistan
The best analysis has been done in law and society and this trend should continue
ہماری پیشکش