0
Friday 17 Jul 2020 22:30

ولایت فقیہ اور نیو اسلامک سویلائزیشن کیطرف بڑھتے ہوئے قدم(2)

ولایت فقیہ اور نیو اسلامک سویلائزیشن کیطرف بڑھتے ہوئے قدم(2)
تحریر: ذاکر حسین میر

یقین، راسخ عقیدہ، قلبی اطمینان، غیر متزلزل نظریہ اور مضبوط ایمان کسی بھی تمدن کی بنیادیں ہیں۔ قدیم یونان، روم، ایران اور مصر کی تہذیبوں سے لے کر ماڈرن دور کی بڑی بڑی تہذیبوں تک، آپ دنیا کی کسی بھی مہذب اور متمدن تاریخ کو لیجئے، ان کے پیچھے مضبوط ایمان اور عقیدہ کار فرما ہیں۔ جو قومیں مضبوط ایمان اور عقیدہ کی مالک ہوں، وہ نہ کسی چیز سے ڈرتی ہیں اور نہ ہی کسی چیز کا لالچ دے کر انہیں ہرایا جاسکتا ہے۔ وہ نہ اپنے مقصد سے غافل ہوتی ہیں اور نہ ہی اپنی صلاحیتیوں کی سوداگر۔ ایسی قومیں اپنے مقصد کے راستے میں ہر چیز کو قربان کرتی ہیں۔ انہیں اس چیز کا بھی خیال نہیں رہتا کہ ایک نئے تمدن کو وجود بخشنے کے لئے کتنی نسلوں کی محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی قومیں تمدن سازی کی سنگین ذمہ داری کو اپنی نسلوں کو سونپ دیتی ہیں، تاکہ بغیر کسی تعطل اور غفلت کے یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔ امریکہ کی مثال کو ہی لیجئے، ماضی میں یہ برطانیہ کی نوآبادیات تھا، امریکی سر تا پاوں قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے، اقتصادی اور مذہبی معاملات میں پسماندہ ترین اور غلامی کی زنجیروں میں بند تھے۔ لیکن ایک امریکی پروفیسر کے بقول ہم ابھی بھی امریکن ڈریمز پر یقین رکھتے ہیں، یہ ان کا یقین تھا جو امریکیوں کو اس مقام پر لے آیا، جہاں وہ آج کھڑے ہیں۔

مسلمان بھی جب اپنے ایمان اور اعتقادات میں پختہ تھے تو اسلام کا ہمہ گیر پیغام لے کر قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں گئے۔ سینکڑوں سالہ قدیم بادشاہتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ایک طرف رومی سلطنت کو نابود کیا تو دوسری طرف فارس کا تاج خسروی انہی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ بات صرف میدان نبرد کی ہی نہیں ہے بلکہ زندگی کے دیگر تمام شعبوں میں بھی مسلمانوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ اللہ کی کتاب میں رسول اکرم ﷺ کے چاہنے والوں کی جو خصوصیات بیان ہوئیں ہیں، ان میں سرفہرست ایمان ہے۔ گویا مسلمانوں کی تمام کامیابیوں کا راز ان کے پختہ ایمان میں مضمر ہے۔ قرآن میں رسول اکرمﷺ کے قریبی ساتھیوں کی خوبیاں کچھ اس طرح بیان ہوئی ہیں: "محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں پر سخت اور آپس میں نرم دل ہیں، آپ انہیں بارگاہ احدیت میں سجدہ  ریز اور رکوع میں دیکھو گے، وہ خدا کے فضل و کرم اور خوشنودی کے طلبگار ہیں، کثرت سجدہ کی بنا پر ان کی پیشانیوں پہ سجدہ کے نشانات ہیں، تورات اور انجیل میں ان کی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے کوئی کھیتی ہو، جو پہلے سوئی نکالے پھر اسے مضبوط بنائے، پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکار انہیں دیکھ کر خوش ہوں، تاکہ کفار انہیں دیکھ کر غضبناک ہوں اور اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح انجام دینے والوں کے لئے مغفرت اور اجر کا وعدہ دیا ہے۔"(سورہ فتح /29)

ان افراد کی آنکھیں سیرت طیبہ کے نور سے روش ہوچکی تھیں اور دلوں میں جمال محمدیﷺ اور عشق محمدیﷺ کا سمندر موجزن تھا۔ اپنے مضبوط ایمان اور عمل صالح کی طاقت سے ہی وہ کفار کے سامنے پہاڑ بن جاتے تھے اور یاراں کے جھرمٹ میں انتہائی نرم اور رحمدل ہوتے تھے۔ ان کی مثال اس کھیتی کی ہے، جو پہلے سوئی نکالے، پھر اسے مضبوط بنالے اور پھر اپنے پاوں پر کھڑی ہو جائے، جنہیں دیکھ کر کاشتکار خوش ہوتے ہیں، کیونکہ اب کوئی بھی چیز اس فصل کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ مومنین بھی اس فصل کی مانند اپنے ایمان اور عمل صالح میں اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ مومنین انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، جبکہ کفار انہیں دیکھ کر حسد کی آگ میں جلتے ہیں اور ان کے غیض و غضب میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ اسلامی تمدن سازی میں عقیدہ توحید کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ عقیدہ جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی انسان مقام عمل میں بھی سنجیدہ، مخلص اور طاقتور ہوگا۔ اگر آج کے مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ اپنی از دست رفتہ عظمت کو دوبارہ حاصل کریں تو انہیں توحید کی طرف پلٹنا ہوگا اور اسے مضبوط بنانا ہوگا۔

امام خمینی کی قیادت میں آنے والے انقلاب کی کامیابی کا اہم راز بھی لوگوں کا خدا پر مضبوط ایمان تھا۔ ان کی زبان پر اللہ اکبر کے نعرے تھے اور عمل میں سب کچھ خدا کے راستے میں قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کو برپا کرنے کے لئے سینکڑوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایمانی قوت اور قربانی کا یہ جذبہ فقظ انقلاب لانے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ انقلاب کو باقی رکھنے کے لئے بھی اسی قدر قربانیاں دی گئیں، جتنی قربانیاں انقلاب لانے کے لئے دی گئیں تھیں۔ نیو اسلامک سویلائزیشن کو وجود بخشنے کے لئے آیت اللہ خامنہ ای نے جن نو ستونوں کوبیان کیا ہے، ان میں پہلا ستون ایمان ہے۔ اس حوالے سے وہ فرماتے ہیں کہ دینی تمدن سازی کوئی نئی بات نہیں بلکہ تمام انبیاء اسی مقصد کے لئے مبعوث ہوئے۔((ہماری آرزو کیا ہے؟ ایک چیز جس کو میں نے یہاں خصوصی طور پر نوٹ کیا ہے، وہ اسلامی معاشرے کا قیام اور تمدن اسلامی ہے؛ یعنی اسلام کے سیاسی تفکر کا احیاء؛ بعض لوگ ہمیشہ سے یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ اسلام کو زندگی، سیاست اور معاشرے کی مدیریت سے دور رکھیں اور اسے لوگوں کا پرسنل ایشو قرار دیں اور پرسنل ایشوز میں بھی دین کو آہستہ آہستہ کفن، دفن، شادی بیاہ وغیرہ تک محدود کر لیں۔

لیکن حقیقی اسلام ہرگز ایسا نہیں ہے، اسلام بلکہ تمام پیغمبران الہیٰ ایک ہدف لے کر آئے اور وہ "وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ؛ "ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ لوگ اس کی اطاعت اس لئے کریں کہ وہ ہماری طرف سے ہیں۔"(نساء/64) اللہ کی اطاعت، اس کی طرف سے آئے ہوئے پیغمبروں کی اطاعت اور الہیٰ قانون کی پیروی وہ اہم عناصر ہیں، جو درست ایمان اور صحیح عقیدہ کے عکاس ہیں۔ بعض لوگ دین کو پرسنل معاملات تک محدود سمجھتے ہیں اور اسے زندگی کے دیگر شعبوں میں ناکارہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایسے افراد ہیں، جو اپنے ضعیف ایمان کے سبب مایوسی کا شکار ہیں اور دنیا کو دین سے جدا  کرکے دیکھتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای اپنے بیانات میں لوگوں کی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کرتے ہیں اور اس فکر کو دینی تمدن سازی کے عمل میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ امام خمینی نے بھی لوگوں کی اسی کمزوری کو پھانپ لیا تھا اور لوگوں کو "ہم کرسکتے ہیں" کا نعرہ دیا تھا۔ یہی وہ نعرہ تھا، جس پر محکم ایمان نے لوگوں کو مختلف میدانوں میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: ((موج دوم عوام  الناس ہیں۔ لوگوں کے اعتقادات بدلنے چاہیئے؛ اسلام پر ایمان، انقلاب پر ایمان، سیاسی اسلام پر ایمان، یہ ایمان کہ اسلام پرسنل معاملات کے علاوہ کچھ اجتماعی ذمہ داریاں بھی بیان کرتا ہے، اسلام میں حکومت بھی ہے، معاشرہ سازی بھی ہے، تمدن سازی بھی ہے؛ مذکورہ چیزوں کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں موجود منفی سوچ کو ختم کرکے مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔))

یہ باتیں محض زبانی جمع خرچ نہیں ہیں بلکہ عملی میدان میں بھی انقلاب اسلامی نے ایسے افراد کی تربیت کی، جن میں صدر اسلام کے عظیم مجاہدوں کی خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی، شہید بہشتی، شہید رجائی، شہید محسن حجی، شہید عماد مغنیہ، ڈاکٹر چمران اور شہید مرتضیٰ مطہری وغیرہ نے اسی انقلاب کے دامن میں پرورش پائی۔ ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ہم انہی شخصیات کو نمونہ بنا کر اپنی نسلوں کی تربیت کریں، تاکہ ہمارے ارد گرد بھی ایمان اور عمل صالح سے سرشار ایسے افراد پیدا ہوں۔ یہ ایسا راستہ ہے، جس پر دنیا کی تمام بیدار اور دین دوست قومیں اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((اگر ایرانی قوم اس مرحلہ تک پہنچ جاتی ہے اور حقیقی معنوں میں ایک مسلمان قوم بنتی ہے تو یہ اسلام کی سب سے بڑی تبلیغ ہوگی؛ دوسری قومیں بھی اسی راستے پر چلیں گی اور یہ بڑے سطح پر ملت اسلامی کی تشکیل کے لئے مقدمہ ثابت ہوگا۔۔۔۔

ایک مثالی اسلامی حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز، روزہ، دعا اور مناجات میں لوگوں کے لئے نمونہ بنیں، یہ چیزیں معنوی زندگی کے لئے ضروری ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مادی ترقی، علمی پیشرفت، عدالت، طبقاتی فاصلوں کا مٹانا، اشرافی گری کی نفی وغیرہ میں بھی مثالی ہونی چاہیئے؛ ہم ایک ایسی ملت تشکیل دینا چاہتے ہیں؛ اس میں شیعہ سنی والی کوئی بات نہیں، کرد، فارس اور ترک والی باتیں بھی نہیں ہیں؛ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کی تلاش میں سارے مسلمان ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک ایسا آئیڈیل اسلامی ملک بنے، جو ہر متفکر انسان کے لئے شیرین اور جذاب ہو؛ یعنی ہر وہ شخص جس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہو اور غور و فکر سے کام لے تو وہ اس آئیڈیل معاشرے سے لطف اندوز ہوگا؛ ایسا معاشرہ جس میں علم ہو، ترقی ہو، عزت ہو، عدالت ہو، دشمن کے ساتھ مقابلہ کی طاقت ہو اور صاحب ثروت ہو وغیرہ۔ نیو اسلامک سویلائزیشن کی ایسی تصویر ہمارے ذہنوں میں ہے اور چاہتے ہیں ہمارا ملک وہاں تک پہنچ جائے۔))

خبیر، علیم، بصیر، مدبر اور حکیم خالق کے وحیانی کلام میں عمل صالح کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے: "والذین آمنوا و عملوا الصالحات"(عنکبوت /58)، "ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات"(مریم/96)، "الذین آمنوا و عملوا الصالحات"(مائدہ/9)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کامل اور محکم ایمان کے بغیر عمل صالح کی امید رکھنا عبث ہے۔ کمزور اور ضعیف ایمان والا اگرچہ ظاہراً مسلمان کہلائے گا لیکن ہرگز ایک واقعی اور پریکٹیکل مسلمان نہیں بن سکتا۔ بقول حکیم الامت حضرت علامہ اقبال (رہ):
ترے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے

ہم نام کے تو مسلمان ہیں، لیکن ہماری خودی اسلام سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے دلوں میں یا تو ایمان کا دریا بہتا ہی نہیں یا اگر بہتا ہے تو اس میں وہ جوش اور ہمت نہیں، جس سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع کی جاسکے۔ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ایمان اور کہکشانوں سے بلند ہدف ہی مسلمانوں کو دینی تمدن سازی کے مراحل میں کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ عشق، ہمت، جوش اور جذبہ ایمان سے سرشار مسلمان شاہینوں کو چاہیئے کہ اپنے آپ کو بلند پروازی کے لئے تیار کر لیں اور اس راستے میں حائل ہر رکاوٹ سے ٹکرانے کی جرات پیدا کر لیں، تاکہ مسلمان ایک بار پھر دنیا کی عظیم قوم بن جائیں۔ 
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 875070
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش