QR CodeQR Code

اسلام ہار گیا

(حامیان و محبان آئی ایس او، ایم ڈبلیو ایم، آغا سید جواد نقوی اور آغا سید ساجد نقوی کے نام)

18 Jul 2020 16:30

اسلام ٹائمز: میرے پیارے بھائیو! بس یہ خیال رکھیئے کہ اپنے اپنے رہنماوں اور تنظیموں کے دفاع میں اس قدر آگے نہ نکل جایئے گا کہ خاکم بدہن اسلام، شیعت اور قوم ہی ہار جائے اور آپ اور آپکی تنظیم اور آپکا لیڈر جیت جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپکی جیت آپکی آئندہ آنیوالی نسلوں کی ہار کا باعث بن جائے۔ ہم سب ہی تو رہبر کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔ وہی رہبر جو مقدسات اہلسنت کے احترام کا واضح حکم دیتا ہے، تو پھر یہ حکم مقدسات اہل تشیع کیلئے کیوں نہیں۔؟ تمام قائدین اور تنظیمیں انکے پیروکاروں کیلئے تقدس و احترام کا مقام رکھتے ہیں۔ ہم دوسروں کو رہبر کی سیرت پر چلنے کی تلقین کرنے سے پہلے خود چل کر دکھائیں۔ اپنی اپنی روش و منہج کو رہبر کے مطابق ڈھالیں۔ فتنہ گروں کو سوء استفادہ کا موقع نہ دیں۔ قوم میں لگی آگ کو خدارا بجھائیں، ورنہ اندرونی خلفشار ہمیں اپنے بلند اہداف سے بہت دور کر دیگا۔


تحریر: تبرید حسین

میں ناں تو کوئی لکھاری ہوں نا واعظ نا ہی ناصح. بس جب جب درد ہوتا ہے تو درد کم کرنے کیلئے قلم کا سہارا لیتا ہوں۔ سوچ رہا تھا کچھ عرصے تک سوشل میڈیا سے الگ ہو جاوں، کیوںکہ فکری و نظریاتی گروہوں میں لعنت اور تبرے کا ایسا مینہ برس رہا ہے کہ نہیں معلوم کب کون اس کی زد میں آجائے. پھر سوچتا ہوں کہ
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے
خاص طور پر پچھلے کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ اور طوفان برپا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ضد اور انائیں فاتح اور عقل و دانائی مفتوح قرار پائی ہے۔ ہر کوئی منصور بنے انا الحق کی صدائیں دیتا نظر آتا ہے۔ پہلے کچھ جذباتی نوجوان ایسی مہم کا حصہ ہوتے تھے، مگر صدافسوس اب کیا مرد و زن حتیٰ کہ کچھ اہل عبا و قباء و جبہ و قبہ بھی متاسفانہ اس رو میں بہہ گئے۔

میری کسی پوسٹ پر ایک دوست نے جملہ کسا تھا کہ جب بڑے یہی چاہیں گے تو پھر یہی ہوگا۔ دل میں دعا کی کہ یہ سچ نہ ہو۔ مگر آجکل ایک دوسرے کیخلاف انتہائی منظم کمپین دیکھ کر اپنی دعائیں بے اثر ہوتی محسوس ہو رہی ہیں۔ گذشتہ روز ایک گروہ کے احباب سے اسی سلسلہ میں کچھ گزارشات کیں تو انہوں ںے دوسرے تنظیمی گروہ کی ایسی ایسی پوسٹس اور سکرین شارٹس سامنے رکھیں کہ شرمندگی سے پسینے سے شرابور ہوگیا۔ مجھے بے ساختہ عرفان ستار کا وہ شعر یاد آیا:
ترا انداز تخاطب، تیرا لہجہ، ترے لفظ
وہ جسے خوف خدا ہوتا ہے یوں بولتا ہے


درد کی شدت سے آنکھیں موند لیں۔ سوچ کی وادی میں یادوں کا گھوڑا پیچھے کے طرف سر پٹ دوڑا اور میں اپنے جوانی کی ایام میں ایک عارف بااللہ اور فقیہ عالم کی نشست میں جا پہنچا۔ ان کا شیریں لہجہ اور بیان کردہ بصیرت افروز بیان اور بالخصوص ایک واقعہ آج بھی ایسے مواقع پر میری راہنمائی کرتا ہے۔ وہ بیان کر رہے تھے کہ ایران کے ایک دیہات میں ایک شیعہ نوجوان رہتا تھا۔ اس وقت شیعہ سنی کے مابین مناظرہ کی روش عام تھی۔ ایک بہت بڑے مناظرے کے پروگرام کی تیاریاں عروج پر تھیں، مگر اس نوجوان کو امتحانات کی غرض سے شہر جانا تھا۔ امتحان سے فارغ ہو کر وہ فوراً دیہات پہنچا۔ راستے میں ہی اپنے دیہات کے ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔  نوجوان سے اپنی بےکلی چھپائی نہ گئی اور بزرگ سے پوچھا بتایئے مناظرے کا کیا ہوا؟ کون جیتا؟ بزرگ نے بہت آزرده آواز سے فرمایا بیٹا دونوں فریق جیت گئے۔ نوجوان کی بےچینی اور بڑھ گئی۔ پوچھنے لگا دونوں جیت گئے۔؟ بزرگ نے کہا ہاں دونوں شیعہ اور سنی جیت گئے۔ اب نوجوان نے ورطہ حیرت میں ڈوب کر پوچھا تو پھر ہارا کون۔؟؟؟ بزرگ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور دلگیر آواز میں کہا ''بیٹا اسلام، اسلام ہار گیا، وہ دونوں جیت گئے۔''

میرے پیارے بھائیو! بس یہ خیال رکھیئے کہ اپنے اپنے رہنماوں اور تنظیموں کے دفاع میں اس قدر آگے نہ نکل جایئے گا کہ خاکم بدہن اسلام، شیعت اور قوم ہی ہار جائے اور آپ اور آپکی تنظیم اور آپکا لیڈر جیت جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی جیت آپ کی آئندہ آنے والی نسلوں کی ہار کا باعث بن جائے۔ ہم سب ہی تو رہبر کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔ وہی رہبر جو مقدسات اہل سنت کے احترام کا واضح حکم دیتا ہے، تو پھر یہ حکم مقدسات اہل تشیع کیلئے کیوں نہیں۔؟ تمام قائدین اور تنظیمیں ان کے پیروکاروں کیلئے تقدس و احترام کا مقام رکھتے ہیں۔ ہم دوسروں کو رہبر کی سیرت پر چلنے کی تلقین کرنے سے پہلے خود چل کر دکھائیں۔ اپنی اپنی روش و منہج کو رہبر کے مطابق ڈھالیں۔ فتنہ گروں کو سوء استفادہ کا موقع نہ دیں۔ قوم میں لگی آگ کو خدارا بجھائیں، ورنہ اندرونی خلفشار ہمیں اپنے بلند اہداف سے بہت دور کر دے گا۔

قتیل شفائی کے ان اشعار کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا:
رشتہِ دیوار و در، تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے
مت گرا، اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے

تیرے میرے دم سے ہی قائم ہیں اس کی رونقیں
میرے بھائی یہ نگر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے

کیوں لڑیں آپس میں ہم ایک ایک سنگِ میل پر
اس میں نقصانِ سفر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے

شاخ شاخ اس کی ہمیشہ بازوئے شفقت بنی
سایہ سایہ یہ شجر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے

کھا گئی کل ناگہاں جن کو فسادوں کی صلیب
ان میں اِک نورِ نظر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے

اپنی حالت پر نہیں تنہا کوئی بھی سوگوار
دامنِ دل تر بہ تر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے

کچھ تو ہم اپنے ضمیروں سے بھی کر لیں مشورہ
گرچہ رہبر معتبر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے

غم تو یہ ہے گر گئی دستارِ عزت بھی قتیلؔ
ورنہ اِن کاندھوں پہ سر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے


خبر کا کوڈ: 875207

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/875207/اسلام-ہار-گیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org