0
Sunday 19 Jul 2020 22:20

قصر بتول لاہور میں ہونیوالے تصادم کی اندرونی کہانی

قصر بتول لاہور میں ہونیوالے تصادم کی اندرونی کہانی
رپورٹ: ابو فجر لاہوری

لاہور میں غالی گروہ کے مرکز ’’امام بارگاہ قصرِ بتول اقبال ٹاون‘‘ میں ہونیوالے تصادم کی اصل کہانی کا کھوج ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے لگا لیا۔ متوفی کی وفات تشدد کے باعث ہارٹ اٹیک سے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق امام بارگاہ قصر بتول (مرکز ولایت) میں مجلس عزاء ہو رہی تھی۔ جس کا اہتمام سید ناصر بخاری نے کیا، جو امام بارگاہ میں ہی مقیم ہیں اور امام بارگاہ کے متولی بھی ہیں۔ ابوذر بخاری کے مخالف گروپ سید ضرغام عباس کے بیٹے سید ثقلین عباس نے مجلس پڑھنا تھی۔ ابوذر بخاری نے بانی مجلس ناصر بخاری کو روکا ہوا تھا کہ وہ ضرغام کے بیٹے کو نہ بلائے، مگر بانی نے اُسے بلا لیا تو ابوذر بخاری رات 11 بجے اپنے ساتھیوں سید علی زر بخاری، سید حسنین رضا، آغا مقداد حیدر، بریر حیدر، ملک منیر احمد سمیت 20 مسلح افراد کے ہمراہ سٹیج پر آگیا اور دوران مجلس ہی بانی مجلس سے بدتمیزی شروع کر دی۔ تشدد سے بچنے کیلئے ناصر شاہ کا بھائی اسد عباس نقوی اپنے گھر میں گھس گیا، جس پر ابوذر بخاری اور اس کے ساتھی ناصر شاہ کے گھر میں داخل ہوگئے اور وہاں خواتین کے سامنے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ گھر کے سامان کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی اور سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا، جبکہ خواتین کیساتھ بھی بدتمیزی کی گئی۔ جس کے بعد تشدد اور خواتین کیساتھ بدتمیزی دیکھ کر اسد عباس کو دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ جاں بحق ہوگیا, جبکہ ان کا بھتیجا علی عدنان نقوی زخمی ہوگیا۔

سید ناصر بخاری نے ابوذر بخاری اور دیگر 20 افراد کیخلاف تھانہ اقبال ٹاون میں مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے واقعہ کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ دوسری جانب مرکز ولایت کے ترجمان حسنین بخاری کا کہنا ہے کہ مجلس کے دوران اختلاف ہونے پر افسوس ہے، دورانِ مجلس ذاکر کو پڑھنے سے روکنے کا اقدام غلط ہے، جس ہر افسوس ہے۔ ترجمان نے اعتراف کیا کہ عزاداری کے معاملے میں مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ نوجوان جذباتی ہیں، جنہوں نے بغیر کسی بڑے سے پوچھے قدم اٹھایا، اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ترجمان مرکز ولایت کے مطابق مجلس ناصر بخاری نے رکھی تھی۔ ابوذر بخاری اور ناصر بخاری کے درمیان خاندانی اختلافات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تنازع کی بنیاد پنڈی بھٹیاں میں ہونیوالے اجلاس میں ہی پڑ گئی تھی۔ اس اجلاس میں ذاکرین عظام شوکت رضا شوکت، ضرغام عباس شاہ، ناصر تلہاڑ اور دیگر شامل تھے۔ اس میں سید ناصر بخاری بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں ناصر بخاری اپنے خاص رفقائے کار کیساتھ شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں اعلامیہ جاری ہوا، جس کا انکار مرکز ولایت نے کر دیا تھا۔

ترجمان کے مطابق مرکز ولایت سے باقاعدہ 30 دسمبر 2018ء کو اعلامیہ جاری کیا گیا اور پنڈی بھٹیاں کے اجلاس سے اعلان لاتعلقی کیا گیا۔ متولی امام بارگاہ ابوذر بخاری نے نوٹس جاری کیا، جس میں ان ذاکرین کے نام لکھ دیئے گئے ہیں کہ پنڈی بھٹیاں اجلاس کے شرکاء اور اس گروہ کا کوئی بندہ اس امام بارگاہ میں مجلس نہیں پڑھ سکتا۔ یہ نوٹس آج بھی امام بارگاہ کے دروازے پر آویزاں ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ پنڈی بھٹیاں کے اعلامیہ کو علامہ شنہشاہ نقوی نے بھی غلط قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس اعلامیہ میں ولایت تکوینی کی بات نہیں کی گئی۔ اس امام بارگاہ میں چند ذاکرین پر پابندی ہے، مگر ناصر بخاری نے اس امام بارگاہ میں سید ضرغام عباس کے بیٹے کو مدعو کیا کہ وہ یہاں آکر مجلس پڑھے۔ ناصر شاہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ خود امام بارگاہ کے متولی ہیں، جبکہ امام بارگاہ قصر بتول کے متولی ابوذر بخاری ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ مرکز ولایت کی جانب سے ایک پوسٹ بھی شیئر کی گئی جس میں کہا گیا کہ امام بارگاہ کے متولی ابوذر بخاری ہیں۔ ان سے مجلس کی اجازت لینا ضروری ہے۔ ناصر بخاری بھی امام بارگاہ میں عارضی رہائشی ہیں، ابوذر بخاری نے انہیں رشتہ داری کی وجہ سے یہاں بیٹھنے کی اجازت دی رکھی ہے۔

گذشتہ شب ہونیوالے تنازع میں ترجمانِ مرکز ولایت کے بقول ابوذر بخاری شامل نہیں تھا، یہ چند نوجوانوں کی حرکت ہے، جبکہ واقعہ کے مدعی ناصر بخاری کا کہنا ہے کہ یہ ابوذر بخاری کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجلس عزاء پر حملہ آور گروہ کی قیادت خود ابوذر بخاری کر رہے تھے۔ ناصر بخاری نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ دنیا کا قانون ہے کہ سٹیج سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، کسی پڑھتے ہوئے کو روکا نہیں جا سکتا، کسی کو سٹیج سے اُتارا نہیں جا سکتا، مگر ابوذر بخاری اور اس کے حواریوں نے دوران مجلس جب ذاکر قیصدہ پڑھ رہا تھا، ابوذر بخاری اور اس کے غنڈوں نے مجلس رکوا دی اور سید ضرغام شاہ کے بیٹے کو ڈھونڈنے لگ گئے جبکہ ناصر بخاری کے بقول، میرے بھائی اسد عباس بخاری نے مزاحمت کی تو اسے تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا۔ ناصر بخاری کے مطابق ابوذر بخاری اور ان کے حواریوں کے تشدد سے میرے بھائی اسد کی موت ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ابوذر بخاری کے ترجمان کہتے ہیں کہ ابوذر بخاری موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ اس حوالے سے تھانہ اقبال ٹاون کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ پولیس نے تمام ویڈیو ریکارڈ بھی جمع کر لیا ہے۔ جس میں تمام ملزمان کی شناخت موجود ہے، جلد ہی تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے۔

پولیس اہلکار کے مطابق جس وقت مجلس پر حملہ کیا گیا، اس وقت حملہ آوروں کیساتھ آنیوالے نوجوانوں نے ویڈیوز بنانے والے شہریوں کو ویڈیو بنانے سے روک دیا جبکہ متعدد شہریوں کے موبائل فون چھین کر ویڈیوز ڈیلیٹ کر دی گئیں۔ پولیس اہلکار کے مطابق معاملہ حساس ہے، پولیس محتاط انداز میں تفتیش کرے گی اور ذمہ داروں کو کیفر کر دار تک پہنچایا جائے گا۔ ادھر ناصر بخاری نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ابوذر بخاری ملک سے باہر فرار ہوسکتا ہے۔ انہوں نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ ابوذر بخاری کو فوری گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے واقعہ کے حوالے سے خفیہ اداروں کی مدد لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد تفتیش کا رخ درست سمت میں آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ تاہم گذشتہ رات ہونیوالے واقعہ کے بعد مرکز ولایت کے اپنے گروہ میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور چند رہنماوں نے دوران مجلس حملہ کرنے کے اقدام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے امام بارگاہ اور مجلس عزاء کے تقدس کو پامال کرنے کی جسارت قرار دیا ہے۔ مرکز ولایت کے اندر پڑنے والی پھوٹ سے ابوذر بخاری اور اس کے حواری خاصے پریشان ہیں جبکہ ابوذر بخاری منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 875408
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش