0
Friday 24 Jul 2020 20:30

پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ 2020ء

پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ 2020ء
تحریر: ایڈووکیٹ سید شکیل بخاری

گذشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ”پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ“ پیش کیا گیا ہے، جسے گورنر کے دستخط کے بعد حتمی منظوری مل جائے گی۔ ہم نے جہاں تک اس ایکٹ کا مطالعہ کیا ہے، اس میں پیش کئے گئے تقریباً تمام نکات پہلے سے پاکستان پینل کوڈ بڑی وضاحت سے بیان کر رہا ہے، اس لحاظ سے اس ایکٹ کی ضرورت نہ تھی۔ اس ایکٹ میں موجود تمام چیزوں کو پہلے سے موجود قوانین PPC واضح طور پر بیان کر رہے ہیں، لیکن اس ایکٹ میں چند متنازعہ چیزوں کو شامل کرکے محرم الحرام کے نزدیک اس کو پیش کرنا وطن عزیز کے امن کو نقصان پینچایا جانے کے مترادف ہے، کیونکہ اس ایکٹ میں بہت سی چیزوں کو بلا ضرورت شامل کیا گیا ہے، جن کے غلط استعمال کئے جانے کا خدشہ موجود ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس، اہلبیت اطہار علیہ السلام، صحابہ کرام اجمعین اور تمام معتبر شخصیات و کتب کا احترام واضح طور پر قوانین پاکستان میں موجود ہے، اس اعتبار سے 295A , 295B, 295C, 298A, 298, کی دفعات مقدس شخصیات کی توہین پر سزا کا تعین کرتی ہیں۔ مذہبی عبادات کو روکنے پر دفعہ 296 جبکہ Tresspas of the worship place کے لیے 297 کے تحت بھی سزائیں موجود ہیں۔
اگر کوئی قادیانی اسلام کے خلاف متحرک ہو تو 298c کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں،
اسی طرح Hate speech اور Hate Litrature کے لئے مناسب قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح کتابوں کی پرنٹنگ پر غلط مواد پر صوبائی علماء بورڈ موجود ہے، جو کہ پوری طرح اختیار رکھتا ہے، حتیٰ کتاب خانہ و کتاب دونوں کو مکمل طور پر بند کر دینے کا اختیار رکھتا ہے۔

لیکن ہم نے دیکھا کہ اس ایکٹ کے ذریعے ایک شخص DGPR کو مکمل اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ کتاب یا کتاب چھوائی رکوا سکتا ہے، جو کہ ناانصافی ہے، جو کام علماء بورڈ کا تھا، وہ شخص واحد کو سونپا جا رہا ہے جو کہ انتہائی نامناسب عمل ہے۔ اگر دقت نظری سے اس ایکٹ کو دیکھا جائے تو یہ نامکمل ہے، اس میں بہت سے سیکشنز ادھورے ہیں اور اپنے مطالب کو مکمل بیان نہیں کرتے ہیں، اس اعتبار سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ یا تو جلد بازی میں بنایا گیا ہے یا ترتیب دینے کے وقت قوانین کا خیال نہیں رکھا گیا۔
خبر کا کوڈ : 876310
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش