3
2
Saturday 25 Jul 2020 12:55

پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ

حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ
تحریر: ثاقب اکبر

خوبصورت اور مقدس ٹائٹل کے تحت پنجاب اسمبلی میں منظور کیے گئے ’’پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ‘‘ پر جب راقم کی نظر پڑی تو بے ساختہ غالب کا یہ شعر زبان پر آگیا:
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

حیرت کس کس بات پر ہے، اسے کیسے بیان کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک دہشت گرد تکفیری نے صوبائی اسمبلی میں پہنچ کر تمام سوچنے سمجھنے والوں کو مبہوت کر دیا ہے اور وہ مذہب کے نام پر ایوان میں پیش کی گئی قراردادوں پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہیں، نہ ایکٹ بننے کے لیے سامنے آنے والی عبارتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ شاید وہ صرف اتنا سوچتے ہیں کہ یہ جو اذان دی جا رہی ہے، اس میں ہمارے خلاف تو کوئی بات نہیں، جب انھیں کہا جاتا ہے کہ حضور تسلی رکھیں، اس اذان میں آپ کے خلاف کچھ نہیں تو وہ پھر سے اونگھنے لگتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ ایکٹ پر پہلے تمام پارٹیوں کے نمائندوں سے رائے لی گئی ہے۔ اسی طرح عام طور پر مذہبی قراردادوں اور زیر بحث قوانین کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرنے کی روایت بھی پاکستان میں موجود ہے۔ افسوس جلد بازی کی حالت یہ ہے کہ مذکورہ ایکٹ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے فورم سے بھی استفادہ نہیں کیا گیا۔

اس ایکٹ کے مندرجات پر غور کیا جائے تو عجیب مسائل سامنے آتے ہیں۔ کیا پاکستان میں مذہبی فضا اتنی تنگ و تاریک ہوتی چلی جا رہی ہے کہ اب یہ منتخب اسمبلیاں بتائیں گی کہ کس شخصیت کے ساتھ اظہار ادب کے لیے کون سے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ قومی اسمبلی میں بھی اس سے پہلے ایک ایسی قرارداد منظور کی گئی ہے، جس کے مندرجات پر صحیح طرح سے غور و فکر نہیں کیا گیا۔ ختم نبوت ہمارے ایمان کا ناگزیر اور لازمی حصہ ہے، لیکن اس موضوع کو ایسا حساس بنا دیا گیا ہے کہ کوئی شخص کسی انداز سے بھی بظاہر اس موضوع کی حمایت میں بات کر رہا ہو تو کوئی دوسرا اس پر کچھ کہنے کے بجائے خاموشی کو اپنے لیے قرین عافیت سمجھتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب بھی نام لیا جائے، اس کے ساتھ خاتم النبیین ضرور لکھا اور کہا جائے۔ آپؐ کی ختم نبوت پر ایمان ضروری ہے۔ ہر وقت آپؐ کا نام نامی لیتے ہوئے اس کے ساتھ ایسے کلمات کا لکھنا اور کہنا ضروری نہیں ہوسکتا۔ کیا اب کلمہ طیبہ میں بھی ترمیم کرنا پڑے گی اور محمد رسول اللہ کے ساتھ خاتم النببین بھی کہنا پڑے گا؟ کیا قرآن شریف میں جہاں بھی آنحضرت ؐکا پاک نام آیا ہے اور آپؐ کا ذکر خیر آیا ہے، وہاں ساتھ خاتم النبیین کا اضافہ کرنا پڑے گا؟ اسی طرح کیا احادیث کی عبارات میں بھی ترمیم کرنا پڑے گی۔؟ قس علی ھذا القیاس۔

انبیائے ماسبق کے اسمائے گرامی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ قرآن حکیم میں ہر جگہ ان کے نام کے ساتھ حضرت یا علیہ السلام نہیں آیا۔ اگرچہ انبیاء اور مرسلین پر سلام قرآن حکیم میں مذکور ہے۔ یوں ہی احادیث کی عبارات میں بھی انبیائے کرام کے نام معمول کے مطابق آئے ہیں۔ صحابہ کرامؓ سے منقول خطبات اور اقوال میں بھی اس امر کا التزام نہیں کیا گیا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کو خطاب کرتے ہوئے رضی اللہ عنک، عنکم، عنکن جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے؟ غیب کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے بھی کسی کی عدم میں موجودگی میں ایک صحابی دوسرے صحابی کا نام لیتے ہوئے رضی اللہ عنہ نہیں کہتے تھے۔ حدیث کی کتابوں کے اصل متون میں بھی عموماً اس کا التزام نہیں کیا گیا۔ یہی حال تاریخ کی کتب کا بھی ہے۔ ہم آہستہ آہستہ اپنے معاشرے کو سنگین اور شدت پسندانہ مذہبی معاشرے کی طرف دھکیلتے چلے جا رہے ہیں، جس کا خمیازہ اہل مغرب بھگت چکے ہیں۔

کیا اب ہر اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، جو کسی نبی کے ساتھ علیہ السلام نہیں لکھے گا یا نہیں بولے گا، یا کسی صحابی کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنا بھول جائے گا؟ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، لوگوں کی زندگیوں میں اس طرح کی دخالت بہت خطرناک ہے۔ کسی شخص کا احترام اصولی طور پر دلوں میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور معاشرے کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ دوسروں کے مقدسات کا احترام کیا جائے۔ قرآن حکیم میں ازواج رسولؐ کو امہات المومنین کہا گیا ہے۔ اس پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے۔ لہٰذا ان کا نام لیتے ہوئے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس احترام کا اظہار ہر مسلمان اپنے انداز سے کرسکتا ہے۔ اہل بیت رسولؐ کی بھی مودت اور محبت قرآن حکیم میں فرض کی گئی ہے۔ ہر مسلمان اپنی نماز میں نبی پاکؐ اور آپ کی آل اطہار پر درود بھیجتا ہے۔ جن ہستیوں پر نماز میں درود بھیجا جاتا ہے، ان کے ساتھ علیہم الصلاۃ یا علیہم السلام کہنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔

نبی پاکؐ سے منقول صحیح روایات میں جہاں درود شریف میں ہمیشہ آل رسول کو شامل کیا گیا ہے، وہاں آپؐ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ مجھ پر ناقص درود نہ بھیجو اور جب آپؐ سے پوچھا گیا تو ناقص درود سے کیا مراد ہے تو آپؐ نے وضاحت فرمائی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مجھ پر تو درود بھیجو اور میری آل پر نہ بھیجو۔ یہی وجہ ہے کہ سنی شیعہ محدثین نے عموماً اہل بیت کرامؑ کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کے اسماء کے ساتھ علیہ السلام جیسے کلمات سے اظہار عقیدت و محبت کیا ہے، ان میں امام بخاریؒ بھی شامل ہیں۔ مذکورہ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ اہل بیت میں سے کسی ہستی کا نام لیتے ہوئے رضی اللہ عنہ یا عنہا لکھا اور کہا جائے۔ تو کیا اب پنجاب اسمبلی یہ فیصلہ کرے گی کہ کس کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ اور کس کے نام کے ساتھ علیہ السلام آنا ہے؟ اس طرح کے موضوعات کو قانون ساز اسمبلیوں میں لے جانا مسلمانوں کے معمولات میں مداخلت کے مترادف ہے اور پاکستان کے آئین میں دیے گئے سماجی اور مذہبی حقوق کے منافی ہے۔

اس سے پہلے پنجاب اسمبلی میں داڑھی کی شکل و صورت کیا ہو، اس پر ایک خاتون نے قرارداد پیش کی تھی۔ ہمیں حیرت ہے کہ کس طرح کے موضوعات پنجاب اسمبلی میں اٹھائے جا رہے ہیں، اس کے پیچھے کیا ذہنیت کارفرما ہے؟ کیا پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور اہل حل و عقد نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایسی قراردادوں اور ایسے قوانین کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کس طرح کے مقدمات تھانوں اور عدالتوں میں جائیں گے، مسلمان آپس میں کس انداز سے الجھیں گے، منافرتیں کس طرح سے جنم لیں گی۔؟ اسمبلی کے ذمہ معاشرے میں عدل و انصاف کو فروغ دینا، لوگوں کے مذہبی اور سماجی حقوق کی حفاظت کرنا، پنجاب اسمبلی کے بیت المال کی رکھوالی کرنا۔ قوانین کی مساویانہ تنفیذ کو یقینی بنانا، مختلف شعبوں میں صوبے میں منصوبوں پر عملدرآمد کا جائزہ لینا وغیرہ ہونا چاہیے۔ نیز جہاں ایسے امور میں کسی نئے قانون کی ضرورت ہو، اس کے لیے قانون سازی کرنا، علاوہ ازیں پہلے سے موجود قوانین کے نواقص کو ختم کرنا بھی اسمبلی کے ذمہ ہیں۔

ہمیں تو خطرہ یہ ہے کہ آئندہ مردوں کے لیے ٹوپیوں کا سائز اور رنگ کیا ہو، اس پر بھی پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لیے کوئی قرارداد پیش ہوسکتی ہے۔ شلواروں کے ٹخنوں سے اوپر ہونے یا نہ ہونے کا موضوع بھی زیر بحث آسکتا ہے۔ اذانوں سے پہلے درود شریف پڑھنے یا نہ پڑھنے کے حوالے سے بھی قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ عورتوں کے برقعے، دوپٹے اور لباس کی شرائط کے لیے بھی کوئی ایکٹ تجویز کیا جاسکتا ہے۔ اسمبلی کا کام تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ایسی بحثوں میں الجھانے والے افراد کی حوصلہ شکنی کرے، چہ جائے کہ مقدس عناوین کے تحت ایسی قراردادیں اور ایسے ایکٹ منظور کرے۔ کہاں ہیں تجربہ کار پارلیمنٹیرینز، کہاں ہیں انسانی حقوق کے رکھوالے، کہاں ہیں پنجاب میں عدل و انصاف کے رواج کا خواب دکھانے والے؟ کیا اسمبلی کے سپیکر اور ان کے منہ زور حامیوں سے پوچھا جا سکتا ہے، اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کیا ان سے کہا جاسکتا ہے فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ۔
خبر کا کوڈ : 876438
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حیدر
Pakistan
زبردست
ساجد بخاری
Pakistan
یہ بل آئین پاکستان کے خلاف ہے، لہذا اس بل کو یکسر ختم کر دیا جائے اور بل پیش کرنے والے اور اس کے حق میں ووٹ دینے والوں کو آئین شکنی کی سزا دی جائے۔
Noor Syed Hassan
Pakistan
جزاک اللہ، بہترین، بہت خوب۔
اللہ آپ کے علم و فراست میں مزید اضافہ فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
ہماری پیشکش