0
Saturday 25 Jul 2020 15:39

بڑھتا ہوا چین اور ناکام ہوتی ٹرمپ انتظامیہ

بڑھتا ہوا چین اور ناکام ہوتی ٹرمپ انتظامیہ
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ دنیا میں کسی بھی ایسی قوت کو برداشت کرنے لیے تیار نہیں ہے، جو کسی بھی طرح سے اس کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرے۔ یہ طاقت کی نفسیات بھی ہے کہ وہ اپنے مدمقابل کسی بھی ابھرتی طاقت کو برداشت نہیں کرتی، جو مستقبل میں اس کے اقتدار یا اختیار کے لیے چیلنج بن سکے۔ روس اور امریکہ کا بارڈر الاسکا سے ملتا تھا، جب اس نے روس سے جنگ کا سوچا تو براہ راست جنگ کی بجائے یہ جنگ افغانستان میں لڑی۔ جس کے لیے پیسہ اور اسلحہ امریکہ نے دیا اور مقامی سطح پر ایسا ماحول تشکیل دیا گیا، جس سے جنگجوآنہ مزاج نے جنم لیا اور آج بھی خطہ اس امریکی جنگ کے اثرات سے باہر نہیں نکل پایا۔ روس سے امریکہ کو مسئلہ یہی تھا کہ روس امریکی و یورپی اقدامات کو چیلنج کرتا تھا اور اس کا دنیا بھر خارجہ تعلقات سے لے کر معیشت تک کا اپنا نظام تھا، اس کی تباہی کے بعد امریکہ دنیا کا بلاشرکت غیر وڈیرہ بن بیٹھا ہے۔

تقریباً چالیس سال کی من مانیوں کے بعد امریکی راج کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اندرونی طور پر نسلی توڑ پھوڑ، وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم اور کرونا وائرس کے نتائج نے امریکی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھا دیا ہے۔ ایک شہر میں تیس فیصد  افریقی امریکی ہیں اور ستر فیصد گورے ہیں، مگر کرونا سے مرنے والوں میں ستر فیصد افریقی امریکی ہیں اور تیس فیصد گورے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک افریقی امریکن کی موت کو لے کر یہ لاوا ابل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے امریکہ کو اپنی لپٹ میں لے لیا۔ کرونا کے باوجود کروڑوں لوگ مظاہروں میں شریک ہوئے۔ اسی دوران امریکہ کی ایک دوسری شکل دنیا نے دیکھی کہ وہاں پر بڑی تعداد میں جلاو، گھراو اور مارکیٹس لوٹنے کے واقعات ہوئے۔ پولیس نے مظاہرین پر بے تحاشہ تشدد کیا۔

بیرونی طور پر دیکھا جائے تو امریکہ کافی عرصے سے چین کو اپنے دشمن کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ امریکہ نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی ہے، جس میں چینی حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی کرنا اور دنیا بھر میں چین کو بدنام کرنا شامل ہے۔ کرونا ایک وبا کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا اور اس کا آغاز چین سے ہوا۔ اسے لے کر امریکہ نے چینی حکومت کو خوب بدنام کیا، چین کی صلاحیتوں پر سوالات کھڑے کئے اور ٹرمپ بار بار اسی چینی وائرس کہتے رہے۔ چین نے بڑی تیزی سے اس وبا پر کنٹرول کیا اور یہاں مرنے والوں اور متاثرین کی تعداد امریکہ سے بہت کم ہے، امریکہ میں مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، متاثرین کی تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ ہے، یہ تعداد چین کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے اس معاملے میں امریکہ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور امریکی پروپیگنڈے کے خلاف وبا پر بڑی سرعت سے قابو پایا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ  آرگنائزیش کی چین اور کرونا کو لے کر پالیسی کو ٹرمپ نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے اس کے فنڈز بند کر دیئے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے امریکی خواہشات کے مطابق چین کو  وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے کی امریکی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اسے وبا قرار دیا تھا، جو کسی بھی جگہ سے آسکتی تھی۔ چین کو دبانے کی ٹرمپ کی یہ کوش ناکام ہوئی۔ اس کے مقابل چین نے بڑی تعداد میں کرونا کٹس اور حفاظتی سامان غریب ممالک کو مفت فراہم کرکے ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ اس کے مقابل امریکی صدر کو جب یہ معلوم ہوا کہ ایک میڈیسن کرونا میں موثر ثابت ہو رہی ہے تو اس کمپنی کو اس کی ساری پروڈکشن صرف امریکہ کو فراہم کرنے پر مجبور کر دیا،  اس سے ایک بار پھر غریب ممالک کے متاثرین کا استحصال کیا۔

ابھی تازہ تنازع سن لیں، ویسے تو پمپیو کی ہر تیسری ٹویٹ چین اور ایران کے خلاف ہوتی ہے۔ ابھی امریکہ انتظامیہ نے امریکہ میں پڑھنے والے چینی سائنسدانوں پر  گھیرا تنگ کر رکھا ہے کہ وہ انٹلیکچول پراپرٹی کی چوری کر رہے ہیں اور ان کا تعلق چائنہ کی فوج سے ہے۔ اسے لے کر امریکہ میں پڑھنے والے چینی طالب علموں کو تنگ کیا جا رہا ہے اور کئی چینی طلباء کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتاریوں کے بعد کیلی فورنیا میں رچرڈ نکسن صدارتی لائبریری میں سیکریٹری پومپیو نے "تمام اقوام کے سربراہان" سے چین کے خلاف کھڑے ہونے کا کہا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے آزادی واپس لینا ہمارا اولین مشن ہے۔

امریکہ نے مشہور امریکی شہر ہیوسٹن میں قائم چینی کونسل خانے کو بند کر دیا ہے۔ قونصل خانے کو بند کرنا ایک انتہائی اقدام ہے اور اس سے متعلقہ ملک کی توہین ہوتی ہے۔ چین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے چنگدو میں امریکی کونسل خانے کو بند کر دیا ہے، یہ کونسل خانہ  1985ء سے قائم تھا۔ چین نے بڑی سوچ بچار کے بعد تبت کے قریب ترین واقع امریکی کونسل خانے کو بند کیا ہے، جس کی اسٹریٹجیک اہمیت تھی۔ یہ امریکہ کو پیغام بھی ہے کہ ہم آزاد قوم ہیں اور جو ہمارے ساتھ جیسے کرے گا، ہم اس کے ساتھ ویسا کریں گے۔

چین نے ہر اس ملک کے ساتھ تعاون کیا ہے، جس کے ساتھ امریکہ نے ظالمانہ رویئے کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکی بغض و عناد چار دہائیوں سے جاری ہے اور ہر ماہ کئی نئی پابندیاں ایران پر عائد کر دی جاتی ہیں۔ اب تو خیر کچھ بچا ہی نہیں، اکثر پابندیاں پرانی پابندیوں کی تکرار ہی ہوتی ہیں۔ چین نے ان پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نہ صرف اسلامی جمہوری ایران سے تیل خریدنے کو جاری رکھا بلکہ اربوں ڈالر سرمایہ کاری کا پچیس سالہ معاہدہ بھی کرنے جا رہا ہے، جس سے ایران کو مالی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس طرح خطے میں امریکہ سے لڑتے ایران کو  قریب کرکے اور اس کے مدد کرکے چین نے ٹرمپ کی خطے کے حوالے سے پالیسی کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔ ٹرمپ جب بین الاقوامی ڈیل سے نکلا تھا، اس وقت اس کا خیال تھا کہ چند ماہ میں ایرانی قیادت اس کے سامنے جھک جائے گی اور پابندیوں کو برداشت نہیں کرسکتے گی، مگر ایسا نہ ہوا بلکہ اس سے امریکی پالیسی سازوں کا حکمت سے عاری ہونا واضح ہوگیا۔

ماہرین کے مطابق ٹرمپ چین کو ایک دشمن کے طور پر الیکشن کمپین کے لیے پیش کر رہا ہے۔ خارجہ پالیسی سے لے کر داخلہ پالیسی تک جتنی ناکامیاں ٹرمپ نے امریکہ کی گود میں ڈالی ہیں، اتنی کسی امریکی صدر نے نہیں ڈالی ہوں گی۔ دوستوں میں کمی، دشمنوں میں اضافہ، دنیا میں سکڑتا امریکی نظام، سب ٹرمپ کے تحفوں میں سے ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ سفید فام امریکی عوام کو یہ باور کرانا چاہ رہا ہے کہ دیکھو چین تمہارا دشمن ہے اور فقط میں ہی اس سے نمٹ سکتا ہوں، اس لیے مجھے ووٹ دو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ الیکش امریکہ میں ہونے ہیں اور اس کے نتائج حاصل کرنے کے لیے دنیا کے اس حصے کی عوام کو خوار کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ بطور صدر امریکہ کے ناکام صدر ہوں گے، جن کے دور میں ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دنیا امریکہ سے متنفر ہوئی اور چین کے قدم ایشیاء سے افریقہ تک بہت مستحکم ہوئے۔
خبر کا کوڈ : 876482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش