0
Sunday 26 Jul 2020 11:11

امریکہ طالبان مذاکرات

امریکہ طالبان مذاکرات
تحریر: ناصر رینگچن

بلآخر انیس سالہ طولانی جنگ کے بعد امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیاب ہوا، ان کے کامیاب مذاکرات فروری میں قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں انجام پائے۔ امریکہ طالبان امن معاہدہ کا پہلا مرحلہ تقریباً مکمل ہونے والا ہے اور اس معاہدے کے ذیل میں اب تک ہزاروں طالبان جنگجو رہا ہوچکے ہیں اور ساتھی ہی امریکہ نے بھی اپنے پانچ عسکری اڈوں کو خالی کرنے کا کہا ہے۔ آخر کیا وجہ بنی کی امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر اُتر آیا؟؟ کیا ان مذاکرات کے پس پردہ کچھ اور منصوبہ تو نہیں؟؟ کیا اب افغانستان میں امن و امان بحال ہو جائے گا؟ یا اب بھی کوئی بڑا چیلنج باقی ہے؟ امریکہ کے علاوہ افغانستان میں کون کون سے ممالک دلچسپی لے رہے ہیں اور کیوں ان کی دلچسپی افغانستان میں ہے۔ ان تمام سوالات کی جانب جانے سے پہلے مختصراً 19 سالہ جنگ میں ہونے والے انسانی نقصانات کی ایک چھوٹی فہرست آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرتا چلوں۔

امریکہ افغان جنگ میں اب تک ایک لاکھ ستاون ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں، تینتالیس ہزار عام شہری جاں بحق ہوچکے ہیں، دو ہزار چار سو امریکن مارے جاچکے ہیں اور بیس ہزار امریکی زخمی ہوئے ہیں۔ گیارہ سو نیٹو کے فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، پینتالیس ہزار افغان سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکار اس جنگ میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس کے علاہ دسیوں ہزار طالبان بھی مارے جاچکے ہیں، جن میں نہیں معلوم کتنے عام شہری بھی شامل ہونگے خدا بہتر جانتا ہے۔ اب ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کہ امریکہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے تین پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک امریکہ کے موجودہ داخلی اور خارجی حالات، جس کے بارے میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا، اب امریکہ بہت جلد ٹائی ٹینک کی طرح ڈوب جائے گا۔ اس وقت امریکہ کو اندرونی اور بیرونی طور پر سخت مشکلات کا سامنا ہے، وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اور افغانستان میں طالبان سے مذاکرات، عراق سے فوجیوں کو کم کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی کڑی بتائی جا رہی ہے۔

دوسرا پہلو طالبان سے مذاکرات کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کو کم کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہوں بلکہ امریکہ چاہتا ہی یہی ہے اور طالبان نمائندے نے یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ وہ لوگ امریکی مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ تیسرا پہلو امریکہ طالبان کے ذریعے پھر سے افغانستان میں ایک نیا فتنہ شروع کرنا چاہتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ داعش کی صورت میں ہو، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ عراق، شام میں داعش کی شکست کے بعد امریکہ نے بڑے پیمانے پر داعشوں کو افغانستان منتقل کیا تھا اور اب ان کو میدان میں لانے کے لئے زمینہ سازی ہو رہی ہے۔ حقیقت میں اگر ہم دیکھیں تو مذاکرات کے بعد سے اب تک افغانستان میں بدامنی کی ریشو ایک دم بڑھ گئی ہے، ایک جانب امن معاہدہ ہوا ہے تو دوسری جانب آئے روز سکیورٹی اہلکاروں اور سویلینز پر حملوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ صرف جون کے مہینے میں چار سو سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ لہذا ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکہ طالبان مذاکرات افغانستان کو کس جانب لے جا رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ افغانستان کا اصل مسئلہ امریکہ طالبان جنگ تھی، لہذا اب امن معاہدے کے بعد یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا، کیا واقعاً ایسا ہی ہوگا؟ نہیں جناب اصل چیلنج تو اب بھی باقی ہے اور وہ ہے افغانستان کا مستقبل۔ آیا افغانستان کا مستقبل دوبارہ طالبان کے ہاتھ میں ہوگا یا کوئی اور حکومت ہوگی؟ اس وقت امریکی معاہدے کے تناظر میں یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ افغانستان میں پھر سے طالبان کا راج ہوگا۔ اس کی ایک مثال معاہدے سے پہلے 2019ء کے عوامی انتخابات ہیں، جن میں افغانستان کے 9 ملین رجسٹرڈ وٹروں میں سے صرف 2 ملین لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اس کی ایک اہم وجہ طالبان کی جانب سے لاحق خطرات تھے اور کچھ صوبوں میں طالبان نے باقاعدہ لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے منع کر دیا تھا۔ اس کے بعد انتخابات کے نتائج میں بھی چند ماہ کی تاخیر ہوئی تھی۔ لہذا اس وقت امریکہ اور افغان حکومت دونوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج طالبان اور افغانستان کا مستقبل ہے، اسی سلسلے میں امریکہ طالبان معاہدے کے بعد اس وقت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بھی مذاکرات جاری ہیں اور اس مذاکرات کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں، یہ سب سے اہم ہیں۔

دوسری جانب امریکہ طالبان مذاکرات کے شروع ہوتے ہی روس، چین، انڈیا، اور ایران بھی افغانستان اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ روس افغان جنگ میں شکست کے بعد ایک دفعہ پھر اپنے تعلقات کو افغانستان میں زندہ کرنا چاہتا ہے۔ اسی سلسلے میں طالبان کے ساتھ کئی بار مذاکرات بھی ہوچکے ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کا اثر و رسوخ کم سے کم ہو۔ روس کے ساتھ ساتھ چین نے میں افغانستان میں اپنی دلچسپی کا برملا اظہار کر دیا ہے۔ چین اپنی اقتصادی راہداری کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی افغانستان کے وسیع و عریض قدرتی وسائل کو بھی استعمال کرنا چاہتا ہے، اسی لئے چین نے 2019ء بیجنگ کانفرنس میں افغان حکومت کے ساتھ طالبان وفد کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔

افغانستان کی بدلتی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لئے وطن عزیز پاکستان کا ابدی دشمن ہندوستان بھی کسی سے پیچھے نہیں، ہندوستان اب تک تین بلین ڈالر افغانستان کی تعمیر نو اور تجارتی مد میں افغان حکومت کو دے چکا ہے۔ انڈیا افغان حکومت اور امریکہ کی مدد سے افغانستان میں موجود انڈیا مخالف قوتوں کو ختم کرکے پاکستان مخالف قوتوں کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہ پاکستان مخالف عناصر کو وطن عزیز کے خلاف استعمال کرسکیں۔ ہندوستانی ناپاک پنجوں کو افغانستان میں مضبوط کرنے کے لئے افغان حکومت کا کردار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ افغانستان کا اہم پڑوسی ملک ایران بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش پیش ہے، ایران طالبان مذاکرات کا مقصد اپنی سرحدوں کی حفاظت ہے، خو خصوصاً منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔ افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ ایران کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

خلاصہ یہ کہ امریکہ طالبان مذاکرات سے نہ صرف افغانستان کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے بلکہ اس کے اثرات سے پڑوسی ممالک بھی نہیں بچ سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے علاقہ پاراچنار میں حالیہ طالبان اور اس کی ہم فکر کالعدم تنظیموں کی جانب سے شیعہ نشین علاقوں پر حملے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یاد رہے کہ طالبان اور القاعدہ کے مختلف دھڑے پاک افغان باڈر کی جانب آباد ہیں اور پاکستان میں ہونے والے اکثر حملوں کے تانے بانے بھی افغانستان سے جا کر ملتے ہیں۔ لہذا مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں اس کا گہرا اثر وطن عزیز پاکستان پر پڑے گا۔ کیونکہ طالبان کا قیام، طالبان کی حکومت، پھر افغان جنگ ان سب میں پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان نے کئی سالوں کی محنت سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے اور اس وقت ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔ دوسری جانب پاک چین دوستی بھی اپنے عروج پر ہے اور اقتصادی راہداری پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔ ملک دشمن عناصر خصوصاً انڈیا اور امریکہ کو پاکستان کی ترقی اور امن و امان کسی صورت برداشت نہیں۔ ان حالات میں قوی امکان ہے کہ امریکہ طالبان کے ذریعے پاکستان میں امان و امان کی صورتحال کو خراب اور پاک چین دوستی پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کرے گا۔ لہذا ہمیں خطے میں رونما ہونے والے حالات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک منظم سازش کے تحت طالبان کی سیاسی قوت کو ساری دنیا سے منوا رہا ہے اور 19 سال پہلے کے طالبان کو ایک نئے چہرے کے ساتھ مزید طاقتور بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ امریکہ اپنے نئے منصوبے میں کس حد تک کامیاب رہتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 876660
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش