QR CodeQR Code

اسلام دشمن، انسان دشمن تکفیری ایکٹ

28 Jul 2020 09:30

اسلام ٹائمز: یہ بل سوچنے اور مخالف رائے رکھنے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ دوسروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ وہی سوچیں جو یہ قانون کہتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے معتبر ادارے کے موجود ہوتے ہوئے اسے بائی پاس کرکے مذہبی آزادیوں کو سلب کرنے کی یہ کوشش فرقہ واریت کی گھناونی سازش ہے، جسکے مہروں کا پتہ چلانا ریاستی اداروں کا کام ہے۔ اگر اس آگ کو ابھی روک دیا گیا تو بہتر ہے، میرا چمن محفوظ رہے گا۔ یہ کس قدر سنگین مسئلہ ہے، ذرا ٹویٹر پر کل سے ٹاپ ٹرینڈز کو ہی ملاحظہ کر لیں۔ یہ پاکستان کا واحد بل ہوگا، جسکی مخالفت شیعہ، دیوبندی، اہلحدیث اور آزادی اظہار کے قائل سیکولر ملکر رہے ہیں۔ قانون دان اور علماء اسے مسترد کر رہے ہیں۔ صرف ایک تکفیری گروہ موجود ہے، جو داعشی نظریات کا حامل ہے، وہی اسکی حمایت کر رہا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان میں اسلامائزیشن کی ایک تاریخ ہے، جس کا آغاز قرارداد مقاصد سے ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی سیکولر قوتوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ پاکستان میں اسلام نافذ نہیں ہوسکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کس فرقے کا اسلام نافذ ہوگا؟ شیعہ کا؟ سنی کا؟ اور سنیوں میں بھی آگے کس فرقے کا اسلام ہوگا؟ کیونکہ اہلسنت بھی مالکی، حنفی، شافعی اور حنبلی میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ان قوتوں کا خیال تھا کہ فرقوں میں بٹے ہوئے یہ مولوی کبھی متفق نہ ہوں گے، مگر تمام مسالک کے علمائے کرام نے بائیس نکات پر اتفاق کرکے اس غلط فہمی کو دور کر دیا۔ پاکستان کثیر المسالک ملک ہے، اس میں شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث مسالک کے لوگ رہتے ہیں۔ بریلویوں کی اکثریت ہے، باقی مسالک تقریباً برابر برابر ہیں۔ ایسے میں یہاں کوئی بھی ایسا قانون بنانا جو ان میں سے کسی بھی فرقے کے معتقدات کے خلاف ہو، ممکن نہیں ہے اور اگر کبھی ایسا قانون بنانے کی کوشش کی گئی تو ملک میں انتشار اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوشش ہوگی۔

ایک فرقہ پرست جماعت کی طرف سے بڑی مدت سے شریعت بل کے نام پر شیعہ آزادیوں اور عقائد کو محدود کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جو کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ اس کی بنیادی وجہ ارکان پارلیمنٹ کا حساس ہونا اور تحریک جعفریہ کی منظم کوششیں رہی ہیں۔ شریعت بل کے نام پر تمام کوششیں وفاقی سطح پر کی گئیں اور ان کا درست فورم بھی وہی تھا۔ اس بار فورم تبدیل کرتے ہوئے  پنجاب اسمبلی میں یہ قرارداد انتہائی عجلت میں پیش کی گئی اور اس کا متن تک پبلک نہیں کیا گیا۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت نے اس لیے ہاں کر دی کہ اسلام کے نام پر کسی بل کی مخالفت کرکے وہ اپنے خلاف منظم مہم کو نہیں دیکھنا چاہتے، جو ان کے ووٹ بنک کو متاثر کرے۔ اس لیے یہ بل متفقہ طور پر منظور ہو کر حتمی منظوری کے لیے گورنر تک پہنچ گیا۔ اسی دوران اس کے نکات پبلک ہوگئے۔ جیسے ہی پبلک ہوئے اس پر سب سے پہلے شیعہ جماعتوں اور عوام کی طرف سے شدید ردعمل آیا اور اسے عقائد پر حملہ قرار دیا گیا اور مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ شیعہ علماء کونسل کے وفد نے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ عارف حسین واحدی کی قیادت میں سپیکر صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی اور اس بل پر اپنے تحفظات پیش کیے اور اس بل کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے شیعہ علماء کے تحفظات دور ہونے تک اس پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ بل صرف شیعہ مخالف بل ہے، جس میں انہیں وہ الفاظ کہنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جو ان کا عقیدہ ہے اور ان کے منہ سے وہ الفاظ کہلوانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جس کا وہ عقیدہ نہیں رکھتے۔؟ اصل میں یہ بل صرف شیعہ مخالف نہیں ہے، یہ مذہب مخالف بل ہے، جس میں مذہبی کتب کی اشاعت پر ایسی قدغنیں لگا دی گئی ہیں کہ اب مذہبی کتب کی اشاعت ایک مشکل امر بنا دیا گیا ہے۔ ایک عام بیوروکریٹ کو اتنے اختیارات دے دیئے گئے ہیں کہ وہ ہر کتاب کی اشاعت روک سکتا ہے۔ بیرون ملک سے علمی و تحقیقی کتب کی درآمد اب ایک ناممکن امر بنا دیا گیا ہے۔

شعر و شاعری تک کی کتب کو بھی انتہائی باریک بینی سے مذہب کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ ڈاکٹر شہباز منج صاحب نے بڑا خوبصورت لکھا ہے کہ: شعر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ ہر جگہ عربی ٹیکسٹ میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شروع میں خاتم النبیین لکھا جائے تو شعر ایک عجیب و غریب شکل اختیار کر لیتا ہے، مثلاً اقبال کا مصرعہ "کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔۔۔" آپ کو کلیات ِ اقبال میں یوں لکھنا ہوگا۔۔۔"کی خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں۔" سابق چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ ملک کے معروف سکالر ڈاکٹر طفیل ہاشمی نے لکھا: اس بل کی بنیاد پر پہلے تو انہیں قرآن کی کئی آیات کی جگہ نئی آیات کا انتظام کرنا پڑے گا، پھر بخاری نئے سرے سے لکھ کر چھاپنی پڑے گی۔ سنی مکاتب فکر کی کتب احادیث، سیرت، فقہ اسلامی کو مکمل نظرثانی کے بعد جدید ایڈیشن دینا ہونگے۔ اس مقصد کے لیے ایک محکمہ کتب محرمہ بنانا ہوگا۔ ایسی عدالتیں قائم کرنا ہوں گی، جو گستاخ مولفین کو سزا دے سکیں گی۔ تب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوگا۔ افسوس کسی مفتی اعظم اور شیخ الاسلام نے اسے دین کے ساتھ کھلواڑ کا نام نہیں دیا۔ خاتم النبیین کی قید کے ساتھ تو قرآن و صحیح بخاری نہیں چھپ سکتی، باقی کتب تو اپنی جگہ رہ گئیں۔

شریعہ اکیڈمی انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سربراہ اور ملک کے معروف قانون دان پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق نے لکھا کہ پنجاب تحفظ بنیاد اسلام کا متن اگر وہی ہے، جو بعض دوستوں نے شیئر کیا ہے، تو یہ اسلام کے نام پر بدترین فاشزم کی بنیاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بالکل درست کہا، فاشزم مقابل سوچ کو طاقت سے دبانے کا نام ہے اور یہ بل یہی کر رہا ہے۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد زاہد صاحب کا یہ خدشہ اپنی جگہ بالکل درست ہے، وہ لکھتے ہیں کہ میں سازشی نظریات کا قائل نہیں ہوں، اللہ کرے میرا محض توہم ہو، مگر مجھے لگ رہا ہے کہ مذہبی سرگرمیوں کو جکڑنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور وہ بھی خوش نما عنوانات کے تحت. پنجاب میں چیئرٹی بل آیا، پھر کے پی میں آیا، پنجاب میں چیئرٹی کمیشن بھی بن گیا، تمام این جی اوز پر بیوروکریسی کے اختیارات کی تلوار لٹکا دی گئی،مگر انسانی حقوق کے علم بردار خاموش رہے. اب اشاعتِ کتب پر بیوروکریسی کو مسلط کیا جارہا ہے، مگر انسانی حقوق والے اس پر بھی خاموش ہیں۔ اس سوال پر غور کرنے میں کیا حرج ہے کہ اس خاموشی کی وجہ کوئی انڈر سٹینڈنگ تو نہیں کہ یہ سب کچھ صرف اہلِ مذہب کے خلاف استعمال ہونا ہے۔

آج کوئی افسر میرے بک سٹور پر چھاپا مار سکتا ہے تو کل میری جمعے کی تقریر کے دوران چھاپا مارنے کا بھی اختیار مل سکتا ہے۔ اس قانون کی رو سے مولانا حسین احمد مدنی رہ کے سیاسی نقطہ نظر کو بیان کرنے یا اسے ترجیح دینے سے بھی میری کتاب کی اشاعت رک سکتی ہے، کیونکہ قانون کہتا ہے کہ نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی. ہمیں صرف اس پر خوش نہیں ہونا چاہیئے کہ فلاں مسلک کے لوگوں پر اس کی زد پڑی ہے۔ بہتر ہوگا تمام مسالک کے لوگ مل کر افسر شاہی کے تسلط کو رد کر دیں۔ مفتی صاحب نے بڑی متوازن اور درست بات کی ہے کہ اصل مسئلہ مذہبی معاملات کے ریاستی کنٹرول کا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ بات تمام مسالک کے خلاف استعمال ہونی ہے اور اس کے ذریعے سے فرقہ واریت کو ہوا دے کر "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے اصول کو اپناتے ہوئے اپنے اختیارات مضبوط کرنے اور آزادیوں کو سلب کرنے کی بات کی گئی ہے۔ دو قومی نظریئے کے حوالے سے دیوبند کی رائے  بڑی واضح تھی، اب اگر حسین مدنی کی رائے کو کوئی کتاب میں نقل بھی کرتا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے۔

تقابل ادیان کے معروف سکالر اور طیب عثمانی صاحب لکھتے ہیں: صفحہ نمبر 2۔۔۔۔ شق ج کے مطابق "بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والا مواد" کے مطابق چند سوال ذہن میں آئے کہ اس قانون کی اس شق کے تناظر انٹر فیتھ ڈس آرڈر میں مندرجہ ذیل پہلوؤں شامل ہیں یا نہیں۔؟
1۔ قرآن مجید کی وہ تنقیدات بھی شامل ہونگی جو سماوی ادیان کے ماننے والوں اور کتب سماویہ کی تحریفات پر شامل ہیں۔۔۔۔۔ کیا یہ بھی انٹر فیتھ ڈس آرڈر ہے۔؟
2۔ جامعاتی سطح (Academic Research) کے ادیان سماویہ و غیر سماویہ کی تنقیدات پر مشتمل مقالات و مضامین اس قانون میں داخل ہونگے۔۔۔۔۔
3۔ ادیان پر تنقیدی مواد خواہ وہ احادیث میں موجود ہے، تفاسیر میں موجود ہے یا پھر کالونیل اور پوسٹ کالونیل جدلیاتی ادب بھی اس قانون کے مطابق(انٹر فیتھ ڈس آرڈر) میں شامل ہوگا۔؟
4۔ کیا اس قانون کے تحت دیگر ادیان پر تنقیدی پہلوؤں پر مشتمل کتب قابل اشاعت ہونگی۔؟؟؟؟؟
5۔ کیا مجاز اتھارٹیز مسلم محققین کی ادیان پر کیے گئے تنقیدی مطالعات پر مشتمل کتب شائع نہ کرنے کا اختیار رکھتے ہونے گے۔؟

جب آپ دوسرے مذہب کے بارے میں کوئی رائے ہی نہیں دے سکتے، اگر دیتے ہیں ایسا جرم ہے، جس کی سزا ہے تو  آپ کو قرآن کی ان آیات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا پڑے گا، جو ماسبق کتب میں تحریف کا بتاتی ہیں، کیونکہ آپ کا قانون یہ کہہ رہا ہے کہ ایسا کرنا جرم ہے۔ ان تمام علمائے کرام کی تحقیقات کو بھی دریا برد کرنا پڑے گا، جو مشنریز اور مستشرقین کے خلاف لکھی گئی ہیں۔ اس قانون کے بعد تقابل ادیان بطور مضمون یونیورسٹیز سے ختم ہو جائے گا اور ان تمام لوگوں کو اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے موضوع تبدیل کرنے پڑیں گے، جن کے موضوعات اس سے متعلق ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں سالوں جیل میں رہنا پڑ سکتا ہے۔

پاکسان نے انسانی حقوق کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں، یہ بل اس کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کا آرٹیکل مذہبی آزادی کی بات کرتا ہے، فریڈم آف تھاٹ کی بات کرتا ہے اور اپنی بات پہنچانے میں ہر قسم کی رکاوٹ کو مسترد کرتا ہے۔ مگر یہ بل  سوچنے اور مخالف رائے رکھنے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ دوسروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ وہی سوچیں جو یہ قانون کہتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے معتبر ادارے کے موجود ہوتے ہوئے اسے بائی پاس کرکے مذہبی آزادیوں کو سلب کرنے کی یہ کوشش فرقہ واریت کی گھناونی سازش ہے، جس کے مہروں کا پتہ چلانا ریاستی اداروں کا کام ہے۔ اگر اس آگ کو ابھی روک دیا گیا تو بہتر ہے، میرا چمن محفوظ رہے گا۔ یہ کس قدر سنگین مسئلہ ہے، ذرا ٹویٹر پر کل سے ٹاپ ٹرینڈز کو ہی ملاحظہ کر لیں۔ یہ پاکستان کا واحد بل ہوگا، جس کی مخالفت شیعہ، دیوبندی، اہلحدیث اور آزادی اظہار کے قائل سیکولر مل کر رہے ہیں۔ قانون دان اور علماء اسے مسترد کر رہے ہیں۔ صرف ایک تکفیری گروہ موجود ہے، جو داعشی نظریات کا حامل ہے، وہی اس کی حمایت کر رہا ہے۔


خبر کا کوڈ: 877010

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/877010/اسلام-دشمن-انسان-تکفیری-ایکٹ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org