2
0
Wednesday 29 Jul 2020 11:43

شہید عارف الحسینی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا

شہید عارف الحسینی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا
تحریر: سید ثاقب اکبر

شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی برسی کے دن قریب آرہے ہیں اور اس موقع پر ایک معروف استاد کی طرف منسوب یہ بیان سامنے آیا ہے کہ شہید حسینی جمہوریت کے میدان میں نہیں کودنا چاہتے تھے مگر دو شخصیات نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ ایک شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور دوسرے علامہ افتخار حسین نقوی امام خمینی ٹرسٹ والے۔ یہ بیان اسلامی تہذیب کے زیر عنوان تحریک بیداری کے ایک پیج پر موجود ہے۔ اس بیان کی صحت یا عدم صحت سے قطع نظر ہم چاہتے ہیں کہ تاریخ کا درست ریکارڈ سامنے آجائے۔ ایسا شخص شہید قائد کی پالیسیوں کے بارے میں بیان دینے کا مجاز نہیں ہوسکتا، جو ان کے دور قیادت میں ان کے ساتھ نہ رہا ہو۔ ہمیں یہ افتخار حاصل ہے کہ شہید قائد کے روز انتخاب سے لے کر ان کے یوم شہادت تک ہم ان کی جدوجہد کا حصہ رہے۔ فقط ان کی تائید نہیں کی بلکہ تمام سیاسی اور تنظیمی امور میں شب و روز ان کے ساتھ شریک رہے۔ لہذا ہم اس رائے اور نقطہ نظر کی تردید کرتے ہیں اور اسے غلط اور حقائق کے منافی قرار دیتے ہیں۔
 
کیا عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں، اس کے لیے تحریک کی طرف سے علماء اور اہم شخصیات کے نام ایک سوال نامہ جاری کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں اس دور کے بزرگ ترین علماء نے واشگاف الفاظ میں یہ لکھا کہ ہمیں ضرور انتخابی سیاست میں حصہ لینا چاہیے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرنا چاہیے۔ وہ سارے جوابات اکٹھے کیے گئے، جن کا خلاصہ راقم نے ”تحریک کا سیاسی سفر“ کے نام سے شائع ہونے والی اپنی کتاب میں شامل کیا۔ یہ کتاب سترہ اکتوبر 1987ء کو منصہ شہود پر آئی۔ اس کتاب میں تحریک کے دستور میں موجود سیاسی شقوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس میں قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر کے سیاسی موقف کا بھی تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ تحریک کے مرحلہ بہ مرحلہ اٹھائے جانے والے سیاسی اقدامات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کا آخری باب قرآن و سنت کانفرنس لاہور کے عنوان سے ہے، جس میں کانفرنس کے پس منظر، پیش رفت اور انعقاد کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس میں تحریک کے سیاسی منشور ہمارا راستہ کے حوالے سے بھی کچھ معلومات دی گئی ہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی شخص شہید کو کسی کام کے لیے مجبور کر سکتا تھا، یہ ایک ایسا بہتان ہے جو شہید کی زندگی کو تھوڑا بہت جاننے والا شخص بھی نہیں لگا سکتا۔ ہم مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتے ہیں: 1987ء میں مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والی قرآن و سنت کانفرنس کے بارے میں پہلے یہ طے کیا گیا تھا کہ یہ موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہوگی۔ بعد میں دیگر مقامات بھی زیر غور آئے، جن میں یونیورسٹی گراونڈ اور ناصر باغ بھی شامل ہیں۔ شہید قائد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ یہ کانفرنس مینار پاکستان پر منعقد کی جائے۔ ڈاکٹر محمد علی شہید کی رائے یہ تھی کہ اتنی وسیع جگہ ہم پر نہیں کرسکیں گے، جس سے کانفرنس کا اچھا تاثر قائم نہیں ہوگا۔ ہم لاہور میں ڈاکٹر محمد علی کے ساتھ مل کر شہید قائد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اپنے دلائل قائد محبوب کے سامنے رکھے، لیکن انھوں نے مصمم ارادے کے ساتھ ایک ہی جملہ فرمایا اور وہ یہ کہ ”یہ کانفرنس مینار پاکستان پر منعقد ہوگی۔“

راقم نے ایک نظم اس وقت کہی تھی، جب یہ رائے سامنے آئی کہ یہ کانفرنس موچی دروازہ باغ میں منعقد ہوگی۔ جب قائد نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ یہ کانفرنس بہر صورت مینار پاکستان پر منعقد ہوگی تو برادر مرحوم سید سہیل حیدر کے گھر سے موٹر سائیکل پر نکلتے ہوئے اور تحریک کے دفتر دو دیو سماج روڈ تک پہنچتے ہوئے راقم نے نئی نظم کہنا شروع کی، تاکہ ساتھیوں کے دل کو بڑھاوا ملے اور وہ کسی نئے فیصلے پر دل شکستہ نہ ہوں۔ یہ نظم تھی:
قرآن و سنت کانفرنس مینار پاکستان پر
حق والوں کی حکومت ہوگی سارے پاکستان پر

ہم جب دیو سماج روڈ پر پہنچے تو سارے کارکن منتظر تھے کہ ہم انھیں کیا فیصلہ سناتے ہیں، راقم نے دفتر میں پہنچ کر یہ نظم بلند آواز سے گنگا کر فیصلے کا اعلان کیا اور کارکنوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوگیا۔

یہ ایک واقعہ نہ تھا۔ ان کی پوری زندگی جہاں ایک طرف مشاورت سے عبارت تھی، وہاں "فاذا عزمت فتوکل علی اللہ" کا بھی نمونہ تھی۔ اس کی ایک اور بڑی مثال 6 جولائی 1985ء کو کوئٹہ سمیت ملک بھر میں کیے جانے والے مظاہرے بھی ہیں۔ تحریک کے اندر، تحریک کے منشور ”ہمارا راستہ“ کے خلاف اٹھنے والی بعض رجعت پسند آوازوں کا آپ نے جس حکمت اور جرات مندی سے سامنا کیا، وہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ ”ہمارا راستہ“ پاکستان میں پارٹی سسٹم کی بنیاد پر انتخابی سیاست کی حمایت کرتا ہے۔ یہ منشور شہید قائد کی طرف سے پاکستان میں سیاسی جدوجہد کا منشور ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ شہید کا تصور جمہوریت مغرب کے مادر پدر آزاد تصور جمہوریت سے مستعار نہ تھا بلکہ اسلام کے شورائی نظام کی پاکستانی حالات میں تعبیر نو تھا۔ شہید قائد کے حکم پر یہ منشور علامہ افتخار حسین نقوی نے قرآن و سنت کانفرنس میں پیش کیا اور اسے اخبارات کو بھی جاری کیا گیا، جنھوں نے نمایاں سرخیوں کے ساتھ اس کی خصوصیات کو شائع کیا۔ کئی اخبارات نے اس منشور کے کلر ایڈیشن شائع کیے۔ مذکورہ کتاب ”تحریک کا سیاسی سفر“، شہید قائد کی صدارت میں 18 اکتوبر 1987ء سکھر میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک میں متعدد افراد جن میں مولانا شرف الدین موسوی پیش پیش تھے، انتخابی سیاست کے حامی نہ تھے، تاہم انتخابی سیاست میں شرکت کا فیصلہ تحریک نے بھاری اکثریت آراء کی بنیاد پر کیا تھا اور اس راستے میں ہم نے کبھی بھی شہید قائد کے موقف میں ذرہ بھر ضعف نہیں دیکھا۔ ضعف کا لفظ تو ان کی زندگی میں کسی مرحلے پر بھی زیب نہیں دیتا۔ وہ عزم صمیم کا مجسمہ تھے، وہ ارادے میں پختہ اور ایمان میں قوی تھے۔ امام خمینی کے ساتھ ان کا ایسا اٹوٹ رشتہ تھا کہ ان کی شہادت پر امام خمینی نے اپنے پیغام میں کہا کہ مجھ سے میرا عزیز فرزند کھو گیا ہے۔ ان کے افکار کی امام نے ایسی بھرپور تائید فرمائی کہ کہا کہ ان کے افکار کو زندہ رکھو۔ اگر ان کے اقدامات اور افکار کو مشکوک بنا دیا جائے اور یہ ظاہر کیا جائے کہ وہ لوگوں کے مجبور کیے جانے پر فیصلہ کرتے تھے یا قدم اٹھاتے تھے تو اس کے منفی اثرات کا اندازہ کیجیے۔ اس درجے کا کوئی اور شخص پاکستان میں ہمارے پاس موجود نہیں کہ جس کے افکار کی علی الاطلاق امام خمینی نے تائید کی ہو۔
بنا کردند خوش رسمی بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
خبر کا کوڈ : 877310
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
bohat acha likha h salamat rahen
irshad nasir
Australia
ما شاء اللہ ثاقب اکبر صاحب، اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔
ہماری پیشکش