QR CodeQR Code

فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر؟

29 Jul 2020 18:27

اسلام ٹائمز: اس ملک میں امت مسلمہ کے اتحاد، وحدت، یکجہتی، اخوت اور بھائی چارگی کیلئے ہمارا کردارا روز روشن کی طرح عیاں ہے، ہمارا مکتب کسی کی بھی تکفیر کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی کسی کے بڑوں اور محترم شخصیات کی توہین کی اجازت دیتا ہے۔ ہاں ہم اپنے عقیدہ و عمل کے خود ذمہ دار ہیں، کس کو کیا سمجھیں، کس کو کون سے مقام پہ بٹھائیں اور کس کو اسکے کردار و عمل کی روشنی میں پرکھیں اور پہچانیں، یہ ہمارا اپنا داخلی معاملہ ہے، جس میں کسی کی مداخلت نہیں بنتی۔ ہر ایک کو اپنا عقیدہ پیارا ہے، ہر ایک اپنے عقیدہ پر عمل پیرا ہے اور اسے اپنے عقیدہ تک رہنا ہوگا، ورنہ یہ ملک اور اسکی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی اور قائد اعظم محمد علی جناح کا ویژن اور فکر و فلسفہ دفن ہو جائیگا۔ ہم ایسا ہرگز نہیں چاہتے اور نہ ہی ایسا ہونے دینگے۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر
irshadhnasir@gmail.com

اس وقت ایک بار پھر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آنے کو بے چین ہے اور اس کی ذمہ داری انتہائی متاسفانہ ایسے عناصر پر عائد ہوتی ہے، جن میں تکفیریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کو گھٹی میں ہی تکفیر پلائی گئی ہے اور ان کی عمارت کی بنیادیں ہی فرقہ واریت، قتل و غارت اور متعصب فکر و سوچ پر مبنی ہے۔ ان لوگوں نے اس سے قبل بھی اس پاک سرزمین کا چپہ چپہ بے گناہوں کے خون سے رنگین کیا ہے اور کچھ عرصہ ان کو کچھ دائروں میں پابند کیا گیا تھا، مگر ایک بار پھر یہ اپنی رسیاں چھڑوا کر راہ چلتوں کو کاٹنے کو دوڑ رہے ہیں۔ دو واقعات نے ہمارے ملک میں بہت سی بحثوں کو جنم دیا ہے، جس کا شکار ہر دوسرا شخص دکھائی دیتا ہے۔ پہلا واقعہ جلالی نامی بدبخت کا جناب سیدہ کائنات،د ختر رسول خدا، مادر حسنین کریمین بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے خلاف ناقابل برداشت بکواس کرنے کا تھا، جس پر مکتب اہلبیت کے پیروان اور عشق و مودت خاندان تطہیر رکھنے والوں نے بھرپور احتجاج کیا۔

میری مراد وہ شیعہ و سنی بزرگان، علماء، گدی نشین، مشائخ اہلسنت ہیں، جنہوں نے جلالی کو دجالی کہا اور اسے چیلنگ کیا کہ وہ سپریم کورٹ میں اپنی بات کا ثبوت دے۔ عوامی غیض و غضب کا یہ عالم ہے کہ لوگوں نے اس کو اہل سنت سے نکال دینے کا اعلان کیا ہے اور اس کی اپنی پارٹی کے کئی رہنمائوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ افسوس کہ یہ ملعون اپنی بات پر اڑا رہا اور بہت سے لوگوں کی طرح اس کے خلاف بعض وکلاء اور علماء میدان میں اترے اور اس کی گستاخی کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی، جس کے بعد اسے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کا فیصلہ تو اب عدالت ہی کرے گی، ہم بھی منتظر ہیں کہ عدالت اس پر کیا ری ایکشن دیتی ہے۔ اس سے قبل ہمارے بہت سے افراد پر خواہ مخواہ اور جھوٹی ایف آئی آرز درج کروا کر انہیں سزا دلوائی جاتی رہی ہے۔ اگر عدالت نے اس معاملہ میں عدل کے تقاضے پورے نہ کئے تو پیغمبر ختمی مرتبتۖ کی صاحبزادی کے دکھے دل کیساتھ رسالت مآب ۖ کیساتھ روز محشر اپنے مجرموں سے ضرور حساب چکائیں گی۔

دوسرا مسئلہ پنجاب اسمبلی میں ایک ایکٹ کا پاس کروانا ہے، جس کو ایک کالعدم گروہ کے نام بدل کر آنے والے ایم پی اے نے حکومتی جماعت کے اراکین کیساتھ مل کر پیش کیا اور سپیکر و دیگر کی ملی بھگت سے یہ بل پاس ہوگیا۔ اسے جب گورنر کے پاس دستخط کیلئے بھیجا گیا اور ہر طرف مبارک مبارک کی آوازیں آنے لگیں تو اس بل کے مندرجات نے چونکا دیا۔ ہماری قومی قیادت نے اسے سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے نامنظور کر دیا اور اعلیٰ اتھارٹیز سے ملاقاتیں کرکے اسے قانون کا درجہ بننے سے رکوا دیا۔ بل کی حساسیت اور اس سے معاشرے میں پڑنے والے منفی اثرات کو بھانپتے ہوئے حکومت نے شیعہ قیادتوں سے روابط کئے اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ ایکٹ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے کے باوجود قانون کا درجہ اس وقت تک حاصل نہیں کرسکے گا، جب تک اس میں ضروری ترامیم نہیں ہو جاتیں۔

ہمارے ملک کے بہت ہی جید صاحبان علم اور مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے اس بل کو اسلام و آئین پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا ہے، جبکہ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ ایسے بل جس پر ہزاروں اعتراضات و انتقاد موجود ہیں، اس بل کو محرم سے قبل بارہ کروڑ عوام کی نمائندہ صوبائی اسمبلی میں کیسے منظور کر لیا گیا۔ معروف عالم دین جناب جاوید احمد غامدی نے تو کھل کے کہہ دیا ہے کہ لوگوں کے دین و مذہب نیز عقائد کے فیصلے کرنے کا اختیار ریاست کے پاس نہیں ہے اور یہ کیا کہ کوئی بھی کتاب پبلش کرنی ہو تو اس کا مسودہ پہلے کوئی بیورو کریٹ منظوری دے گا۔ یہ علم دشمنی اور جہالت و تاریکی کو پھیلانا نہیں تو اور کیا کیا۔ ایک بیورو کریٹ کو کیا علم کہ دین میں عقیدہ کس چیز کا نام ہے، تاریخ اسلام کے نازک موضوعات جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں، ان پر کسی بیورو کریٹ کو کیا اتھارٹی حاصل ہوسکتی۔

یہ جو بل میں کہا جا رہا ہے کہ جہاں رسالت مآب ۖ کا نام نامی آئے، وہاں لازمی طور پر خاتم النبیین لکھا اور پڑھا جائے، اگر ایسا کرنا پڑے تو پھر ہر کتاب نئے سرے سے کمپوز ہو کر چھاپی جائے گی اور یہ جو قرآن مجید میں نام محمد ۖ آیا ہے، اس میں بھی کیا تبدیلی لائی جائے گی؟ اب اس حالت پہ ہنسیں یا روئیں۔؟ مبارک مبارک کی صدائیں لگانے والے چوہدھری پرویز الہیٰ نے تو جیسے اپنے تمام گناہ ہی بخشوا لئے۔ اس بل کو منظور کروا کر ان کی خوشی اور مبارک مبارک کے نعرے مختلف اطراف سے آنے والے ٹھوس اعتراضات کے بعد کچھ پھیکے سے پڑ گئے ہیں۔ اب انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ان سے کیسا کام نکالا گیا ہے، حالانکہ یہ خاندان سیاسی طور پر مات کھانے کا عادی نہیں ہے۔

عجیب ہے کہ اس بل اور مولوی جلالی والے مسئلہ میں بہت سے تکفیری سوچ اور مائنڈ سیٹ والے پہچانے گئے ہیں، وہ جو بظاہر بہت ہی نرم مزاج اور معتدل مانے جاتے تھے، ان کے اندر کا بغض اور تعصب بھی باہر آیا ہے، جبکہ بعض لوگوں کی نظر میں ہمیں یہ موقع بھی ملا ہے کہ اہلبیت عظام کی مظلومیت اور حقانیت و حق کا درست تعارف کروا سکیں اور اپنے عقیدہ کا اظہار کرسکیں، جیسے لاہور میں ہونے والی مجلس وحدت کی پریس کانفرنس میں بیان کیا گیا ہے، اس طرح کھل کر اپنا عقیدہ بیان کرنا بہت سے منافقین کو تیروں کی مانند چھبا ہے اور یہ لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ اپنے عقیدہ کو کھل کے بیان کرنا کوئی جرم نہیں، اس کا ہمیں مکمل حق حاصل ہے، ہم کسی کے عقیدہ پر تنقید یا تکفیر نہیں کرتے، اس کے باوجود بعض متعصب حضرات اسے فرقہ واریت کہہ رہے ہیں، جبکہ ہمارے بارے گلی گلی اور شہر شہر میں تکفیر کا اعلانیہ اظہار کیا جاتا ہے، وہاں کسی کو فرقہ واریت کی بو نہیں آتی، نہ کسی کا ایمان خطرے میں پڑتا ہے۔

اس ملک میں امت مسلمہ کے اتحاد، وحدت، یکجہتی، اخوت اور بھائی چارگی کیلئے ہمارا کردارا روز روشن کی طرح عیاں ہے، ہمارا مکتب کسی کی بھی تکفیر کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی کسی کے بڑوں اور محترم شخصیات کی توہین کی اجازت دیتا ہے۔ ہاں ہم اپنے عقیدہ و عمل کے خود ذمہ دار ہیں، کس کو کیا سمجھیں، کس کو کون سے مقام پہ بٹھائیں اور کس کو اس کے کردار و عمل کی روشنی میں پرکھیں اور پہچانیں، یہ ہمارا اپنا داخلی معاملہ ہے، جس میں کسی کی مداخلت نہیں بنتی۔ ہر ایک کو اپنا عقیدہ پیارا ہے، ہر ایک اپنے عقیدہ پر عمل پیرا ہے اور اسے اپنے عقیدہ تک رہنا ہوگا، ورنہ یہ ملک اور اس کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی اور قائد اعظم محمد علی جناح کا ویژن اور فکر و فلسفہ دفن ہو جائے گا۔ ہم ایسا ہرگز نہیں چاہتے اور نہ ہی ایسا ہونے دینگے۔


خبر کا کوڈ: 877415

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/877415/فرقہ-واریت-کا-جن-بوتل-سے-باہر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org