0
Thursday 30 Jul 2020 12:38

کورونا اور اقتصادی بحران

کورونا اور اقتصادی بحران
تحریر: عظمت علی
rascov205@gmail.com

2019ء کے آخری مہینہ میں تخلیق ہونے والا وائرس اس وقت عالمی وبا بن چکا ہے۔ بیماری کا مرکز چین کا شہر ووہان رہا ہے۔ وہیں سے اس کا جنم ہوا ہے۔ اوائل میں کسی نے اسے خطرہ کے طور پر نہیں جانا اور چین نے بھی اسے چمگادڑ، سانپ اور دیگر جانوروں سے جوڑ کر ہم انسانوں کو الگ تھلگ کر دیا۔ نئے سال کا جشن بھی خوب دھوم دھام سے منایا۔ کورونا کی موجودگی میں پوری دنیا آرام کا سانس لے رہی تھی۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ معمولی تصور کیا جانے والا وائرس نبض کائنات تک رسائی حاصل کر لے گا اور پوری دنیا میں شٹ ڈاؤن کی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔
یوںہی بیماریوں کی کمی نہ تھی کہ ایک اور بیماری نے کرہ ارض کو گھیر لیا۔ اس کی آمد سے رفتہ رفتہ رفتار کائنات سست پڑتی گئی۔ چین کا شہر ووہان، اس کا پہلا حملہ قرار پایا، لیکن چند ماہ کے وقفے میں اس نے پوری دنیا کو بری طرح متأثر کر دیا۔ راہ حل کی تلاش جاری ہے۔ فی الحال ماسک، ہاتھ دھونا، سماجی فاصلے اور بالآخر لاک ڈاؤن ہی بہترین راہ معالجہ مانا گیا ہے۔ جانے کتنی تدابیر اپنائی گئیں، لیکن ؎
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دوا تو مصرع کا حصہ ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی تک کورونا کی کوئی دوا ہی نہیں آئی ہے۔ صرف احتیاط پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ ہندوستان میں مہینوں سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ ملک میں سب سے پہلا کورونا کیس 30 جنوری 2020ء کو ملا۔ اس کے بعد یہ وائرس اپنی جگہ بناتا گیا۔ مارچ کے تیسرے ہفتہ میں ماہرین پر واضح ہو گیا تھا کہ کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے 24 مارچ کو وزیراعظم نریندر مودی نے ملکی سطح پر 21 روزہ لاک ڈاؤن لگانے کا اعلان کر دیا۔ امید کی جا رہی تھی کہ ہم تین ہفتے میں کورونا سے جنگ جیت جائیں گے، اسی طرح جیسے مہا بھارت کی جنگ فتح کی تھی، لیکن مدمقابل کچھ زیادہ قوی نکلا۔ اس لیے ملک میں مزید ڈاک لاؤن لگا دیا گیا۔ آج 30 جولائی کو لاک ڈاون کا 128 واں دن ہے۔ تقریباً دو ماہ تک تو کاروبار حیات بند رہا تھا اور صرف ضروریات زندگی ہی میسر تھیں۔ ایک سروے کے مطابق مارچ میں53 فی صد سے زائد کاروبار بند رہے ہیں۔

ایک طرف کورونا ہے تو دوسری طرف دولت کا بحران، کیوںکہ کاروبار پر تالے لگے ہوئے تھے اور فی زمانہ بھی کوئی خاص آمدنی کے ذرائع نہیں کھلے ہیں۔ کسی کے پاس پیسہ ہے ہی نہیں کہ وہ بازار میں نظر آئے اور یوں بھی سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھنا سب پر ضروری ہے۔ صرف ضروریات زندگی کے لیے ہی گھر سے باہر نکلنا ہے۔ ہم بھول بھی جائیں تو موبائل فون یاد دلا ہی دیتا ہے۔ اب بھلا حصول دولت کیوں کر ممکن ہو۔ حالات اتنے برے ہیں کہ بس جی رہے ہیں کسی طرح۔ جن کے پاس رہی سہی دولت بھی تھی، وہ بھی دھیرے دھیرے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی 5 مئی کی رپورٹ کے مطابق کوڈ۔۱۹کے سبب ملک میں بے روزگاری کی شرح 27.11 تک پہنچ چکی ہے۔ آج دو ماہ کے قریب ہونے کو ہیں، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بے روزگاری کی شرح کتنی زیادہ بڑھ چکی ہوگی۔

اس سے زیادہ افسوس ناک واقعہ یہ ہے کہ ملک میں کورونا مریضوں کی تعداد بھی بہت تیزی سے بڑ ھ رہی ہے۔ اس وقت 16 لاکھ کے قریب مثبت کیسیز ہیں۔ روزانہ کی شرح میں اس وقت کی سب سے زیادہ تعداد باون ہزار مریض کی رہی ہے۔ سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ کہ ابھی تک اس کی مرض کی کوئی دوا نہیں ہے اور محض احتیاطی تدابیر سے کام لیا جا رہا ہے۔ قابل تعجب یہ بھی کہ لوگ کورونا کی دوا کے بغیر صحت یاب بھی ہو رہے ہیں۔ اب دوا کب آئے گی اور یہ مرض کب ختم ہوگا، اس سلسلے میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ جب تک کوئی مؤثر دوا نہیں آتی، ملکی اقتصاد میں ترقی کی امید معنی ندارد۔ بے روزگاری کی شرح کے ساتھ ساتھ شرح اموات بھی بڑھتی رہے گی اور یوں عالمی آبادی میں کمی کی امید کی جا رہی ہے۔

کورونا ملک کی اقتصادیات کے لیے بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ لاک ڈاون میں کوئی خاص ذرائع کھلے نہیں ہیں۔ اس وقت نقل مکانی کے بیشتر وسائل موقوف ہیں۔ ریلوے اور ہوائی جہاز سمیت دیگر وسائل آمدنی پر بھی تالے لٹکے ہوئے ہیں، جو کہ ایک عظیم خسارہ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ صرف مارچ اور اپریل میں ملک میں سیاحتی نقصان تقریباً پندرہ ہزار کروڑ یعنی 2.1 بلین ڈالر رہا ہے۔ پہلے 21 دن کے لاک ڈاؤن میں روزانہ کی شرح سے 32000 کروڑ یعنی (4.5 بلین ڈالر) کا حکومتی نقصان ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اکیس روزہ لاک ڈاؤن میں کل 120 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ آزادی کے بعد سے سب سے بڑی اقتصادی گراوٹ کورونا کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ملکی اقتصاد کی کمر خمیدہ ہو رہی ہے۔ مقتدر حکومت کو اپنے عوام کو بھی سنبھالنا ہے، اس لیے اسے بھی دولت کی بہرصورت ضرورت ہے۔

جب ملکی خزانہ سمٹنے لگے یا اقتدار میں بیٹھے افراد دولت کی تقسیم سے ہاتھ کھینچنے لگیں تو اس وقت ایک ہی راستہ نظر آتا ہے۔ عالمی بینک سے مدد کا۔ عالمی بینک سے مدد کا مطلب آپ کا مقروض ہونا ہے۔ کسی بھی انسان کا مقروض ہونا نیم غلام ہونے کے مترادف ہے۔ جب ہم کسی کے مقروض ہوں گے تو اس کی باتیں بہرحال ہمارے نزدیک قابل احترام اور اس پر عمل کرنا ہماری مجبوری بھی ہوسکتا ہے۔ عالمی نظام واحد (NWO) کا نظریہ اس وقت بہت تیزی سے رفتار پکڑے ہوئے ہے اور یہ کورونا بہترین موقع ہے، اس کو جاری کرنے کا۔ اس لیے بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ کورونا عالمی نظام واحد کی جانب ایک بڑا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ بہرکیف، یہ عجیب بیماری ہے، جس کی شناخت کا اب تک کوئی معیار نہیں مقرر ہوا ہے اور نہ ہی دوا آئی ہے۔ مریضوں کی تعداد روزانہ تیزی سے بڑھ رہی۔ ایسے عالم میں ہمیں ہر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازم ہے اور ساتھ ہی ہم پر فرض ہو جاتا ہے کہ ہم معبود حقیقی سے مدد طلب کریں اور ملکی اقتصادیات کو پھر سے معمول پر لانے میں کوشاں ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 877486
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش