0
Friday 31 Jul 2020 06:40

مسلم بن عقیل، انقلاب کربلا کا ہراول دستہ

مسلم بن عقیل، انقلاب کربلا کا ہراول دستہ
تحریر: عظمت علی
rascov205@gmail.com

واقعہ کربلا کا آغاز یزید کی جانشینی کے اعلان سے ہی ہوگیا تھا۔ معاویہ نے اپنی موت کے بعد یزید کو تخت خلافت کے لیے منتخب کر دیا تھا۔ یزید کرسی خلافت پر متمکن ہوتے ہی مطالبہ بیعت کرنے لگا۔ لوگوں نے اس کی اطاعت قبول کرنا شروع کر دی، لیکن کردار کے سچے اور اسلام کے محافظ نے اس کی بیعت سے صریح انکار کر دیا۔ اس نے امام حسین علیہ السلام کے انکار بیعت پر قتل کا حکم صادر کیا ہوا تھا۔ اس لیے اندرونی خطرات اور بیرونی حالات سے موافقت کرکے آپ نے جانب مکہ ہجرت فرمائی اور وہاں چار ماہ سے زائد قیام کیا۔ اس مدت میں آپ نے متعدد بیانات میں بنی امیہ کے تشدد اور اسلام کی محافظت کی جانب لوگوں کو بلایا۔ آپ ایک بڑے فتنہ سے بچنے کے لیے لوگوں کو بیدار کر رہے تھے۔ اسی دوران اہل کوفہ نے آپ کے حمایت میں خطوط ارسال کرنا شروع کر دیئے۔ خطوط کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔ مکہ کے نامساعد حالات اور کوفہ کی ظاہری حمایت سبب بنی کہ آپ جوابی خطوط کے طور پر اپنے قابل اعتماد شخص جناب مسلم بن عقیل کو جانب کوفہ روانہ کر دیں۔

مسلم بن عقیل، حضرت عقیل کے فرزند تھے۔ جناب عقیل، حضرت ابو طالب کے فرزند۔ امام علی علیہ السلام، حضرت ابو طالب کے فرزند۔ امام حسین علیہ السلام، حضرت علی علیہ السلام کے فرزند۔ اس اعتبار سے جناب عقیل اور امیر المومنین کے والد محترم، حضرت ابو طالب ہوئے۔ اب رشتہ داری کے منظر سے دیکھا جائے تو جناب مسلم بن عقیل، امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی قرار پاتے ہیں۔ آپ کی پرورش خاندان اہل بیت میں ہوئی۔ آپ نے امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام سے بہت کچھ کسب فیض کیا۔ امام علی علیہ السلام کے دوران خلافت، جنگ صفین میں شریک جنگ رہے۔ امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ لشکر میمنہ میں دشمنوں سے نبرد آزما رہے۔ امام حسن علیہ السلا م کے زمانہ میں بھی امام کے خاص اصحاب میں شمار کئے جاتے تھے۔ امام دوم کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ راہی مکہ ہوگئے۔

مکہ میں امام نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کر دیا۔ نصف ماہ رمضان 60 ھ کو مخفیانہ طور سے جانب مدینہ روانہ ہوئے اور قیس بن مسہر صیداوی، عبدالرحمان بن کدن ارحبی اور عمارہ بن عبید سلولی کو اپنا ہم سفر بنایا۔ مدینہ پہنچنے پر مسجد نبی میں دو رکعت نماز ادا کی۔ نصف شب میں اپنے اقرباء کے یہاں گئے اور ان سے رخصت آخر لیا۔(تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ؍ ۵، ص؍ ۳۵۴) ساتھ ہی قیس عیلان قبیلہ کے دو افراد کو بطور رہنمائے سفر ساتھ لیا۔ رات ہی کو کوفہ کی راہ پکڑلی۔ شدت پیاس کے سبب راستہ میں ہی دونوں رہنمائے سفر کا انتقال ہوگیا۔ اس لیے آپ اور آپ کے ہمراہیوں کے لیے کوفہ تک رسائی بہت مشکل ہوگئی۔ آپ نے قیس بن مسہر کے وسیلہ امام کو راہ کی مشکلات سے آگاہ کیا۔ امام نے منفی جواب دیا اور سفر جاری رکھنے کی ہدایت دی۔ آپ 5 شوال کو داخل شہر ہوئے اور مختار ثقفی کے گھر میں قیام کیا۔

آپ کی آمد کی خبر سنتے ہی شیعیان اہل بیت کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور مسلم بن مسیب کے گھر میں نائب امام کی بیعت کا تانتا بندھ گیا۔ آپ نے امام حسین علیہ السلام کے متن خط کو پڑھا۔ لوگ امام کے شوق دیدار میں گریہ کناں ہوگئے۔ اس وقت عباس ابن ابی شبیب شاکری بلند ہوئے اور حمد الہیٰ بجالانے کے بعد کہا: میں لوگوں کی جانب سے کچھ نہیں کہتا اور مجھے علم نہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے، لیکن میں اپنے باطن سے آگاہ کر رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! جس وقت بھی مجھے آواز دیں گے، حاضر خدمت رہوں گا، تادم حیات آپ کی رکاب میں دشمنوں سے جنگ کرتا رہوں گا اور سوائے انعام حق کے کسی شے کا طالب نہیں رہوں گا۔ اس کے بعد حبیب ابن مظاہر اور سعید بن عبد اللہ حنفی بلند ہوئے اور عابس کی باتوں پر تائید لبیک کہا۔ پھر لوگوں نے بیعت شروع کی۔(الفتوح، ابن عاصم، ج ۵ ، ص۴۰۔ تاریخ طبری، ابوجعفر، ج ۵، ص ۳۵۵)

ابتدا میں بیعت کرنے والوں کی تعداد بارہ ہزار تھی، لیکن بہت تیزی سے تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ تعداد اٹھارہ ہزار تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد آپ نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور کوفہ آنے کی دعوت دی۔(البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج ۸، ص۱۶۳) جب حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو اس بات کا علم ہوا تو وہ مسجد گیا اور لوگوں کو فتنہ، خون ریزی اور یزید کی مخالفت سے منع کیا، مگر بنی امیہ کے بہی خواہوں کو یہ بات "نرمی کا برتاؤ" معلوم ہوئی۔ سو عبد اللہ بن مسلم بن سعید حضرمی بلند ہوا اور اس نے کمزوری کا الزام لگا کر یزید کو ایک خط لکھا اور سارے حالات سے باخبر کر دیا۔ یزید نے معاویہ کے غلام سرجون سے مشور ہ لے کر عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ روانہ کر دیا اور کوفہ کی حکومت اس کے ہاتھ میں دیدی۔ اسی طرح اس کو فرمان دیا کہ مسلم کو ایک "گمشدہ مہرہ" کی مانند تلاش کرو اور جس وقت بھی ہاتھ آجائے، اسے قتل کر دو اور اس کے سر کو یزید کے پاس بھیج دو۔(مناقب آل ابوطالب، ابن شہر آشوب، ج ۳، ص۲۴۲)

عبیداللہ ابن زیاد جب کوفہ کے قریب پہنچا تو انتظار کیا، تاکہ فضا میں تاریکی چھا جائے۔ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں شہر میں داخل ہوا کہ اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا اور وہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھا۔ اُس راہ سے داخل ہوا، جہاں سے اہل حجاز آتے ہیں۔ یہ چال اس لیے تھی تاکہ لوگوں کو چکمہ دے سکے کہ وہ حسین بن علی ہے۔ اہلیان کوفہ امام حسین علیہ السلام کے منتظر تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ یہ حضرت امام حسین ؑ ہی ہیں۔ خوشیاں منانے لگے اور سلام کا تسلسل بندھ گیا اور وہ کہتے: اے فرزند رسول! مرحبا! ہم آپ کے حامی و مددگار ہیں اور ہماری تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے۔ لوگ اس کے گھوڑے کے گرد ریلا لگائے ہوئے تھے۔ اسی دوران عبید اللہ مجبور ہوا کہ کچھ بولے۔ زبان کھولنا تھا کہ ایک شخص نے اس کی آواز پہچان لی اور کہا: خدائے کعبہ کی قسم! یہ ابن زیاد ہے۔۔۔۔ بہرکیف، دیر سے ہی سہی سارا پردہ فاش ہوگیا کہ ابن زیاد کوفہ کا حاکم مقرر ہوچکا ہے۔ اس نے آتے ہی مکمل دہشت پھیلا دی اور حکومتی ہرکاروں کو جاسوسی پر مقرر کر دیا۔ اس وجہ سے جناب مسلم کو رات ہی میں سالم بن مسیب کے یہاں سے نقل مکانی کرکے ہانی بن عروہ کے مکان جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ اب لوگوں نے آپ کے یہاں بیعت شروع کر دی۔

مسلم بن عقیل کا عزم تھا کہ ابن زیاد کے خلاف قیام کریں، لیکن ہانی نے کہا: جلدی نہ کریں۔(الفتوح، ابن اعثم، ج ۵، ص۴۱) جناب مسلم نے دوبارہ عباس بن ابی شبیب کے ذریعے امام کے نام خط لکھا اور کہا: نامہ بر جھوٹ نہیں بول رہا ہے۔ اٹھارہ ہزار لوگوں نے میرے ہاتھوں پر بیعت کی ہے۔ جس وقت بھی میرا خط ملے، تیزی سے میری طرف آجائیں۔ تمام لوگ آپ کے ساتھ ہیں اور قلبی طور پر بھی خاندان معاویہ سے کوئی رغبت و دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔(تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ۵، ص۳۷۵) یہ خط آپ کی شہادت سے 28 روز پہلے، ذی قعدہ کے آخری ایام میں امام حسین علیہ السلام تک پہنچا۔(البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج۸، ص۱۷۰) ابن زیاد نے اپنے غلام "معقل" کو لوگوں کے درمیان اتار دیا۔ وہ مسجد کوفہ گیا اور مسلم بن عقیل کے قریبی فرد مسلم بن عوسجہ سے آشنائی حاصل کرلی اور رفتہ رفتہ دوستوں کی نشست میں شناسائی حاصل کرنے لگا۔

اس نے ابو ثمامہ صائدی کو اموال کی جمع آوری اور اسلحہ کی خریداری کے لیے تین ہزار درہم بھی دیئے۔ اس طرح وہ مسلسل ان خبروں کو ابن زیاد تک منتقل کرتا رہا۔(ارشاد، شیخ مفید، ج ۲، ص ۴۸) ادھر دوسری سمت "مالک بن یربوع" نے "عبداللہ بن یقطر" سے لیے خط کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا۔ اس خط میں جناب مسلم نے لوگوں کی بیعت کے احوال لکھے تھے اور امام کو جلد آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ اس کے بعد ہی ابن زیاد نے ہانی کو دارالامارہ بلوا لیا۔ اس نے ہانی سے کہا: اپنے گھر میں مسلم کو پناہ دی ہوئی ہے اور اس کے لیے اسلحہ اور لوگوں کو جمع کر رہے ہو۔ اس پر گمان ہے کہ یہ سب ہم سے مخفی رہے۔(مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب م ج ۳، ص ۲۴۳) ہانی بن عروہ نے جواب دیا: اپنے خاندان کو اٹھاؤ اور شام چلے جاؤ۔ وہیں زندگی بسر کرنا، چونکہ تجھ اور یزید سے بہتر کی یہاں آمد ہوچکی ہے۔ اس جواب کو سن کر ابن زیاد سیخ پا ہوگیا اور آپ کو زد و کوب کرنے لگا۔ اس کے بعد زندان کے حوالہ کر دیا۔

یہ المناک خبر جناب مسلم کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ آپ چار ہزار شیعوں کے ساتھ اٹھے اور دارالامارہ کی جانب بڑھ گئے۔ عبد اللہ بن حازم نے "یا منصور امۃ" کا نعرہ لگایا۔ اسی نعرہ کے ساتھ لوگ دارالامارہ کی جانب بڑھنے لگے۔ ابن زیاد کو مسلم کی آمد کی خبر مل گئی۔ وہ مسجد کوفہ میں لوگوں کو اطاعت یزید کی جانب ورغلا رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے یہ خبر سنی، تیزی سے دارالامارہ کی جانب دوڑا اور محل میں خود کو قید کر لیا۔ محل کے اندر تیس سپاہی، بیس بزرگان کوفہ اور ابن زیاد کا خاندان موجود تھا۔(تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ۵، ص ۳۴۸۔۳۶۹، البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج ۸، ص ۱۶۶، الامامہ والسیاسہ، ابن قتیبہ، ج ۲، ص۸) مسلم نے قصر دارالامارہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ عبید اللہ بالائے محل پر چلا آیا تھا۔ لوگ اس کو دیکھتے اور اس پر پتھر پھینکتے اور اس کے باپ کو زیادہ برا کہتے۔ اس نے جناب مسلم کو گھیرنے کی سازش رچائی۔ کثیر بن شہاب حارثی کو "باب الرومیین" سے باہر نکالا اور یہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مل کر جناب مسلم کے ساتھیوں کے درمیان رخنہ انداز ی کرنے لگے۔ انہیں حاکم وقت کی سلاخوں سے خوف دلانے لگے۔

دوسری جانب محمد بن اشعث اپنے ہرکاروں کو لیے پرچم امان بلند کئے ہوئے تھا اور لوگوں کو جنگ نہ کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس طرح دونوں جانب سے مجمع کو بٹور لیا گیا اور خوف نے جناب مسلم کے ہمراہیوں کو گھر میں ہی قید کر لیا۔ کتنوں کو حاکم وقت نے زنجیر بھی پہنائی۔ رات کے وقت چار ہزار سپاہیوں میں سے صرف تین سو افراد بچے اور نماز کے بعد صرف تیس آدمی۔ مسلم بن عقیل مسجد سے باہر نکلے۔ ایک کوچہ تک تو دس آدمی ساتھ رہے۔ اس کے بعد سب کے سب ندارد۔ اب جناب مسلم کوفہ کی گلیوں میں گردش لگاتے محلہ بنی جبلہ میں پہنچے۔ ایک گھر کے سامنے کھڑے ہوئے اور طلب آب کیا۔ طوعہ نامی ایک ضعیف عورت گھر سے نکلی اور اس نے تشنگی بجھائی۔ آپ وہیں کھڑے رہے۔ سوالات و جوابات کے تبادلہ نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ اب آپ طوعہ کے گھر میں ٹھہر گئے۔ اس ضعیفہ کا لڑکا "بلال" جب گھر آیا تو اسے آپ کے قیام کی خبر ہوگئی۔ ماں کی حکم عدولی کرتے ہوئے اس نے صبح کو عبدالرحمن بن اشعث کے سامنے سارے راز اگل دیئے۔

عبد الرحمن نے بھی قصر دارلامارہ میں بیٹھے اپنے باپ کو بتا دیا۔ اس کے بعد یہ خبر ابن زیاد کو معلوم ہوگئی۔ اس نے مختلف روایات کی بنا پر، ساٹھ، ستر یا تین سو سپاہیوں کو محمد ابن اشعث کے ہمراہ طوعہ کے گھر روانہ کر دیا۔ گھوڑوں اور فوجیوں کی آواز نے بتا دیا کہ آپ کی گرفتاری کا ارادہ ہے۔ آپ نے اپنے گھوڑے کو آمادہ کیا۔ لجام کسی، زرہ زیب تن کی، سر پر عمامہ رکھا اور ہاتھ میں تلوار لیے راہ خدا میں جہاد کے لیے نکل پڑے۔ لشکر گھر میں داخل ہوگیا۔ آپ کو مجبوراً گھر میں ہی دفاع کرنا پڑا اور آپ نے زور بازو سے ان کو گھر سے باہر نکال پھینکا۔ جب جنگ شدت پر آئی تو آپ کئی ایک کو واصل جہنم کرچکے تھے۔ اب سپاہیوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ ابن اشعث نے مزید فوج کا مطالبہ کر لیا۔ ابن زیاد کے ہواس، باختہ ہوگئے کہ میں نے صرف ایک آدمی کی گرفتاری کے لیے اتنوں کو بھیجا ہے۔ اس نے امان نامہ کی تجویز پیش کی۔ جناب مسلم نے صریحی انکار کر دیا۔ جب سارے حربے ناکام ہوگئے تو سب نے مل کر ایک ساتھ حملہ کر دیا اور ابن زیاد کے بہی خواہوں نے آپ کو گرفتار کرلیا۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے موتی کی لڑیا جدا ہو رہی تھی۔ موت کے خوف سے نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے کوفہ آنے کے سبب۔

ابن زیاد نے آپ کے قتل کی ذمہ داری ابن حمران کو دی ہوئی تھی۔ یہ وہی شخص تھا جس کو آپ نے (کاری) ضرب لگائی تھی۔ بُکیر، جناب مسلم بن عقیل کو بالائے محل لے گیا۔ آپ کے سر کو تن سے جدا کر دیا اور جسم کو قصر کے باہر گرا دیا۔ آپ کے سر کو ہانی بن عروہ کے سر کے ساتھ شام بھیج دیا گیا۔ یزید نے حکم دیا کہ دمشق کے بارہ دروازوں میں سے کسی ایک دروازے پر لٹکا دیں۔(الفتوح، ابن عاثم، ج ۵، ص۶۲) آپ کے جسم کو بازار قصاب میں زمین پر کھینچا جاتا رہا۔ تین دن بعد نماز جنازہ ادا ہوئی اور دارالامارہ کے قریب دفن کر دیا گیا۔ تاریخ نے بتایا کہ ابن زیاد چاہتا تھا کہ شیعوں پر نگاہ رکھے، اس لیے اپنے محل کے قریب قبر بنوائی، یا یہ کہ انہیں ماتم اور سوگ و عزا سے دور رکھے۔ اس لیے دفن کے لیے اس جگہ کا اہتمام کیا۔ ماہ شعبان سن ۶۵ھ میں مختار ثقفی کے حکم سے آپ کی قبر پر عمارت تعمیر ہوئی اور سنگ مرمر سے اس کا گنبد مزین کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف عہد میں اس کی جدید تعمیرات ہوتی رہی ہیں اور اس وقت کوفہ میں آپ کا عالی شان روضہ دشمنوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 877631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش