QR CodeQR Code

​​​​​​​امام خمینی کے افکار و نظریات میں خارجہ سیاست(1)

1 Aug 2020 07:59

اسلام ٹائمز: خارجہ سیاست میں امام خمینی کا نظریہ صرف عدم تسلط پسندی اور عدم تسلط پذیری پر ہی موقوف نہیں بلکہ آپکے نظریات سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف تسلط پسندی اور تسلط پذیری کیخلاف ہیں بلکہ سامراجی اور استعماری طاقتوں کے باطل نظاموں کو چیلنج کرنے اور انہیں راہ راست پر لانے کی تاکید بھی کرتے ہیں۔ آپ دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کیلئے بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنے کو بھی ضروری گردانتے ہیں۔ امام خمینی اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری اور فریضہ یہ ہے کہ ظلم سے مقابلہ کریں۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد عالمی سیاست میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بعض نئے معیارات اور پروٹوکولز متعارف کرائے گئے۔ امام خمینی کی نگاہ میں ایک اسلامی ملک کی خارجہ پالیسی کیسی ہونی چاہیئے، اس بارے میں درج ذیل مضمون میں جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی ملک، نظام یا انقلاب کی خارجہ پالیسی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا تنہا اور سب سے کٹ کر رہنے کی دنیا نہیں ہے۔ تجارت سے لے کر ثقافت تک مختلف ممالک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے، باہمی تعلقات اور روابط کے بغیر اس کائنات میں زندگی ناممکن نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے نطاموں اور نطریاتی انقلابوں نے اپنی خارجہ پالیسی کے باقاعدہ خطوط متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے نعروں اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب بھی الہیٰ اور آسمانی نظریات کے ساتھ عالم سیاست میں طلوع ہوا، لہذا اس کی خارجہ پالیسی کے خدوخال کا واضح ہونا نہایت اہمیت کا حامل تھا۔

یہی وجہ ہے کہ بانی انقلاب اسلامی نے انقلاب سے پہلے، انقلابی سرگرمیوں کے دوران اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے مختلف مواقع پر اسلامی انقلاب اور ایران کی اسلامی حکومت کی خارجہ پالیسی کے خدوخال کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے کی ایران کی خارجہ پالیسی اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد کی خارجہ پالیسی میں جو نمایاں تبدیلی آئی، اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ امام خمینی کی خارجہ سیاست کی بنیاد اور اساس عدم تسلط پسندی اور ظلم و ستم کو قبول نہ کرنے پر استوار ہے۔ وہ نہ تسلط کو پسند کرتے تھے اور نہ کسی پر مسلط ہونے کو اچھا سمجھتے تھے۔ امام خمینی کے افکار و نظریات کی بنیاد و اساس چونکہ قرآن و اسلام ہے، لہذا آپ کی خارجہ پالیسی سے متعلق نظریات بھی قرآنی اور اسلامی بنیادوں پر استوار ہیں۔ آپ عالمی سیاست میں مساوات، برابری اور پرامن بقائے باہمی کے نظریئے پر کاربند نظر آتے ہیں۔

امام خمینی اس حوالے سے فرماتے ہیں "اسلام ایک مکتب ہے اور ہم ایسے مکتب کے پیروکار ہیں، جو "لاتظلمون و لاتظلموں" یعنی نہ ظلم کرو، نہ ظلم سہو کے دو نکاتی اصول پر قائم و دائم ہے۔ آپ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ اہم ترین اصول یہ ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے زیر تسلط نہیں ہونا چاہیئے اور تسلط کو قبول بھی نہیں کرنا چاہیئے۔ خداوند عالم نے کسی کافر کو مسلمان پر مسلط نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو بھی اس تسلط کو قبول نہیں کرنا چاہیئے۔ قرآن کی آیات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے کفار کے لیے یہ راستہ ہی نہیں کھولا ہے کہ وہ مسلمانوں پر تسلط پیدا کر لیں۔ سورہ مبارکہ نساء کی آیت نمبر 41 میں ارشاد ہوتا "اور اللہ تمھارے دشمنوں کو خوب جاتنا ہے اور وہ تمھاری سرپرستی اور مدد کے لیے کافی ہے۔" امام خمینی اس قرآنی فکر کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی میں طاغوت کے تسلط کو سختی سے مسترد کرتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ایران کے آئین کے آرٹیکل دو کی ذیلی شق چ میں آیا ہے کہ ایران ہر طرح کی ستم گری، ستم کشی اور تسلط پسندی کو مسترد کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 153 میں بھی آیا ہے کہ کسی بھی ملک سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جا سکتا، جس میں دوسروں کا تسلط اور ملک کے ذخائر کسی اور طاقت کے قبضے میں جانے کا امکان ہو۔ خارجہ سیاست میں امام خمینی کا نظریہ صرف عدم تسلط پسندی اور عدم تسلط پذیری پر ہی موقوف نہیں بلکہ آپ کے نظریات سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف تسلط پسندی اور تسلط پذیری کے خلاف ہیں بلکہ سامراجی اور استعماری طاقتوں کے باطل نظاموں کو چیلنج کرنے اور انہیں راہ راست پر لانے کی تاکید بھی کرتے ہیں۔ آپ دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنے کو بھی ضروری گردانتے ہیں۔ امام خمینی اس حوالے سے فرماتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری اور فریضہ یہ ہے کہ ظلم سے مقابلہ کریں۔

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو بیرونی اور عالمی سیاست میں بارہا اعلان کیا ہے کہ دنیا میں اسلام کے پھیلائو اور عالمی خونخواروں کے تسلط کے خاتمے کے خواہشمند تھے اور اب بھی ہیں۔ امام خمینی نے عالمی سامراج کے خلاف قیام اور ظلم و ناانصافی سے مقابلہ کا نظریہ اسلامی اور ایرانی ثقافت سے لیا ہے۔ ظلم سے مقابلہ اور عدل و انصاف کے لیے قیام ایرانی ثقافت میں ایک اہم اہمیت کا حامل ہے اور اسے ایران کی شناخت اور پہچان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ظلم و ناانصافی کے خلاف قیام اور مبارزہ اسلامی تعلیمات کی بنیادوں میں بھی موجود ہے۔ قرآن پاک کی بہت سے آیات میں اس کا وضاحت کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔ سورہ حدید کی آیت نمبر 25 میں رسالت اور نبوت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک دنیا میں عدل و انصاف کا قیام بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی کے نظریات میں ظلم و ستم سے مقابلہ اور عدل و انصاف کا قیام صرف اندرونی مسائل اور سیاست میں نہیں بلکہ وہ اس کو عالمی سطح پر رائج کرنے پر یقین رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 877706

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/877706/امام-خمینی-کے-افکار-نظریات-میں-خارجہ-سیاست-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org