0
Wednesday 5 Aug 2020 18:26

مزار قائد شہید پر 32ویں برسی کا پروقار پروگرام

مزار قائد شہید پر 32ویں برسی کا پروقار پروگرام
رپورٹ: ایس این حسینی

قائد حریت، شہید ملت علامہ سید عارف حسین الحسینی آج سے ٹھیک 32 سال قبل آج ہی کے دن یزید وقت کے ظلم کا نشانہ بن کر ملت تشیع کو داغ مفارقت دے کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئے۔ قائد کی شہادت کیوجہ سے پیدا شدہ خلا آج تک پر نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے صرف چار سال کے معمولی عرصے میں شیعیان وطن کو جو پیار دیا اور انکے لئے جو کام کیا، اسی کی وجہ سے وہ آج تک بلکہ ہمیشہ کیلئے انکے دلوں میں زندہ و تابندہ رہیں گے۔ ان کی اس محبت کا جواب ہے کہ آج پورا ملک سوگوار ہے اور ملک کے کونے کونے میں شہید ملت کی یاد منائی جا رہی ہے۔ وطن عزیز کے ہر چھوٹے بڑے شہر، قصبہ اور گاؤں میں شہید ملت کی یاد میں جلسے اور جلوس تشکیل دیئے جاچکے ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ان کے آبائی علاقے اور مزار پیواڑ میں بھی برسی کا ایک عظیم اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام، علماء اور عمائدین نے شرکت کی۔ اجتماع سے تحریک حسینی کے سپریم لیڈر علامہ سید عابد الحسینی، صدر تحریک مولانا عابد حسین جعفری، سابق صدر تحریک مولانا یوسف حسین جعفری، سیکرٹری انجمن حسینیہ حاجی سردار حسین، ڈویژنل صدر آئی ایس او ثقلین عباس، صدر مجلس علماء علامہ سید محمد حسین طاہری، مولانا کوثر عباس اور دیگر نے خطاب کیا۔

برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ قائد شہید کے تمام قاتل اور سہولتکار اسی زمانے میں طشت از بام ہوچکے ہیں، تاہم آج تک قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا، نہ ہی اس کے پس پردہ ہاتھ طشت ازبام ہوئے۔ چنانچہ اصل قاتلوں کو سزائے موت کے علاوہ، اس کیس کے پس پردہ عوامل کو بھی فوراً منظر عام پر لایا جائے۔ مقررین نے کشمیر نیز بھارت میں موجود مسلمانوں کے حوالے سے یزیدِ وقت نریندر مودی کی ظالمانہ پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس ظلم پر عالم اسلام کی معنی خیز خاموشی کے علاوہ اپنے حکمرانوں کی مصلحت آمیز پالیسی اور خاموشی  قابل مذمت ہے۔ انہوں نے بالش خیل قوم کی جانب سے اپنے حقوق کے لئے جاری احتجاجی دھرنے کی مکمل طور پر حمایت کا اعلان کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ بالش خیل والوں کو ان کے جائز حقوق جلد از جلد دلائے جائیں۔

صدر تحریک حسینی نے زائرین کے حوالے سے زیرِ غور قانون سازی کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا کہ غیر مسلموں سے بڑھ کر اہل تشیع کے خلاف جاری ناروا پالیسیوں سے اجتناب برتا جائے، ورنہ سات کروڑ شیعوں کی مخالفت  انہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس ملک میں غیر مسلم سکھ یاتریوں کو ہر طرح کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں، جبکہ اہل تشیع سے جائز سہولیات کو چھینا جا رہا ہے۔ انہوں نے مختلف مواقع پر F.C کیجانب سے عوام پر گولیوں کی بوچھاڑ اور سٹریٹ فائرنگ کے واقعات کی بھی  پرزور مذمت کی اور کہا کہ ایف سی کے ہاتھوں قتل اور زخمی ہونے والے افراد کو معاوضہ ادا کرنے کے علاوہ قاتلین کو سزائے موت دی جائے۔

مقررین نےبالش خیل لڑائی کے بعد یک طرفہ طور پر کاٹی جانے والی ایف آئی آر کو بھی یک طرفہ اور تعصب پر مبنی قرار دیکر اس کی پرزور مذمت کی اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ ایف آئی آر کاٹنے والے متعصب ایس ایچ او کو قانون کے دائرے میں سزا دیتے ہوئے اسے اس کے منصب سے برطرف کریں۔ علمائے کرام نے شورکی امام باگاہ دھماکے، نیز پاراچنار میں ہونے والےحالیہ دو دھماکوں کے علاوہ گذشتہ تمام دھماکوں کے پیچھے کارفرما عوامل کو فوراً منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو فوری طور پر قرار واقعی سزا دی جائے۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی سے پاس کیے جانے والے بِل کو مکمل طور پر غیر اسلامی اور آئین پاکستان کے منافی قرار دیا اور اس کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکومت اور اعلیٰ ذمہ دار اداروں سے مطالبہ کیا کہ مبینہ طور پر فرقہ پرست، ملک دشمن اور دہشتگرد مولوی کے جال میں آکر آئین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والے ارکان صوبائی اسمبلی کی رکنیت فوری طور پر ختم کی جائے۔

مقررین نے کہا کہ الحمد للہ وہ سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ چنانچہ وہ دینی مقامات کا احترام اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت پاراچنار میں اہل سنت کی جامع مسجد اور دیگر دینی مراکز کا قومی سطح پر تحفظ ہے۔ تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدہ میں ان کی مساجد اور امام بارگاہ کی حفاظت تو کیا، انہیں غلاظت کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدہ میں امام بارگاہ کی تعمیر پر فوراً کام شروع کرکے حکومت اپنی ذمہ داری اور غیر جانبداری  کا ثبوت فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ بالش خیل، کنج علی زئی، نستی کوٹ، بوشھرہ، نری میلہ، لنڈیوان، گرام نیز پیواڑ سے لیکر شابک تک، کرم بھر کی تمام شاملاتی زمینوں کے حوالے سے موجود مسائل و تنازعات کا حل انتظامیہ کے پاس موجود ہے، تاہم وہ اسے حل کرنے میں تساہل سے کام لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام مسائل کو کاغذات مال کی روشنی میں فوری طور پر حل نہ کرایا گیا تو مقامی انتظامیہ کی جانب داری کے خلاف حکام بالا کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔

مقررین نے کہا کہ محکمہ ایجوکیشن، محکمہ مال، عدالت، لیوی فورس اور ایف سی وغیرہ میں بھرتیوں کے دوران میرٹ کی دھجیاں اڑا کر طوری بنگش اقوام کو نہایت تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور دیگر نان لوکل قبائل کو ان پر ترجیح دی جاتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت دیگر اضلاع کی طرح کرم میں بھی نسل اور فرقہ کی بجائے میرٹ کی بنیاد پر بھرتیوں کا سلسلہ بحال کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ ایجوکیشن میں ایٹا کے توسط سے سال کے شروع ہی سے تمام اضلاع میں تقرریاں ہوچکی ہیں۔ تاہم ڈسٹرکٹ کرم میں دیگر محکموں ہی کی طرز پر طوریوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے تقرریاں تعطل کا شکار ہیں۔ چنانچہ دوسرے اضلاع کی طرز پر یہاں بھی اسی پرانی تاریخ سے تقرریاں کرائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مواقع پر حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پاراچنار میں میڈیکل کالج اور ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے اعلانات ہوکر عوام کو امید دلائی گئی۔ تاہم اس پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں کرایا گیا۔ چنانچہ حکومت میڈیکل کالج کی منظوری نیز ہسپتال کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے فوری احکامات جاری کرکے اپنے اعلانات کو عملی جامہ پہنائے۔ نیز پاراچنار DHQ ہسپتال اور اس میں موجود ٹراما سنٹر اور دیہات میں موجود BHUز میں سٹاف کی کمی کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 878545
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش