QR CodeQR Code

مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیری صحافی کی زبانی(1)

6 Aug 2020 21:31

اسلام ٹائمز: قابض بھارتی انتظامیہ نے 24 اکتوبر 2019ء کو مقبوضہ کشمیر میں قائم سرکاری انسانی حقوق کمیشن، انفارمیشن کمیشن، تنازعات صارفین کا ازالہ کمیشن، بجلی ریگولیٹری کمیشن، خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قائم کمیشن، معذوروں سے متعلق کمیشن اور ریاستی احتساب کمیشن ختم کرنے کا حکمنامہ جار ی کر دیا گیا۔ 3 نومبر کو بھارتی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں نئے بھارتی سیاسی نقشے کی تفصیلات جاری کی گئیں۔ اس نئے نقشے میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان بھی مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کے حصے کے طور پر دکھائے گئے۔


تحریر: سید اسد عباس

بھارت پر حاکم انتہاء پسند ہندو جماعت بی جے پی نے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی راہ میں حائل بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 5 اگست 2019ء کو یعنی ایک برس قبل ختم کیا، اگرچہ یہ دفعات بھی کشمیریوں کے اطمینان کے لیے آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں، جو غیر قانونی ہی تھیں، تاہم اس سے کشمیر کے باسیوں کو کم از کم یہ تحفظ حاصل تھا کہ باہر سے کوئی ہندوستانی باشندہ آکر ان کی ریاست میں زمین نہیں خرید سکتا یا مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو بدلنے کا کوئی حربہ بروئے کار نہیں لایا جاسکتا ہے، تاہم اب ہندوستان کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ کشمیری باشندوں کے مطابق یہ بھارت کی طرف سے کشمیر میں 27 اکتوبر 1947ء کے بعد دوسری بڑی جارحیت تھی۔ یاد رہے کہ 27 اکتوبر 1947ء میں بھارت نے تقسیم ہند کے اصول کے منافی نیز کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس سرینگر کے ہوائی اڈے پر فوج اتار دی تھی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور ذیلی دفعہ 35 اے کے تحت ریاست جموں کشمیر کو ایک خصوصی درجہ حاصل تھا۔ ان دفعات کی وجہ سے غیر کشمیری علاقے میں زمین اور جائیدار نہیں خرید سکتے تھے اور نہ ہی یہاں سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے تھے۔ ان قراردادوں کے خاتمے کے بعد اب کشمیری مسلمانوں کا وجود، ان کی شناخت اور تہذیب شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ کشمیری تجزیہ کار پیرزادہ مدثر شفیع جیلانی کے مطابق نریندر مودی کی فسطائی حکومت اپنے مذموم ایجنڈے کو بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے اور اس نے گذشتہ ایک برس کے دوران مقبوضہ کشمیر میں جو اقدامات کیے، وہ اس کے آئندہ منصوبہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 31 اکتوبر 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کو سرکاری طور پر دو یونین ٹیری ٹریز(مرکز کے زیر انتظام علاقوں) میں تقسیم کیا گیا۔ سرینگر کے سول سیکرٹریٹ پر لہرانے والا کشمیر کا جھڈا لپیٹ دیا گیا اور اب وہاں صرف بھارت کا ترنگا لہرا رہا ہے۔ 31 اکتوبر ہی کے روز جی سی مرمو(گریش چندرا مرمر) نے سرینگر میں جموں و کشمیر کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ یہ وہی جی سی مرمو ہے، جو گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران میں نریندر مودی کا پرنسپل سیکرٹری تھا۔ گجرات کے مسلم کش فسادات میں جی سی مرمو کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں اسکی تعیناتی کشمیری مسلمانوں کے خلاف مودی کے مکروہ عزائم کا واضح پتہ دیتی ہے۔ 31 اکتوبر کو ہی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے آر کے متھرا نے لیہہ میں لداخ کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر حلف اٹھایا۔ اسی روز مقبوضہ کشمیر میں قائم تین ریڈیو سٹیشنوں کے نام کے ساتھ شامل کشمیر کا لفط ہٹا کر آل انڈیا ریڈیو سرینگر، جموں اور لیہ کا لاحقہ لگا دیا گیا۔ قبل ازیں ان تینوں سٹیشنوں کا نام ریڈیو کشمیر سرینگر، جموں اور لیہہ تھا۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے 24 اکتوبر 2019 کو مقبوضہ کشمیر میں قائم سرکاری انسانی حقوق کمیشن، انفارمیشن کمیشن، تنازعات صارفین کا ازالہ کمیشن، بجلی ریگولیٹری کمیشن، خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قائم کمیشن، معذوروں سے متعلق کمیشن اور ریاستی احتساب کمیشن ختم کرنے کا حکمنامہ جار ی کر دیا گیا۔ 3 نومبر کو بھارتی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں نئے بھارتی سیاسی نقشے کی تفصیلات جاری کی گئیں۔ اس نئے نقشے میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان بھی مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کے حصے کے طور پر دکھائے گئے۔

جلد ہی مقبوضہ علاقے میں موجود اہم مقامات اور عمارات کے نام تبدیل کرکے انہیں مختلف ہندو شخصیات کے ناموں سے منسوب کیا گیا۔ سرینگر کا کرکٹ سٹیڈیم جو شیخ محمد عبداللہ کے نام کی مناسبت سے شیر کشمیر سٹیڈیم کہلاتا تھا، کا نام بدل کر بھارت کے پہلے نائب وزیراعظم سردار ولبھ بھائی پٹل کے نام سے منسوب کیا گیا۔ شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر کا نام تبدیل کرکے صرف کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر رکھا گیا۔ شیخ عبداللہ کے یوم پیدائش اور تیرہ جولائی کو ہونے والی یوم شہدائے کشمیر کی تعطیلات بھی ختم کر دی گئیں۔ یہ وہی شیخ عبد اللہ ہے، جو بھارت کا معاون و مددگار تھا، تاہم اب بھارت کو اپنے اتحادی کا مسلم نام بھی برداشت نہیں ہے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھی مسلمان شخصیات سے منسوب اہم مقامات کے ناموں کو بدلا جا رہا ہے۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے ہر شعبے میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کیلئے رواں برس مارچ میں 37 مرکزی قوانین کا دائرہ کار مقبوضہ علاقے تک بڑھایا، ان میں وکلا ایکٹ 1961، سروسز ایکٹ1951ء، قدیم یادگاریں اور آثار قدیمہ ایکٹ1958ء، ثالثی اور مفادات کا ایکٹ1996ء، مردم شماری ایکٹ1948ء، مرکزی سامان اور خدمات ٹیکس ایکٹ2017ء، ضابطہ اخلاق 1908ء، ضابطہ فوجداری1973ء، شماریات کا مجموعہ2008ء، کمیشن آف انکوائری ایکٹ1952ء، فیملی کورٹس ایکٹ1984ء، گورئمنٹ سیکورٹریز ایکٹ2006ء، ہائی کورٹ ججز ایکٹ1954ء، انکم ٹیکس ایکٹ1961ء، ہندوستانی جنگل ایکٹ1927ء، قومی کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ کارپوریشن ایکٹ1962ء، سرکاری زبان ایکٹ1963ء، پریس کونسل ایکٹ 1978ء، پبلک ڈیبٹ ایکٹ1944ء، پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس ایکٹ1867ء، ریلوے پراپرٹی ایکٹ1966ء، رئیل اسٹیٹ ایکٹ2016ء، نمائندگی عوام ایکٹ 1950ء، حصول زمین، بحالی اور آبادکاری ایکٹ2013ء، ٹیکسٹائل کمیٹی ایکٹ1963ء کے علاوہ دیگر یکٹ شامل ہیں۔

رواں برس یکم اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں نیا ڈومیسائل قانون فافذ کیا گیا، جس کے مطابق وہ شخص جو جموں و کشمیر میں 15 برس تک رہائش پذیر رہا ہو یا علاقے میں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور یہاں کے کسی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم رہ کر دسویں یا بارھویں جماعت کے امتحانات پاس کیے ہوں، وہ یہاں کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا اہل ہے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اس نئے ڈومیسائل قانون کے تحت اب تک ایک لاکھ سے زائد غیر کشمیریوں کے حق میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کا اجراء کیا جاچکا ہے۔ ڈومیسائل سرٹیفکٹس جاری کرنے کا یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور اس حوالے سے آن لائن سہولت بھی میسر ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ علاقے میں اپنی حکومت تشکیل دینے کیلئے یہاں نئی انتخابی حد بندی بھی کرنے جا رہی ہے، جس کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا پرکاش ڈسائی کی سربراہی میں ایک حد بندی کمیشن قائم کیا گیا ہے۔

نئی انتخابی حد بندی کے ذریعے طاقت کا توازن مسلم اکثریتی وادی کشمیر سے جموں کی طرف موڑا جائے گا اور ہندو اکثریتی علاقوں کو اضافی انتخابی نشستیں دیکر بی جے پی کیلئے اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آنے کا راستہ ہموار کیا جائے گا۔ بی جے پی نئی انتخابی حد بندی کا یہ عمل شمال مشرقی ریاستوں آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ میں بھی انجام دینے جا رہی ہے، جہاں اس وقت بھارت سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 878777

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/878777/مقبوضہ-کشمیر-کے-موجودہ-حالات-کشمیری-صحافی-کی-زبانی-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org