0
Friday 7 Aug 2020 20:18

کراچی کو وفاق کے زیر انتظام اور حیدرآباد کو سندھ کا دارالخلافہ بنانے کی افواہ

کراچی کو وفاق کے زیر انتظام اور حیدرآباد کو سندھ کا دارالخلافہ بنانے کی افواہ
رپورٹ: ایم رضا

سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر ایک خبر زیر گردش ہے، جس کے مطابق کراچی ویژن 2050ء تیار کر لیا گیا ہے اور 2020ء سے 2050ء تک کراچی ماسٹر پلان کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ کراچی کو مستقل طور پر وفاق کے زیر کنٹرول رکھا جائے گا، فاٹا کی سینیٹ نشستیں ختم کرکے کراچی کو الاٹ کی جائیں گی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت پہلے مرحلے میں سندھ میں گورنر راج نافذ کرکے صوبائی حکومت کو  برطرف کرکے پولیس میں آئی جی سندھ سے لے کر ایس ایس پی اور کراچی کے تمام پولیس اسٹیشن کے عملے کو تبدیل کیا جائے گا، جس کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کرکے کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کرکے چیف ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جائے گا، سندھ اور کراچی میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے چھ مہینوں تک دفعہ 144 نافذ کرکے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے فوج کو تیار رکھا جائے گا، گورنر راج سے پہلے رینجرز اور ایف سی کے اضافی دستے کراچی اور سندھ  بھیجے جائیں گے، ریلی نکالنے، ہڑتال کرنے اور امن و امان خراب کرنے والے ملک دشمن، قوم پرست اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاریاں ہوں گی، قوم پرست رہنماؤں اور سرگرم قوم پرست کارکنوں کی لسٹیں تیار کرلی گئی ہے۔

اداروں کی جانب سے رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ قوم پرست بڑے پیمانے پر غیر سندھیوں پر حملہ آور ہوسکتے ہیں، اس لئے ان کے اوپر سخت نظر رکھی جائے۔ حکومت وفاقی بلدیاتی نظام نافذ کرے گی، کراچی میں District ختم کرکے 40 ٹاؤن اور 320 یونین کمیٹیاں بنائی جائیں گی، ہر سال وفاقی پول سے کراچی بلدیاتی حکومت کو 50 ارب روپیہ دیا جائے گا۔ تعلیم، صحت، پولیس، لینڈ اینڈ یوٹیلائزیشن، کسٹم ٹیکس اینڈ ریونیو، ساحلی کوسٹل ایریاز، معدنیات، کے ڈی اے، فشریز، انڈسٹریل ایریاز وفاق کے کنٹرول میں رہیں گے، اس کے علاوہ پانی، سیوریج، ٹریفک، ٹرانسپورٹ، پارک اینڈ گراؤنڈ، مارکیٹ، بازار، پارکنگ، سیاحت، سبزی منڈی، برساتی نالے، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، بلدیاتی حکومت میئر کراچی کے اختیارات اور کنٹرول میں دیئے جائیں گے۔ کراچی وفاق کے کنٹرول میں آنے کے بعد وفاقی حکومت کو 472 ارب روپے اضافی آمدنی ہوگی، ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہوگا۔

اربن اور رورل کوٹہ سسٹم ختم کرکے موجودہ وفاقی کوٹہ سسٹم لاگو کیا جائے گا، کراچی میں رورل کوٹہ سے نوکری حاصل کرنے والے ایک لاکھ ملازمین کو سندھ واپس بھیجا جائے گا، جس کے بعد کراچی سمیت ملک بھر کے نوجوانوں کو وفاقی کوٹہ پر روزگار کے نئے مواقع ملیں گے۔ کراچی کی حدود میں تحصیل میرپور ساکرو، کیٹی بندر، گڈانی، حب، مکمل شامل کر لئے جائیں گے، تھانہ بولا خان، ٹھٹہ تحصیل کا بڑا علاقہ بھی کراچی میں شامل کرکے گجو اور نوری آباد تک کا اضافہ کیا جائے گا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر وہاں دو نئے شہر بسائے جائیں گے۔ حب، دھابیجی اور نوری آباد میں ملک کے سب سے بڑے 3 انڈسٹریل زون اور میر پور ساکرو میں پورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جس سے 2030ء تک 10 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔ حب اور گڈانی تحصیلوں کو کراچی میں شامل کرنے کے بدلے بلوچستان حکومت کو 10 ارب دیئے جائیں گے، جہاں 12 لاکھ پلاٹوں پر مشتمل پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا، جس میں 2 لاکھ پلاٹ بلوچستان کے لئے رکھے جائیں گے۔

گڈانی بیچ کو انٹرنیشنل اسٹائل میں تبدیل کرنے کے لئے کمپنیوں سے دو مہینے پہلے ہی وفاقی حکومت رابطہ کرچکی ہے، کراچی ایم نائن موٹر وے پر ملک کا سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعمیر ہوگا جبکہ وفاقی حکومت پہلے ہی سمندر کے نزدیک بیراج بنانے کا اعلان کرچکی ہے، جہاں سے کراچی کو پانی دیا جائے گا، جبکہ موٹر وے پر بننے والی نئی آبادیوں کے لئے کینجھر جھیل سے پانی کی لائن بچھائی جائے گی۔ اس کے علاوہ کراچی کے دو جزیروں پر عالمی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ہانگ کانگ طرز کا جدید انٹرنیشنل شہر آباد کیا جائے گا، جس سلسلے میں کمپنیوں سے 50 ارب ڈالر کی ڈیل آخری مراحل میں ہے۔ لاہور اور فیصل آباد کے 325 سے زائد انڈسٹریل سرمایہ دار دابیجی نوری آباد اور حب انڈسٹریل زون میں 500 نئے کارخانے لگائیں گے، جبکہ انٹرنیشنل ملٹی نیشنل کمپنیاں اور دیگر ادارے تقریباً 56 ارب ڈالر انڈسٹریل زون میں انویسٹ کریں گے، موٹر وے ایجوکیشن سٹی میں نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی۔

دوسری جانب سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ جس طرح کی باتیں سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں، ایسا ہونا ناممکن ہے، کیونکہ سندھ کی آمدنی کا ستر فیصد سے زائد حصہ کراچی سے پورا ہوتا ہے، ایسا کرنے سے صوبہ میں لسانی و قوم پرست تحریکوں کو فائدہ ہوگا اور صوبے کی عوام میں مزید تفریق پیدا ہوگی۔ تاہم عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کو وفاق کے حوالے کرنا یا سندھ کے مکمل اختیار میں دینا دونوں ہی شہر کیلئے نقصان دہ ہیں، اس کا واحد حل یہ ہے کہ شہری حکومت کو مزید بااختیار بنا کر اسے فنڈز فراہم کئے جائیں، تاکہ شہر کے انفرااسٹکچر سمیت دیگر چیزوں پر کام کی رفتار کو تیز کیا جاسکے، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ بھی کراچی کے نوجوانوں کیلئے ضروری ہے، تاکہ اوپن میرٹ کے ذریعے کراچی کے نوجوانوں کو باعزت روزگار کی سہولیات میسر ہوں۔

اس حوالے سے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کی بہتری کے لئے اسے آئندہ 5 سال فوج کے انتظام میں دے دیا جائے۔ سابق صدر کراچی چیمبر سراج قاسم تیلی نے کہا ہے کہ 20 پچیس سال بعد وفاقی حکومت کا کراچی کے لئے کچھ اچھا کرنے کا عزم خوش آئند ہے، کیونکہ کراچی کو 90ء کی دہائی سے برسراقتدار سیاسی جماعتیں نظر انداز کرتی آرہی ہیں، جو شہر کی زبوں حالی کا سبب ہے۔ تاہم پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر کو تقسیم کرکے لڑائی کے نہ رکنے والے سلسلے کی بنیاد رکھی گئی ہے، یہاں 6 الگ انتظامیہ چل رہی ہیں، جن میں آپس میں رابطہ نہیں ہے، کراچی کو 2013ء کی پوزیشن پر دوبارہ بحال کیا جائے، آپ کو یونٹس بنانے ہیں تو پہلے جیسے 18 ٹاؤن بنانے ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 878797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش