QR CodeQR Code

مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیری صحافی کی زبانی(2)

7 Aug 2020 11:45

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اپنے دشمن کے اعتبار سے اب دو مسائل نہیں ہیں۔ فلسطین اور کشمیر میں قابض حکومتیں ایک دوسرے سے اتحاد کرچکی ہیں۔ اس غاصبانہ قبضے کیخلاف مقاومت کیلئے مسلمان قوتوں کو بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہم مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کے کردار پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ فلسطین کے مسئلے کو ہم نے قدرے فاصلے سے امت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا ہے، تاہم کشمیر دور کی بات نہیں ہے، یہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اس مسئلے کے حوالے سے خواب خرگوش سے نکل کر حقیقی اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ اب اسکی جنگ فقط بھارت سے نہیں بلکہ اسرائیل اور صیہونی لابی سے بھی ہے۔


تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
گذشتہ قسط میں ہم نے کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے گذشتہ ایک سال میں کیے گئے چند اقدامات کا تذکرہ کیا، درج ذیل تحریر انہی اقدامات کے بیان کا تسلسل ہے۔ معروف کشمیری صحافی پیرزادہ مدثر شفیع جیلانی کے مطابق قابض حکام نے حال ہی میں مقبوضہ علاقے میں ایک نئی تعمیراتی پالیسی کی بھی منظوری دی ہے، جس کے تحت کسی بھی علاقے کو ”اسٹریٹجک" نوعیت کا علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے، جہاں بھارتی فوج بلا رکاوٹ تعمیرات کرنے کے علاوہ دیگر سرگرمیاں انجام دے سکتی ہے اور اس کے لیے اسے انتظامیہ سے کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بھارتی حکومت بھارتی فوجیوں اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے غنڈوں کیلئے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر مکانات کی تعمیر کا بھی منصوبہ رکھتی ہے اور پہلے مرحلے میں مقبوضہ وادی میں دو لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مودی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں 37 نئے صنعتی یونٹوں کے قیام کیلئے یہاں ساڑھے نو ہزار سے زائد کنال کی اراضی قبضے میں لے لی ہے، جبکہ وہ ہندو سرمایہ کاروں کو مقبوضہ علاقے میں 20 ہزار کنال اراضی ایک روپے فی کنال کے حساب سے دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ہندو سرمایہ کاروں کو یہ زمین مقبوضہ وادی کے 18 چھوٹے بڑے قصبوں میں دی جائے گی جبکہ انہیں سرمایہ کاری کے لیے بنکوں سے آسان شرائط پر قرضے دلائے جائیں گے۔ ان ہندو سرمایہ کاروں کو پندرہ برسوں کے لیے ٹیکس کی چھوٹ جبکہ ان کی تیار کردہ مصنوعات پر پچاس فیصد جی ایس ٹی کی چھوٹ دی جائے گی۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے تاجروں کو گذشتہ ایک برس کے لاک ڈاﺅن نے پائی پائی کا محتاج بنا دیا گیا ہے، وہ بنکوں سے لیے گئے قرضوں تلے دب چکے ہیں اور قرضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وہ اپنی صنعتوں اور اس زمین جس پر ان کی یہ صنعتیں قائم ہیں، سے محروم ہو رہے ہیں۔

بھارتی سول سوسائٹی گروپ "دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک برس کے لاک ڈاﺅن نے مقبوضہ علاقے کی معیشت کو قریباً 40 ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار کر دیا ہے۔ رواں برس جون میں مقبوضہ علاقے میں ایک نئی میڈیا پالیسی نافذ کی گئی، جس کے تحت قابض انتظامیہ کو پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے مواد کی جانچ پڑتال کے وسیع اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت انتظامیہ خود اس بات کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی کہ کونسا صحافتی مواد قابل اشاعت ہے اور کونسا نہیں۔ اس پالیسی کا مقصد بھی بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی ایسا مواد جس میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی نشاندہی کی گئی ہو، وہ جعلی قرار پائے گا اور اسے شائع یا نشر نہیں ہونے دیا جائے گا۔

قابض بھارتی اہلکاروں کی طرف سے کشمیری صحافیوں کے ساتھ نارواسلوک کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں۔ وہ پرامن مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے دوران رپوٹروں اور فوٹو جرنلسٹوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے زبردستی روک دیتے ہیں، ان کے کیمرے چھین لیتے ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ قابض انتظامیہ نے بھارتی مظالم سے متعلق نیوز رپورٹس اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی پاداش میں رواں برس اپریل میں تین کشمیری صحافیوں گوہر گیلانی، مسرت زہراء اور پیرزادہ عاشق کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق کالے قانون ”یو اے پی اے ”Unlawful Activities (Prevention) Act“ کے تحت مقدمات درج کیے۔

گذشتہ برس پانچ اگست سے جاری بھارتی محاصرے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی اخباری صنعت بھی سخت تباہی سے دوچار ہے۔ کئی اردو اور انگریزی اخبارات اپنے صفحات محدود کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جبکہ اخبارات کے دفاتر میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین جن میں نیوز ایڈیٹرز، سب ایڈیٹرز، رپورٹرز، ڈیزائنرز وغیرہ شامل ہیں، بے روز گار ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ علاقے کے ٹراسپورٹرز بھی شدید بدحالی سے دوچار ہیں جبکہ شعبہ سیاحت بھی سخت دباﺅ میں ہے۔ شعبہ سیاحت سے وابستہ ہزاروں کشمیری اپنے اس ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تیز رفتار 4 جی انٹرنٹ کی مسلسل بندش کے باعث کشمیریوں خاص طور پر، صحافیوں طلباء، تاجروں، صنعتکاروں اور شعبہ طب سے وابستہ افراد کو بے انتہاء مشکلات کا سامنا ہے۔ طویل بھارتی فوجی محاصرے کی وجہ سے علاقے کا نظام تعلیم مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔

 مہلک وبا کورونا نے جب رواں برس کے آغاز میں پوری دنیا میں پنجے گاڑنے شروع کیے تو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جاری محاصرہ اور پابندیاں مارچ کے مہینے میں مزید سخت کر دیں۔ قابض بھارتی فورسز نے وبا کی آڑ میں مقبوضہ علاقے کے اطراف و اکناف میں محاصروں اور تلاشی کی نام نہاد کارروائیوں میں تیزی لاکر نہتے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ تیز کر دیا۔ قابض انتظامیہ ایک طرف کشمیریوں کو وبا سے بچاﺅ کے نام پر گھروں میں رہنے کیلئے کہہ رہی ہے، جبکہ دوسری طرف قابض اہلکار پورے علاقے میں دندناتے پھر رہے ہیں اور کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر مکینوں کو جنس و عمر کا لحاظ کیے بغیر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور قیمتی گھریلو اشیاء کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ”کشمیر میڈیا سروس“ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے گذشتہ ایک برس کے دوران محاصروں اور تلاشی کی نام نہاد کارروائیوں کے دوران 4 خواتین سمیت 214 کشمیریوں کو شہید کیا جبکہ گولیاں، پیلٹ چھرے اور آنسو گیس کے گولے داغ کر کم از کم 1 ہزار 3 سو 90 پرامن کشمیری مظاہرین زخمی کر دیئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران محاصروں اور تلاشی کی نام نہاد کارروائیوں کے دوران 946 مکانات اور دیگر عمارات کو تباہ کیا، جبکہ 84 خواتین کی بے حرمتی کی۔ قابض بھارتی فوجیوں نے گذشتہ ایک برس کے دوران 13 ہزار 6 سو 80 کشمیریوں کو گرفتار کیا۔

 پیرزادہ مدثر شفیع جیلانی کے بقول کسی ملک کی عدالتیں لوگوں کو انصاف کی فراہمی کی ضامن ہوتی ہیں، لیکن پانچ اگست 2019ء کے غیر قانونی اقدام سمیت کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم کرنے کے بھارتی حکومت کے مذموم عمل پر بھارتی سپریم کورٹ نے گذشتہ ایک برس کے دوران جو طرز عمل اپنائے رکھا، وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ انسانی حقوق کے کئی علمبرداروں، قانون دانوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور صحافیوں نے پانچ اگست کے غیر قانونی اقدام اور کشمیریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درجنوں درخواستیں دائر کیں، لیکن دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی تو ایک طرف یہ عدالتیں کشمیریوں کے محاصرے کے خاتمے اور بنیادی حقوق بحال کرانے کے حوالے سے بھی اب تک کوئی حکم جاری نہیں کرسکی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ طرز عمل اس بات کا بخوبی پتہ دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں بلکہ قطعی طور پر بی جے پی کے تابع فرمان ہے۔

 ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ نے مقبوضہ علاقے میں تحریک آزادی کی سرگرمیوں میں مصروف کشمیری نوجوانوں اور تحریک آزادی کے حامی کشمیری سرکاری ملازمین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں 44 نئے افسران کی تقرری عمل میں لائی ہے۔ ان نو تعینات شدہ افسران کو آزادی پسند کارکنوں اور سرکاری ملازمین کی شناخت کرکے ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت مقدمات درج کرنے، ان کی جائیدادیں ضبط کرنے اور ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کام کی انجام دہی کیلئے مقبوضہ کشمیر کی قابض انتظامیہ نے بھی چیف سیکرٹری بی وی آر سبرا منیم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

کشمیریوں پر مظالم کے حوالے سے ڈوگرہ دور کی مثالیں دی جاتی ہیں، تاہم بھارت اس جدید دور میں، جب انسانی حقوق کے حوالے سے ایک باضابطہ عالمی چارٹر اور اصول و ضوابط موجود ہیں، جس بہیمانہ انداز سے محکوم کشمیریوں کو تختہ مشق بنا رہا ہے، اس سے ڈوگرہ تو کیا ہلاکو اور چنگیز خان کے مظالم کی داستانیں بھی ماند پڑگئی ہیں۔ کشمیریوں کے تمام سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور معاشی حقوق اس وقت سلب ہیں۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت علاقے کی تمام بڑی بڑی مساجد، خانقاہیں، زیارت گاہیں اور امام بارگاہیں گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل بند اور انکے مینار اللہ اکبر کی صداﺅں سے محروم ہیں۔ قابض انتظامیہ نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور بزرگ حریت رہنماء سید علی گیلانی کو گذشتہ گیارہ برس سے گھر میں نظر بند کر رکھا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق پانچ اگست 2019ء سے گھر میں نظر بند ہیں جبکہ محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی اور دیگر مزاحمتی رہنماﺅں سمیت ہزاروں کشمیری جیلوں میں بند ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ کشمیر میں بالکل اسی طرز کے اقدامات کر رہی ہے، جو اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں کر رہا ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کے روابط اب خفیہ نہیں رہے، ان دونوں ممالک کے مابین انٹیلیجنس تعلقات تو ستر کی دہائی سے قائم ہیں، تاہم اب حکومتی سطح پر مختلف شعبہ جات میں معاہدوں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں فوجی معاہدے سب سے زیادہ ہیں۔ بھارت اسرائیلی اسلحہ کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔ کرگل جنگ کے بعد بھارت نے اسرائیل سے اربوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان خریدا، دونوں ممالک نے جدید ہتھیاروں کے بھی کئی ایک معاہدے کیے ہیں۔ جاسوسی کے آلات، تربیت، تزویراتی تعاون بھی دونوں ممالک کے مابین اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ ان ظاہری معاہدوں کے باوجود اسرائیل اور بھارت کے مابین کئی ایک خفیہ معاہدے بھی موجود ہیں۔ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اٹھائے جانے والے اقدامات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین اس حوالے سے ہم آہنگی ہے اور اسرائیل اپنے فلسطین کے تجربات سے ہندوستان کو مستفید کر رہا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے نہایت تشویشناک ہے، یقیناً پاکستان کے مقتدر ادارے اسرائیل اور ہندوستان کے بڑھتے ہوئے روابط سے آگاہ ہوں گے۔

مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اپنے دشمن کے اعتبار سے اب دو مسائل نہیں ہیں۔ فلسطین اور کشمیر میں قابض حکومتیں ایک دوسرے سے اتحاد کرچکی ہیں۔ اس غاصبانہ قبضے کے خلاف مقاومت کے لیے مسلمان قوتوں کو بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہم مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کے کردار پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ فلسطین کے مسئلے کو ہم نے قدرے فاصلے سے امت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا ہے، تاہم کشمیر دور کی بات نہیں ہے، یہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اس مسئلے کے حوالے سے خواب خرگوش سے نکل کر حقیقی اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ اب اس کی جنگ فقط بھارت سے نہیں بلکہ اسرائیل اور صیہونی لابی سے بھی ہے۔


خبر کا کوڈ: 878852

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/878852/مقبوضہ-کشمیر-کے-موجودہ-حالات-کشمیری-صحافی-کی-زبانی-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org