QR CodeQR Code

ولایت علی ؑ شہ رگ اسلام ہے

8 Aug 2020 22:57

اسلام ٹائمز: واقعہ غدیر خم اتنی عظیم اور تاریخی سچائی ہے، جسے علمائے شیعہ نے تواتر کیساتھ نقل کیا ہے۔ علمائے اہلسنت نے بھی بکثرت ذکر کیا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی اس سے واضح اور کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔ یوں تو سرکار ختمی مرتبت مختلف مقامات پر عظمت ِعلی کو وقتاً فوقتاً واضح کرتے رہے ہیں، لیکن آپکی حیات کا آخری حج، لاکھ حاجیوں کا مجمع، غدیر خم کا صحرا اور چلچلاتی دھوپ، یہ سب گواہ بن گئے کہ امام علی علیہ السلام ہی جانشین رسول ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے نہ صرف اسے وہیں تک محدود رکھا بلکہ اسکی اشاعت کا حکم دیا۔ باب عظمت میں یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ ولایت علی جیسے ہر مومن پر واجب ہے، ویسے ہی اسکی تبلیغ بھی لازم ہے۔ اسکا انکار تو بہرحال اور کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ اللہ ہم سب کو ولایت علی علیہ السلام سے ہمیشہ متمسک رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں مبلغ ولایت بنائے۔


تحریر: عظمت علی

توحید و رسالت کے بعد اہل تشیع کا سب سے اہم عقیدہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار ہے۔ اس ولایت کا تعلق حضرت رسول اسلامؐ کے آخری حج سے ہے۔ آنحضرت ذی قعدہ کے آخری عشرہ اور ہجرت کے دسویں برس، اللہ کے حکم سے خانہ الہیٰ کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ آپ نے لوگوں کو کعبہ کی زیارت کی اطلاع دی۔(اشاد، شیخ مفید، ص۹۱، اعلام الوریٰ، ص ۱۳۷، تاریخ اسلام ، ذہبی، بخش مغازی، صفحہ۷۰۱) آپ نے دیگر علاقوں میں بھی اپنے قاصد بھیجے، تاکہ وہ مومنین کو اس کار عبادت کی جانب دعوت دے سکیں۔ انہوں نے بھی بالکل ویسے ہی اطلاع رسانی کی، جیسا حکم رسول تھا کہ یہ آپ کا آخری حج ہے۔ یہ سفر خاص اہمیت کا حامل تھا، اس لیے جس شخص کے پاس سفر کی استطاعت تھی، اس نے آنحضرت کی ہمراہی کا شرف حاصل کرنے میں ذرہ بھر تامل نہ کیا۔ اس اعلان کے بعد مدینہ اور اطراف مدینہ کے مسلمین کا ایک عظیم اجتماع اکٹھا ہوگیا۔ تاریخ داں کے مطابق صرف شہر نبوت سے 70000 (ستر ہزار ) سے 120000(ایک لاکھ بیس ہزار) لوگ آپ کے ہمراہ تھے۔(تذکرہ خواص الامہ، ص ۳۰، سیر حلبیہ، جلد ۴، ص۳۰۸، سیرہ احمد زینی دحلان، جلد ۳، ص۳، احتجاج طبرسی، جلد۱، ص ۵۶، طبرسی نے آپ کے ہم سفر کی تعداد ستر ہزار یا اس اس سے زیادہ ذکر کی ہے)

اس کے بعد جیسے جیسے یہ قافلہ راہ سفر کو طے کرتا رہا، قافلہ کے گرد زائرین کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔ راہوں میں مختلف شہروں سے اور خود شہر مکہ سے ایک قابل ملاحظہ تعداد آپ کے ساتھ ہوگئی، تاکہ آپ کے ہمراہ مناسک حج انجام دے سکے۔ مورخین نے آپ کے اس سفر کو حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام، حجۃ البلاغ، حجۃ الکمال اور حجۃ التمام سے تعبیر کیا ہے۔ رسول اکرم ؐ،۲۴ یا ۲۵ ذی قعدہ، بروز دوشنبہ، غسل کرکے ننگے پاؤں اپنے اہل بیت اور اصحاب و مسلمین کی ایک عظیم جماعت کے ہمراہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب عازم سفر ہوئے۔ امام علی علیہ السلام اس وقت یمن میں تبلیغ الٰہی کے فرائض میں مشغول تھے، جب آپ کو اس سفر کی اطلاع ہوئی تو اہل یمن کے ہمراہ جانب مکہ چل دیئے اور مناسک حج کے آغاز سے قبل حضرت رسول اسلام ؐ سے ملحق ہوگئے۔(ارشاد؛ شیخ مفید، ص ۹۲، اعلام الوریٰ، صفحہ ۱۳۸، صحیح بخاری، جلد۲، باب:۱۸، حدیث۲، صفحہ ۱۵۹اور جلد:۳، کتاب العمرہ، باب عمرۃ التنعیم، صفحہ ۴۔ صحیح مسلم، جلد:۴، باب اہلال النبی و ہدیہ، حدیث اول، صفحہ: ۵۹، البدایہ و النہایہ، جلد:۵، صفحہ:۲۲۷، سیرہ حلبیہ، جلد:۳، صفحات: ۳۱۸، ۳۱۹ اور ۳۳۴)

اعمال حج تمام ہوئے اور آپ نے مکہ کو الوداع کہہ کر مدینہ کی راہ لی۔ درمیان راہ میں ایک مقام پر اللہ نے آپ پر وحی نازل کی۔ تاریخ نے اس مقام کا نام "غدیر خم" بتایا ہے۔ اہل لغت نے "غدیر" کے سلسلے سے تحریر کیا ہے کہ "غدیر پانی کا وہ گڑھا ہے، جہاں سیلاب ختم ہو جانے کے بعد اس کا پانی ٹھہرتا ہے اور کافی سرعت سے خشک ہو جاتا ہے۔"  غدیر، "فعیل" کے وزن پر ہے اور یہاں فعیل فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ یعنی (غادر یا غدار) اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ تالاب وقت ضرورت خشک ہو جاتا ہے اور تشنگان آب کی پیاس نہیں بجھاتا۔ غدیر خم ریگستان میں سیر حاصل زمین کا وہ علاقہ ہے، جہاں سے تین میل کے فاصلے پر "جحفہ" ہے، جہاں زمانہ جاہلیت میں خزاعہ اور کنانہ قبائل زندگی گزارتے تھے۔ "خُم" کے معنی بدبو کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غدیر خم کی آب و ہوا اتنی مکدر تھی کہ کوئی بھی بچہ وہان سن بلوغت تک زندہ نہیں رہ سکتا، مگر یہ کہ وہ کسی دوسری جگہ منتقل ہو جائے۔

جُحفہ، غرفہ کے وزن پر ہے۔ اس سے مراد آبادی کا وہ علاقہ ہے جو ساحل حجاز پر، رابغ کے جنوب مشرق، مکہ و مدینہ (خُلیص و بدر) کے درمیان واقع ہے، جو اپنی مکدور آب و ہوا سے مشہور ہے۔ شام، عراق اور مصر کے حاجی جو کہ پانی کی راہ سے یہاں پہنچتے تھے، کا میقات تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے اور اب حجاج کرام "مقام رابغ'' سے احرام باندھتے ہیں۔(قاموس؛ مجمع البحرین، المنجد؛ تہذیب الصحاح، اخبار مکہ، ارزقی، ج ۲، ص۳۱۰، حواشی سیرہ ابن ہشام ، ج۱، ص ۹) غدیر اور جحفہ کے مابین ۳۔۴ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور مکہ و جحفہ کے درمیان ۶۴ کلومیٹر کا۔ جحفہ سے مصر، مدینہ، عراق اور شام کی راہیں جدا ہوتی ہیں۔ غدیر خم تھوڑے سے پانی اور چند پرانے درختوں کے باعث کاروان کے لیے قیام گاہ بنا ہوا تھا، لیکن وہاں گرمی اپنی شدت پر رہتی تھی۔ (ابن خلکان نے وفیات الاعیان جلد:۵، ص :۲۳۱پر حامی سے نقل کیا ہے کہ: "وھذا لوادی موصوف بکثرۃ الوخامۃ و شدۃ الحر" یہ وادی شدت گرما کے باعث قابل سکونت نہ تھی۔)

جمعرات کے دن ۱۸ ذی الحجہ کو رسول اسلامؐ غدیر خم پہنچے۔ اس سے پہلے کہ مصر، شام اور عراق کے حجاج ایک دوسرے سے جدا ہوتے، جبرئیل امین پیغام الٰہی لے کر نازل ہوئے۔ "اے رسول! آپ اس حکم کو پہنچا دیں، جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔"(سورہ مائد ۶۷) اُس وقت جو حضرات آگے بڑھ گئے تھے اور جحفہ کے قریب پہنچ گئے تھے، انہیں واپس بلایا گیا اور جو پیچھے رہ گئے تھے، ان کی آمد کا انتظار کیا گیا، تاکہ سب یکجا ہو جائیں۔ ساتھ ہی آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ زمین کو ٹھہرنے کے لائق بنایا جائے۔ جو ادھر ادھر پتھر، خار اور ناہمواریاں ہیں، انہیں ہموار کیا جائے، تاکہ درخت کے سایہ میں ٹھہرا جاسکے۔ انہی سب مصروفیات میں وقت ظہر آن پہنچا۔ آپ نے شدید گرمی میں نماز ظہر کی امامت فرمائی۔ گرمی اتنی سخت تھی کہ حجاج کرام نے اپنی ردا اور لباس کو آفتاب اور ریت کی گرمی سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ اس طرح کہ تمازت آفتاب سے بچنے کے لیے لباس کا کچھ حصہ سر کے اوپر جبکہ ردا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے دبایا ہوا تھا، تاکہ آفتاب، ریت اور پتھر کی گرمی کو کم از کم کچھ کم کیا جاسکے۔("وکان یوما قائظا شدید الحر۔۔۔ان اکثرھم لیلف ردائہ تحت قدمیہ من شدۃ الرمضاء"(اعلام الوریٰ، صفحہ ۱۳۹)"وکان اکثرھم یشدالرداء علی قدمیہ من شدۃ الحر"(کشف الیقین، صفحہ: ۲۴۱))

رسول اسلام کے لیے بھی پرانے درخت کی ٹہنیوں پر کپڑا ڈالا گیا، تاکہ موجود گرمی اور حرارت آفتاب سے (کچھ حد تک) محفوظ رہا جاسکے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پالان شتر سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ کا آغاز کیا۔ لوگ آپ کے ارشادات کو سماعت کر رہے تھے اور جن تک آپ کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی، صحابہ کرام ہواؤں کو سفیر بنا کر اپنی آواز کو ان کے گوش گزار کرتے۔ اس طرح پیغام الٰہی تمام حضرات تک پہنچ جاتا۔ حمد الٰہی اور اللہ کی کثیر نعمات کے تذکرہ کے بعد آپ نے ایک مقام پر تمام حاجیوں سے سوال کیا: الست اولیٰ بکم من انفسکم؟
قالوا: بلیٰ۔
قال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ

کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق دار نہیں ہوں؟
سب نے عرض کیا: جی ہاں!
پھر آپ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، اس کے (یہ) علی مولیٰ ہیں۔ رسول اسلام نے اس جملہ کو تین دفعہ تکرار کیا۔
(اصول کافی، جلد:۱، ص: ۲۹۵۔۲۹۶، تذکرۃ الخواص الامہ، ص:۲۹، امالی شیخ طوسی، ص:۲۴۷، کشف الغمہ، جلد :ا ، ص:۵)

اور فرمایا: اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ وادرالحق معہ حیث دار۔ الافیبلغ الشاھد الغائب "اے اللہ! تو اسے دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ، جو علی کا دشمن ہو جائے۔"(سنن ابن ماجہ، باب فضائل اصحاب رسول خدا، باب فضائل علی ابن ابی طالب، جلد:۱، ص:۴۳، حدیث:۱۱۶۔ البدایہ والنہایہ، جلد:۷، ص:۲۸۶، صواعق محرقہ: باب:۹، صفحہ:۱۲۲، حدیث:۴) اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دے جو علی کو چھوڑ دے۔(مسند احمد بن حنبل، جلد:۱، ص:۱۱۸۔۱۱۹) اور حق اس جانب موڑ دے جدھر علی جائیں۔ اس کے بعد لوگوں سے فرمایا: اے لوگو! حاضرین، غیر حاضرین کے لیے اس پیغام کو حاضر کر دیں۔(کشف الغمہ، جلد:۱، ص:۵۰) ابھی لوگ اپنی جگہ پر موجود ہی تھے کہ جبرئیل دوبارہ نازل ہوئے اور فرمایا: "آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے۔"(سورہ مائدہ، آیت :۳)

اس وقت لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارک پیش کیں۔ درمیان صحابہ پیش پیش رہنے والوں میں خلیفہ اول و ثانی تھے۔ انہوں نے امام کو مبارک باد دی اور کہا: مبارک ہو! اے ابن ابی طالب! تم میرے اور ہر با ایمان مرد و زن کے مولیٰ ہوگئے۔ ((اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنۃ)تاریخ اسلام ، ذہبی، باب:عہد خلفا، صفحہ:۴۳۳ "بخ بخ یا ابن ابی طالب، اصبحت مولای و مولیٰ کل مسلم"(تاریخ بغداد، جلد:۸، صفحہ:۳۹۰)) اسی وقت بلند یاپہ شاعر حسان بن ثابت نے آخری نبی سے اذن کلام لیا۔ آپ نے اجازت عنایت فرمائی۔ انہوں نے شان ولایت میں قصیدہ پڑھا اور دنیا کے لیے جشن محفل اور شعرائے کرام کی راہیں واضح کر گئے۔ واقعہ غدیر خم اتنی عظیم اور تاریخی سچائی ہے، جسے علمائے شیعہ نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ علمائے اہل سنت نے بھی بکثرت ذکر کیا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی اس سے واضح اور کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔

یوں تو سرکار ختمی مرتبت مختلف مقامات پر عظمت ِعلی کو وقتاً فوقتاً واضح کرتے رہے ہیں، لیکن آپ کی حیات کا آخری حج، لاکھ حاجیوں کا مجمع، غدیر خم کا صحرا اور چلچلاتی دھوپ، یہ سب گواہ بن گئے کہ امام علی علیہ السلام ہی جانشین رسول ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے نہ صرف اسے وہیں تک محدود رکھا بلکہ اس کی اشاعت کا حکم دیا۔ باب عظمت میں یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ ولایت علی جیسے ہر مومن پر واجب ہے، ویسے ہی اس کی تبلیغ بھی لازم ہے۔ اس کا انکار تو بہرحال اور کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ اللہ ہم سب کو ولایت علی علیہ السلام سے ہمیشہ متمسک رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں مبلغ ولایت بنائے۔
 


خبر کا کوڈ: 879142

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/879142/ولایت-علی-شہ-رگ-اسلام-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org