0
Monday 10 Aug 2020 08:26

خطرناک وبا اور کوہالہ پُل

خطرناک وبا اور کوہالہ پُل
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

یہ ایک روحانی وبا ہے، یہ ایسی وبا ہے، جس کے زیادہ تر شکار دیندار لوگ ہوتے ہیں، پاکستان میں اس بیماری نے تقریباً ہر مذہبی تنظیم، دینی ٹرسٹ اور اسلامی شخصیت کو متاثر کیا ہے۔ اس کے باعث پاکستان کے مختلف صوبوں میں لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں، یہ ہلاکتیں چونکہ معنویت اور خلوص کی تھیں، اس لئے کئی مریضوں کو پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ انسانی دلوں اور ضمیر کی موت کا باعث بننے والا یہ جراثیم اہمیت اور کریڈٹ سے مرکب ہے، بدقسمتی سے جب اہمیت اور کریڈٹ کا یہ جرثومہ کچھ افراد کو لگ جائے تو پھر متعدی مرض ہونے کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں بستیوں کی بستیاں اس کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ ایسے میں اگر خواص اس مرض کی روک تھام نہ کریں تو اس کا فوری نقصان ملی و قومی  ساکھ اور ورثے کو پہنچتا ہے۔

یہ دنیا کا وہ مہلک ترین وائرس ہے، جو کرونا سے زیادہ خطرناک اور ایڈز سے زیادہ شرمناک ہے۔ لیکن چونکہ دکھائی نہیں دیتا، اس لئے بڑی آسانی سے منتقل ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا سے پتہ چل رہا ہے کہ اب یہ وائرس کوہالہ پُل عبور کرکے آزاد کشمیر میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر کی شیعہ کمیونٹی اس کی زد میں ہے۔ راقم الحروف کا قلمی ریکارڈ اس پر شاہد ہے کہ اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راقم الحروف نے کبھی آزاد کشمیر کے اہلِ تشیع کے داخلی مسائل پر قلم نہیں اٹھایا۔ تاہم اب حالات متقاضی ہیں کہ اپنی جنم بھومی کی خبر لی جائے اور متاثرین کو خطرات سے آگاہ کیا جائے۔

متاثرہ علاقے کے احباب سے یہی گزارش ہے کہ قومی ورثہ، ملی تنظمیں، ممتاز دانشور، مرکزی ادارے اور معاملہ فہم شخصیات بڑی مشکل سے وجود میں آتی ہیں۔ ان کی تشکیل میں زمانے لگتے ہیں، لیکن ان کی تخریب بہت جلد ہو جاتی ہے۔ ان  سے اختلاف اس بات پر نہیں ہونا چاہیئے کہ فلاں  شخص یا ادارے نے ہمیں اہمیت نہیں دی، یا فلاں آدمی سارا کریڈٹ لے رہا ہے یا فلاں ہمارے خاندان کا نہیں اور یا پھر اگر ہمیں فلاں ادارے یا تنظیم میں کوئی پوسٹ نہ ملی تو اس سے ہمارا یا ہمارے خاندان کا وقار کم ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ اس زاویئے سے بھی مخالفت مذموم ہے کہ فلاں کو کیوں ہم پر ترجیح دی گئی۔

اپنے ارتقاء اور رشد کے مراحل میں اداروں کے اندر مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں، ان مسائل کو اداروں کے اندر ہی حل ہونا چاہیئے۔ جو لوگ کسی بھی ادارے سے مربوط ہوں اور وہ اندر کے مسائل کو عوام اور سوشل میڈیا پر لائیں تو وہ یقیناً اپنی اپنی کم فہمی کے باعث ذاتی رنجشیں مٹانے یا پھر کسی انتقام  کے چکر میں ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کمزور سے کمزور قومی ادارے بھی کسی شخص یا خاندان کی مضبوط سے مضبوط چودھراہٹ سے بہتر ہوتے ہیں۔ مسائل کی شنوائی اداروں کے اندر ہی ہونی چاہیئے اور اداروں کو ہی مسائل حل کرنے چاہیئے۔ اداروں کے فیصلے ہمیں ناگوار بھی گزریں اور ہمارے نزدیک ناپسندیدہ بھی ہوں تو پھر بھی ہمیں سوشل میڈیا اور گلی کوچے کے بجائے مربوط اداروں کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیئے۔

ہم اداروں کی قانونی اور اخلاقی فصیل کو پھلانگ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی مدح سرائی تو کرسکتے ہیں، قومی ورثے اور ملی مفادات کو نقصان تو پہنچا سکتے ہیں، قوم میں انتشار تو ایجاد کرسکتے ہیں، لیکن کوئی قومی خدمت انجام نہیں دے سکتے۔ نہایت ادب و احترام کے ساتھ خواص کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ جو اقوام اپنی ہی فصیلوں کو روند دیتی ہیں، اُن کے دروازے توڑ کر انہیں گھروں میں گھس کر مارا جاتا ہے۔ لہذا سوشل میڈیا کے سورماوں کو اپنے اداروں کی فصیلیں پھلانگنے سے روکئے اور اپنے اندر کے مسائل کو اندرونِ خانہ افہام و تفہیم سے حل کیجئے۔ لڑائی کہاں نہیں ہوتی، لیکن جب نادان لڑتے ہیں تو وہ دشمنی اور غصے میں سارے گھر، جائیداد اور ورثے کو ہی نیلام کر دیتے ہیں اور یا پھر آگ لگا دیتے ہیں، نقصان الگ اور جگ ہنسائی الگ ہوتی ہے۔

لیکن جب دانا اختلاف کرتے ہیں تو حق پر ہونے کے باوجود بھی دانا تر شخص وقتی طور پر عقب نشینی کر لیتا ہے کہ وقتی طور پر یہ  فتنہ و فساد ختم ہو جائے، یہ مشترکہ میراث بچ جائے، اگر یہ میراث اور جائیداد بچ گئی تو میں پھر کسی مناسب وقت میں اقدام کروں گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ عظیم ہدف اور عالی مشن کی کامیابی اور جیت ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر نہیں ہوتی، کبھی صلح کرنی پڑتی ہے، کبھی عقب نشینی کرنی پڑتی ہے، کبھی سر کٹوانا پڑتا ہے اور کبھی ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ اہمیت اور کریڈٹ کی ہوس نے ہمیں ڈنکے کی چوٹ پر فتح کے جنون میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس جنون کا صرف ایک ہی علاج ہے اور اس جراثیم کا صرف ایک ہی درمان ہے کہ اپنے نام، خاندان، قبیلے، قوم، ادارے، پارٹی اور اشخاص کے بجائے صرف خدا کیلئے افعال انجام دیئے جائیں اور ہر کام کو اس کے متعلقہ  اداروں اور اس کے اہل کے سپرد کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 879393
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش