0
Monday 10 Aug 2020 14:33

بیروت دھماکے۔۔۔۔۔ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

بیروت دھماکے۔۔۔۔۔ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
تحریر: نصرت علی شہانی

دنیا بھر کے انسان دوست بیروت دھماکوں پر دکھ کا اظہار کر رہے ہیں، جبکہ اوریا مقبول نے 8 اگست کے روزنامہ 92 میں حزب اللہ لبنان سے دیرینہ بغض و عناد کا ایک بار پھر بھونڈے انداز میں اظھار کرکے امریکہ و اسرائیل کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ اس سانحہ میں کسی طرح حزب اللہ یا ایران کو ملوث قرار دیا جائے مگر:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔
چنانچہ کچھ نہ بن پڑا ہے تو 2006ء کی 34 روزہ لبنان، اسرائیل جنگ میں حزب اللہ کی فتح مبین کی تحسین کی بجائے تنقیص کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بڑھاپے کے باوجود یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ حزب اللہ کے ہاتھوں ایک بھی اسرائیلی سپاہی واصل جہنم نہیں ہوا۔ مذکورہ جنگ میں اپنی شکست فاش اور شدید جانی نقصان پر اسرائیل اب تک مار دم بریدہ کی طرح تلملا رہا ہے، لیکن یہ صاحب اسرائیل کے صدمے کو کم کرنے کے لیے بضد ہیں کہ "آپ کا ایک بھی نہیں مرا۔"

مذکورہ کالم میں بیروت دھماکوں سے قطعی طور پر بے ربط ایک اور جھوٹے الزام میں اوریا نے عراق و شام میں حزب اللہ مجاہدین کے ہاتھوں داعشی درندوں اور ان کے حامیوں کے عبرتناک انجام کے بارے میں بھی مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ حزب اللہ دشمنی میں اوریا مقبول نے قرآنی حکم کو بھی نظر انداز کر دیا، جس میں دہشتگردوں، مفسدین کو اذیت ناک موت سے ہم کنار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شام و عراق کے مسلمان تو ان دہشتگردوں کا صفایا کرنے پر حزب اللہ اور دیگر مجاہدین کے شکر گزار ہیں، لیکن داعش کی سرپرست طاقتوں کی طرح جناب اوریا مقبول تاحال احساس شکست سے نڈھال الٹے سیدھے الزامات لگا رے ہیں۔

لبنان کے حزب اللہ کے ہاتھوں "یرغمال" بننے کا دکھ بھی فقط کالم نگار اور ان کے ہم خیالوں کو ہے، ورنہ اصل سٹیک ہولڈرز یعنی لبنانی سنی، شیعہ، عیسائی عوام، سیاستدان و دیگر طبقات نے کبھی ایسی بات نہیں کی۔ اگر اوریا کے الزام میں ذرا بھی صداقت ہوتی تو اہل لبنان ضرور اظہار کرتے اور مغربی میڈیا تو اس حوالے سے رائی کا پہاڑ بنانے کے لیے بے تاب ہے۔ لبنان کے لوگ حزب اللہ کے شکر گزار ہیں کہ انہیں اسرائیلی جارحیت سے نجات دی۔ کالم نگار کے برعکس لبنانی سیاست دان اور عوام کو حزب اللہ کے حقیقی مجاہدانہ کردار کا ادراک و اعتراف ہے کہ ان مجاہدوں نے مسلمان تو درکنار کسی بے گناہ غیر مسلم شہری کو کبھی گزند پہنچائی اور نہ ہی کسی دینی مرکز یا عوامی مقام کو نشانہ بنایا۔

لگتا ہے کہ اس کالم میں لکھنے والے کا اصل مقصد بیروت دھماکے نہیں، ایران و حزب اللہ کے خلاف گھسے پٹے پرانے پراپیگنڈہ کے اعادہ کا گناہ بے لذت ہے۔ ورنہ یمن، قطیف، فرقہ واریت کا کوئی سیاق و سباق اس مضمون سے مطابقت نہیں رکھتا۔۔۔۔ اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظھور بارے کیے گئے اظہار کا بھی عنوان سے کوئی تعلق نہیں۔ صاحب مضمون گاہے بگاہے اس طرح کے "دخل در معقولات" کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ فن حدیث فہمی ان کا شعبہ ہی نہیں، ویسے بھی امام مہدی علیہ السلام کے حقیقی پیروکاروں کے خلاف پروپیگنڈہ میں عمر تلف کرنے والے شخص کو اس پاکیزہ کردار کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
خبر کا کوڈ : 879396
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش