1
1
Thursday 13 Aug 2020 02:12

وزیر خارجہ صاحب! استعفیٰ دے ہی دیں

وزیر خارجہ صاحب! استعفیٰ دے ہی دیں
تحریر: نذر حافی

ہمارے وزیر خارجہ بڑے رکھ رکھاو والے آدمی ہیں، مروت میں وہ لوگوں کی جوان بچیوں کے سروں کے بال بھی قینچی سے کاٹ دیتے ہیں، جبکہ دوسری طرف سعودی شاہی خاندان بھی بڑا بامروت ہے، پاکستان پر سعودی عرب کے احسانات کون شمار کرسکتا ہے، پاکستان میں سعودی عرب نے جتنا پیسا لگایا ہے، اس کا حساب و کتاب ہی نہیں۔ حکومتی بینکوں میں جو پیسہ ڈالا وہ الگ ہے اور مساجد و دینی مدارس کو جو پیسہ دیا گیا، وہ اس کے علاوہ ہے۔ ہم سعودی شاہی خاندان کے احسانات کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ دو سال پہلے نڈر اور بہادر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں صاف کہا تھا کہ سرد جنگ کے دوران اتحادیوں کی درخواست پر سعودی عرب نے دنیا کی مساجد میں سرمایہ لگایا اور  وہابیت پھیلائی۔[1] [2][3] [4][5]

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھتے ہیں، ہمیں صرف وہابیت کا پھیلانا نظر آتا ہے، حالانکہ یہ اُس زمانے کی بات ہے کہ جب پاکستان میں آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی اور مہنگائی و بےروزگاری بھی عروج پر تھی، اس مشکل وقت میں سعودی عرب نے ہمارے جوانوں کو جہاد کا روزگار فراہم کیا، بہت زیادہ جوان جہادی کیمپوں میں داخل ہوگئے، جس سے ان کے غریب والدین کا مالی بوجھ کم ہوگیا، علاوہ ازیں ان مجاہد جوانوں نے جو ٹارگٹ کلنگ اور خودکُش دھماکوں کا بازار گرم کیا تو اس کا بھی سارا فائدہ پاکستان کو پہنچا، چونکہ اس طرح پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سامنے ایک بند باندھا گیا، موت تو ویسے بھی سب کو آنی ہے، کوئی آج مرے گا تو کوئی کل، لہذا بروقت اسی ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو ٹھکانے لگا کر  پاکستان میں آبادی کے دباو کو کم کیا گیا۔

یہ کوئی سعودی حکومت نے اکیلے نہیں کیا تھا، اس منصوبے  میں پاکستان اور امریکہ و یورپ کے بڑے بڑے دماغ شریک تھے، سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری سے معیشت اور آبادی پر جو اثرات مرتب ہوئے، وہ بڑے گہرے اور دیرپا ہیں۔ سعودی عرب پر تنقید کرنے والوں پر مجھے تعجب ہوتا ہے، سعودی شاہی خاندان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مفت میں کسی سے کام نہیں لیتے، کھلا پیسہ دیتے ہیں اور کام لیتے ہیں، وہ باتوں کے بجائے صرف اور صرف کام، کام اور کام کے قائل ہیں، وہ کام کے سلسلے میں کسی قسم کا تکلف نہیں کرتے، ابھی اسی حکومت کے دوران ہی انہوں نے یمن کے مسئلے پر جب ہمارے حکمرانوں کی سستی دیکھی تو ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ پاکستانی ہمارے غلام ہیں،[6]

ہمیں اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیئے، اُن کا یہ بیان حالات و واقعات اور توقعات کے عین مطابق تھا۔ ہمیں بھی سعودی عرب کی اہمیت اور طاقت کو سمجھنا چاہیئے، ملائشیاء سمٹ کے موقع پر ہمارے وزیراعظم نے شرکت کرنی چاہی تو سعودی عرب نے اپنا کہا سچ ثابت کر دکھایا اور ہمارے وزیراعظم کو غلاموں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کر اس کانفرنس میں شریک ہونے سے روک دیا، اب اس پر بعض لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، بھائی جان! ملائیشیاء سمٹ میں جانے سے کیا ہونا تھا، اچھا ہوا جو نہیں گئے، خواہ مخواہ ایک اور سرکاری دورے کے اخراجات کا بوجھ اس نادار قوم پر پڑتا۔ اب ہمارے وزیر خارجہ کو دیکھئے! انہوں نے سعودی عرب کو بھی ایران سمجھ لیا ہے، جو لکھا ہوا دیا گیا، وہی پڑھ کر سنا دیا، پتہ نہیں کہ ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ سعودی عرب بالکل بھی ایران کی طرح نہیں ہے۔

پاکستان میں ایران کے کیڈٹس قتل ہوں، صادق گنجی جیسے سفارتکار مارے جائیں، ایران کے ہم مسلک مارے جائیں، جو مرضی ہے ہو جائے، ایران کو یہ سب سہنا پڑے گا، چونکہ وہ ہمارا برادر ملک ہے، لیکن سعودی عرب کا حساب جدا ہے، سعودی عرب ہمارا برادر ملک نہیں بلکہ ہمارا آقا ہے، آقا کے سامنے رٹی رٹائی تقریریں نہیں چلتیں، وزیر خارجہ کو پتہ نہیں یہ جملہ کس گستاخ نے لکھ کر دیدیا تھا کہ وہ وزیراعظم سے کہیں گے کہ مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے وزراء خارجہ کے اجلاس کو بلائیں،  بھائیو! سادگی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے، ہمارے وزیراعظم تو سعودی عرب کی اجازت کے بغیر کسی کانفرنس میں شرکت تک نہیں کرسکتے، چہ جائیکہ وہ وزراء خارجہ کا اجلاس بلائیں۔

کچھ ہمیں بھی سوچنا چاہیئے، کیا ہم کشمیر کے پانی کیلئے سعودی عرب کے تیل سے منہ موڑ لیں، کشمیر کا نام لے کر سعودی شاہی خاندان کی غیرت کو للکارا گیا ہے۔ اس للکار کی مار تو وزیر خارجہ کو  پڑے گی ہی پڑے گی، ساتھ ہمارے ایٹمی ملک کے وزیراعظم اور صدر کو بھی معافیاں مانگنی پڑیں گی۔ معافی مانگنے کیلئے ایک تو ہمارے سابق آرمی چیف جنرل (ر) وہیں پر موجود ہیں، علامہ طاہر اشرفی صاحب بھی  تشریف لے جا چکے ہیں، اس کے علاوہ منصورہ لاہور سے لے کر دارالعلوم کراچی، دارالعلوم اکوڑہ خٹک، دارالعلوم بنوریہ، دارالعلوم اشرفیہ لاہور اور دارالعلوم دیوبند انڈیا سمیت سب حیاتی و مماتی دن رات شاہی خاندان کی منت سماجت میں مصروف ہیں۔

باقی تو زیادہ خطرے کی بات نہیں، لیکن مشرق وسطیٰ کے ایک اہم جریدے "مڈل ایسٹ مانیٹر" کا کہنا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں سعودی عرب سے گلہ کرنے پر سعودی عرب نے پاکستان کو ادھار تیل کی فراہمی بند اور قرضے کی واپسی کا تقاضا کر دیا ہے۔ موثق قرائن سے لگتا ہے کہ ایک ارب ڈالر چین سے لے کر سعودی عرب کو واپس کر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح امید کی جاتی ہے کہ اگر ہمارے سعودی آقاوں کے مزاج کی سختی اسی طرح قائم رہی تو بقایا دو ارب ڈالر بھی چین سے ہی مانگ تانگ کر شاہی غیض و غضب سے جان چھڑائی جائے گی۔ اب یہ ذرائع ہیں کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتے! ذرائع کے مطابق کل سے یہ خبر گرم ہے کہ سعودی سفیر نے پاکستان کی اعلیٰ سول قیادت اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرکے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے شاہ محمود قریشی کی فوری برطرفی کا مطالبہ کردیا ہے۔

ہمارے نزدیک آقا کے ایک اشارے پر غلام کو جان بھی قربان کر دینی چاہیئے، وزارت کیا چیز ہے! شاہی خاندان کے جاہ و حشم کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کو فرمانبردار غلاموں کی طرح خود ہی وزارت سے مستعفی ہو جانا چاہیئے، ویسے بھی مسئلہ کشمیر پر سفارتکاری کی دنیا میں انہوں نے آج تک جو گُل کھلائے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں، اس طرح چلیں ان کے استعفے سے ہمارے عظیم اور محسن شاہی خاندان کا غصہ تو ٹھنڈا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]https://m.gulf-times.com/story/587537/Saudi-spread-Wahabism-at-the-  request-of-the-West
[2]https://www.moroccoworldnews.com/2018/03/243388/spread-wahhabism-  done-request-west-cold-war-saudi-crown-prince/
[3]https://nation.com.pk/30-Mar-2018/saudi-arabia-spreading-wahabism-at-  west-s-request-crown-prince
[4]https://www.washingtonpost.com/news/worldviews/wp/2017/10/25/saudi-  arabia-vows-to-return-to-moderate-islam-but-critics-wonder-what-it-will-look-like/
[5]https://urdu.geo.tv/latest/182109
[6]https://m.economictimes.com/news/international/world-news/journalist-tweets-saudi-minister-says-pakistanis-are-our-slaves/articleshow/59146021.cms
خبر کا کوڈ : 879942
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سلام
اچھی تحریر, درست زاویہ نظر, شکریہ محترم نذر حافی صاحب۔ سلامت رہیں اللہ نیک توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
ہماری پیشکش