QR CodeQR Code

واقعہ مباہلہ اور مقامِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا

13 Aug 2020 11:58

اسلام ٹائمز: اتنی واشگاف تائید ِایزدی کے باوجود بعض طبقات مباہلہ کے واقعے کے بیان میں من مانی تشریح کرتے ہیں۔ آیت مباہلہ کی من مانی تفسیر کرتے ہیں۔ مباہلہ میں شامل ہستیوں کی عظمت پر اپنی من مانی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔ فضائل سیدہ (س) پر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ سیدہ (س) کی عصمت و طہارت میں علمی اور تاریخی حوالوں کا بہانہ کرکے شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض دریدہ دہن اب مباہلہ کی ملکہ پر غلطی اور خطاء کے الزامات لگا کر جہاں لوگوں کے اذہان مسموم کررہے ہیں بلکہ اپنی جہنم بھی پکی کر رہے ہیں۔


تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان

سادہ اذہان کی اس بات پر حیرت بجا نظر آتی ہے کہ تعریف و توصیف کے ذریعے نہیں بلکہ لعن و نفرین کے ذریعے کسی شخصیت کی صداقت اور حقانیت ثابت کی جائے۔ مذہب کی تاریخ میں ہمیشہ سے یہ طریقہ رائج ہے کہ جب انسانوں کے باہمی معاملات یا تنازعات انسانوں کی اپنی قدرت اور مباحثوں کے ذریعے حل نہیں ہو پاتے تو وہ اس کے لیے اپنے خدا یا اللہ سے رجوع کرتے ہیں اور اسے بطور ثالث اپنے درمیان فیصلے کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ کبھی یہ طریقہ اپنے آپ کو آگ کے حوالے کرنے اور کبھی پانی میں کود جانے، کبھی کسی بلند مقام سے خود کو گرانے، کبھی دعا اور ذکر کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے یا ایک دوسرے پر خدا کی طرف سے عذاب نازل ہونے کی بددعا کرنے کے ذریعے ہوتا ہے۔

قرآن کریم کی سورۃ آل عمران کی آیت ٦١ میں جس مباہلے کا ذکر موجود ہے، اس کا پس منظر بھی موخرالذکر قسم سے ہے۔ لغوی اعتبار سے لفظ مباہلہ ''بہل'' اور "ابتہال'' سے مشتق ہے، جس کا مطلب ایک دوسرے پر لعن و تفرین کرنا، ایک دوسرے کو بددعا دینا یا ایک دوسرے کو برا اور جھوٹا سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اس امر کی تصدیق چاہنا ہے۔ اس آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) کے زمانے میں یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان حضرت موسیٰ، حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ کی نبوت و رسالت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق یا رشتے کے حوالے سے ابحاث جاری تھیں، آئے روز مناظرے ہو رہے تھے۔ جب اسلام نے وسعت اور غلبے کے حصول کی جدوجہد شروع کی تو نجران کا علاقہ بھی اسلام کے دائرہ حکومت و حکمرانی میں آگیا۔ رسول اکرم (ص) نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ کی نبوت و عبدیت اور ابن ِخدا ہونے کے حوالے سے مناظرے فرمائے اور انہیں حقانیت سے روشناس کرایا، لیکن عیسائی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ بالآخر حضور (ص) نے عیسائیوں کی طرف آخری پیغام ارسال فرمایا، جس میں تین شرائط درج تھیں۔ پہلی یہ کہ وہ اسلام قبول کرلیں، دوسری یہ کہ وہ جزیہ ادا کرکے بطور ذمی رہیں۔ تیسری یہ کہ وہ جنگ کے لیے تیار رہیں۔

اس پیغام کے بعد عیسائیوں نے باہمی مشورہ سے ایک وفد حضور اکرم (ص) کی طرف روانہ کیا، جس کی قیادت شرحبیل اور جبار بن فیضی وغیرہ کر رہے تھے۔ اس وفد نے حضور (ص) کے ساتھ حضرت عیسیٰ کی الوہیت پر شدید بحث شروع کر دی اور بات چیلنج تک جا پہنچی تو اسی دوران حضرت جبرائیل (ع) وحی لے کر حضور (ص) کے پاس تشریف لائے، جس میں آیت مباہلہ شامل تھی۔ حضور (ص) نے عیسائیوں کے ساتھ اسی آیت کی روشنی میں مباہلہ کا وقت اور مقام طے فرمایا۔ طے شدہ وقت پر جب آپ (ص) مقام ِ مقررہ پر پہنچے، تو آپ (ص) کے ساتھ حضرت علی (ع)، حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) موجود تھے۔ یہ پانچ مقدس وجود آیت مباہلہ کی مکمل تفسیر لگ رہے تھے۔ انفسنا کے مقام پر امام علی (ع) موجود تھے۔ نسائنا کے مقام پر سیدہ فاطمہ (س) موجود تھیں اور ابنائنا کے مقام پر حضرات ِحسنین (ع) موجود تھے۔

عیسائیوں نے جب ان پانچ ہستیوں کو دیکھا تو سخت پریشانیوں میں آگئے۔ انہیں مباہلہ بھول گیا۔ ایک دوسرے کے چہرے دیکھنے لگ گئے۔ پانچ مقدس ہستیوں کا رعب و دبدبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اس طرح قائم فرمایا کہ ان کے پاس دستبرداری اور شکست کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ عیسائیوں نے ان پانچ ہستیوں میں سے کبھی کسی کو جھوٹ بولتے، غلط بیانی کرتے، کذب و افترا باندھتے حتیٰ کہ معمولی سی غلطی کرتے بھی نہیں دیکھا تھا۔ دوسری جانب حضور اکرم (ص) کا انتخاب بھی دیدنی تھا کہ انہوں اپنے ساتھ ان چار ہستیوں کو منتخب فرما کر لے جانے کا فیصلہ فرمایا۔ مفسرین اس بات پر آج تک حیرت زدہ ہیں کہ آیت مباہلہ میں ابنائنا، نسائنا اور انفسنا کی شکل میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس کا تقاضا تو یہی تھا کہ حضور (ص) تینوں تقاضے پورے کرنے کے لیے کم از کم دو دو یا دو سے زیادہ افراد ساتھ لاتے، لیکن حضور (ص) نے انفسناء کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ایک فرد یعنی اپنے بھائی علی کو ساتھ لائے۔ (جو کہ خود حضور (ص) کی حدیث کے مطابق ان کے نفس ہیں) اور نسائنا کا تقاضا پورا کرنے کے لیے اپنی ازواج یا بقول بعض مکاتب اپنی دیگر بیٹیوں کو لانے کے صرف ایک بیٹی فاطمہ (س) کو ساتھ لائے اور جمع کے صیغے کو اور نسائنا کے تقاضے کو سیدہ فاطمہ (س) کے ذریعے پورا کیا۔

عیسائیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو باہم مشاورت میں مصروف ہوگئے اور کہا کہ اگر یہ محمد (ص) اللہ کے سچے نبی ہوئے (کیونکہ جو قافلہ یہ ساتھ لائے ہیں، اس کی زبان سے اگر ہمارے خلاف ایک لفظ بھی باہر آگیا) تو ہمیں اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ انہوں سے دستبردار ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے۔ مباہلے کی یہ صورت اس سے قبل عرب کی سرزمین پر نہیں دیکھی گئی کہ جس میں اس قدر مختصر قافلہ شامل ہو، لیکن اس قدر پاک اور مقدس ہستیاں شامل ہوں۔ اس سے جہاں ان پانچ ہستیوں کے اپنے اللہ کے ساتھ قرب و تعلق کی حقانیت ثابت ہوتی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پانچ ہستیوں کی سچائی کی تائید ثابت ہوتی ہے۔ ان کی عصمت کی تصدیق ثابت ہوتی ہے۔ ان کی طہارت پر مہر ثابت ہوتی ہے اور انسانوں کو ان کی پیروی، "تقلید"، احترام اور تسلیم کرنے کی تاکید ثابت ہوتی ہے۔

واقعہ مباہلہ یوں تو نبی اکرم (ص) سمیت پانچ ہستیوں کی عظمت و رفعت کی عظیم مثال ہے، لیکن اس میں سیدہ فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کو خاص امتیاز اور مقام حاصل ہے، کیونکہ آپ بظاہر صنفِ نازک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک عورت کو مباہلے جیسے خطرناک مرحلے میں ساتھ لے جانا بہت سارے سوال جنم لیتا ہے، لیکن یہ اللہ کے رسول (ص) کا تنہا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ سارا قافلہ وحی الہیٰ کے تحت تشکیل پایا۔ نبی اکرم (ص) ہمیشہ اللہ کے حکم سے بولتے ہیں، بالخصوص آیاتِ قرآن تو نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہیں، اس کا مصداق وہی سب سے بہتر جان سکتا ہے، جس پر وحی نازل ہوئی ہو۔ حضور (ص) کا تمام عورتوں میں سے صرف سیدہ فاطمہ  کو ہمراہ لے جانا، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عورت کا مصداق ہی فاطمہ (س) ہے، کیونکہ جو فقط جنتی عورتوں کی سردار نہ ہو بلکہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہو، اسے ہی عورتوں کی ترجمانی اور نمائندگی کا حق حاصل ہے۔ جمع کے صیغے کے باوجود حضور (ص) کا صرف ایک عورت کا ساتھ لے جانا بھی اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا حکم اور منشا ہے کہ فاطمہ ہی اس اعزاز کے لائق ہیں کہ وہ ساری عورتوں کے مقام پر اکیلی موجود ہوں۔

اتنی واشگاف تائید ِایزدی کے باوجود بعض طبقات مباہلہ کے واقعے کے بیان میں من مانی تشریح کرتے ہیں۔ آیت مباہلہ کی من مانی تفسیر کرتے ہیں۔ مباہلہ میں شامل ہستیوں کی عظمت پر اپنی من مانی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔ فضائل سیدہ (س) پر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ سیدہ (س) کی عصمت و طہارت میں علمی اور تاریخی حوالوں کا بہانہ کرکے شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض دریدہ دہن اب مباہلہ کی ملکہ پر غلطی اور خطاء کے الزامات لگا کر جہاں لوگوں کے اذہان مسموم کر رہے ہیں، بلکہ اپنی جہنم بھی پکی کر رہے ہیں۔ ہر مسلمان آیتِ مباہلہ پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ مباہلے کے واقعے ہر کامل یقین رکھتا ہے۔ مباہلے میں شامل شخصیات کو مقدس، معصوم، طاہر، مطہر، افضل، اعلیٰ، برتر اور اپنا ملجا و ماویٰ سمجھتا ہے۔ ان پانچوں کی خوشی کو اپنے لئے جنت اور ان پانچوں کی ناراضگی کو اپنے لئے جہنم کا ذریعہ جانتا ہے۔ ان پانچوں پر ایمان لائے بغیر کوئی مومن نہیں بن سکتا۔ ان پانچوں کے لیے اپنا جان و مال و عزت و آبرو قربان کرنے میں سعادت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مباہلہ والوں کے دامن کی پناہ میں رکھے اور ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔(آمین)


خبر کا کوڈ: 879987

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/879987/واقعہ-مباہلہ-اور-مقام-سیدہ-فاطمہ-سلام-اللہ-علیہا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org