QR CodeQR Code

معاہدہ درین سے اسرائیل کو تسلیم کرنے تک

14 Aug 2020 18:30

اسلام ٹائمز: اردن، مصر، سعودیہ، عمان، بحرین اور مغربی ممالک اس معاہدے پر بغلیں بجا رہے ہیں، تاہم فلسطینی مجاہدین اور شہداء کی روحیں اپنی قبروں مین بھی تڑپ رہی ہیں کہ اے امت مسلمہ کیا طاقتور دشمن کے مقابلے اپنے بھائیوں کو تنہا چھوڑ کر دشمن کی صفوں میں شامل ہو جانا ہی اسلام ہے۔ بہرحال عرب امارات کا یہ شرمناک اقدام تاریخ حریت میں ہمیشہ ایک بدنما داغ کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ اللہ کریم مسلمانوں کو دوست دشمن کی پہچان عطا فرمائے اور ہمیں دولت کے بدلے اپنے ایمان کی خرید و فروخت سے محفوظ فرمائے۔ اللہ کریم فلسطین، کشمیر، افغانستان، یمن، شام اور لیبیا کے مسلمانوں کو دشمنون کیساتھ ساتھ دوست کے روپ مین چھپے بیٹھے دشمن کے شر سے محفوظ فرمائے، آمین۔


تحریر: سید اسد عباس

1902ء میں عبد العزیز نے ریاض کے گورنر کو ایک چھاپہ مار کارروائی میں قتل کرکے ریاض پر قبضہ کر لیا اور امیر نجد و امام تحریک اسلامی کا خطاب اختیار کیا۔ یہ وہ دور ہے، جب برطانیہ ترکوں کے خلاف رزم آراء تھا، ترک برطانوی حملوں کے سبب اپنے اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ نہ دے سکتے تھے۔ 1915ء میں آل سعود کے تیسرے دور حکومت کے موسس شاہ عبد العزیز نے برطانیہ کے ساتھ معاہدہ درین کیا، جو کہ تاروت جزیرے کے علاقے درین میں ہوا۔ اس معاہدے پر ملکہ تاج کی جانب سے سر پرسی کاکس نے دستخط کیے۔ معاہدے کے رو سے آل سعود کی حکومت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے یقین دہانی لی گئی کہ وہ قطر، کویت اور اتحادی ریاستوں یعنی عرب امارات کے شیخوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ ان شیخوں کے ساتھ برطانیہ نے 1820ء سے 1892ء تک مختلف معاہدے کیے۔ یہ خلیج پہلے تاج برطانیہ کے نزدیک Pirate Coast کے نام سے جانی جاتی تھی، جہاں عرب قبائل کے بحری قزاق سمندر میں ڈاکے ڈالا کرتے تھے۔ درین معاہدے میں یہ طے پایا کہ آل سعود عثمانی سلطنت کے خلاف تاج برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔ معاہدے کے رو سے بیرونی حملے کی صورت میں آل سعود کو برطانوی اعانت کی یقین دہانی کروائی گئی۔

اس کے عوض ابن سعود نے تسلیم کیا کہ وہ اپنا علاقہ یا اس کا کچھ ظاہری حصہ برطانیہ کی مرضی کے بغیر کسی طاقت کے حوالے نہ کریں گے۔ طے پایا کہ آل سعود اپنے علاقے میں حاجیوں کے قافلے کے راستے کھلے رکھیں گے۔ برطانیہ سے اس معاہدے کے عوض آل سعود کو ساٹھ ہزار پونڈ سالانہ امداد ملنے لگی، جو بعد میں بڑھ کر ایک لاکھ پونڈ ہوگئی۔ علاوہ ازیں برطانیہ کی جانب سے شاہ عبدالعزیز کو تین ہزار رائفلیں اور تین مشین گنیں بھی تحفے میں ملیں۔ تاج برطانیہ کی یہ سب کاوشیں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے لیے تھیں، جو اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود مسلمانوں کی وحدت کا ایک نشان تھی اور جس کی موجودگی میں کم از کم بیت المقدس پر قبضہ ممکن نہیں تھا۔ برطانیہ کی مسلم وسائل کو ہتھیانے کی خواہش اپنی جگہ، اس مہم کے پس پردہ صیہونی لابی کا کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ پراجیکٹ اسرائیل کے قیام کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، جس میں خادم الحرمین سمیت قزاقوں کی بندرگاہ کے تمام شیخ برطانیہ کے اتحادی تھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنی ہوس اقتدار کے سبب یا بے وقوفی کے طفیل ان لوگوں کا اسرائیل کے قیام میں کلیدی کردار ہے۔

پھر وقت گذرا اور حالات بدلتے گئے، دولت کی ریل پیل اور مذہبی بیانیہ کے بل بوتے پر یہ بحری قزاق اور برطانیہ کے اتحادی مسلم امہ کے قائدین بن بیٹھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو روز اول سے ہی ان کی حرکات پر شک رہا، اسی لیے تحریک خلافت کے قائدین کا ایک وفد حرمین شریفین کے تحفظ اور اس کے انتظام و انصرام کے بارے گفت و شنید کے لیے عازم حجاز ہوا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، سید سلمان ندوی کی قیادت میں حجاز جانے والے اس وفد کو جلد ہی حجاز سے روانہ کر دیا گیا۔ موتمر عالم اسلامی کا خواب، ایک سراب بن گیا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس وفد کے افراد پر حجاز پر قبضے کا الزام دھر دیا گیا۔ آج ٹھیک ایک سو برس کے بعد عرب امارات کے شیخوں نے اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اس کے ناجائز وجود کو ایک ریاست کے طور پر قبول کر لیا ہے، برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی اور یہ شیخ امریکہ اور اسرائیل کے ایک مرتبہ پھر اتحادی قرار پائے۔

قصور ان شیخوں کا نہیں ہے، وہ تو اپنی آبائی روش پر گامزن ہین۔ ان کے مدنظر اپنا اقتدار، اپنی بہتری ہے، امت، مسلمان ایسے لفظوں سے ان کا کیا لینا دینا۔ انسان اگر انصاف کی نظر سے ان تمام تاریخی حقائق کو دیکھے اور ان شیخوں کی جانب سے اسلام کے نام پر ملنے والی مدد پر کچھ لمحوں کے لیے غور کرے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کا پرچم اٹھا کر کس لشکر میں کھڑا ہوا ہے۔ دھوکہ، فریب، جھوٹ کے سوا ان شیخوں کی حکومتیں کچھ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ امت مسلمہ کیا سمجھتی ہے کہ عرب امارات نے اتنا بڑا اقدام ہمسائیوں سے مشورہ کیے بغیر اٹھایا ہوگا۔ اگر قطر اپنی آزاد خارجہ پالیسی رکھنے کے جرم میں برسوں پابندیوں کا سامنا کرسکتا ہے تو کیا عرب امارات کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین معاہدہ واقعاً فلسطینی کاز کی ییٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ان کے تعلقات پوشیدہ رہتے تو شاید شرم اور حیا کا رشتہ باقی رہتا، لیکن ان شیخوں نے اپنے مالی مفادات کے لیے اس شرم و حیا کو اتار پھینکا۔

انسان اس اقدام پر جس قدر افسوس کرے کم ہے۔ عرب امارات وہ تیسری عرب ریاست ہے، جس نے اسرائیل کے وجود کو کھلم کھلا قبول کیا ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردغان کا کہنا ہے کہ عرب امارات کا یہ اقدام منافقانہ ہے، جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، طیب بھائی آپ کس کام کو منافقت کہہ رہے ہیں، اسرائیل کے وجود کو قبول کرنا یا  اسرائیلی سفارت خانے کھولنا۔ ترکی بہت عرصہ قبل اس منافقت کا مرتکب ہوچکا ہے اور آپ اب تک اس منافقت کے داغ کو اتارنے سے قاصر ہیں۔ صدر ٹرمپ، بنیامین نتن یاہو اور ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گا۔

اردن، مصر، سعودیہ، عمان، بحرین اور مغربی ممالک اس معاہدے پر بغلیں بجا رہے ہیں، تاہم فلسطینی مجاہدین اور شہداء کی روحیں اپنی قبروں مین بھی تڑپ رہی ہیں کہ اے امت مسلمہ کیا طاقتور دشمن کے مقابلے اپنے بھائیوں کو تنہا چھوڑ کر دشمن کی صفوں میں شامل ہو جانا ہی اسلام ہے۔ بہرحال عرب امارات کا یہ شرمناک اقدام تاریخ حریت میں ہمیشہ ایک بدنما داغ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اللہ کریم مسلمانوں کو دوست دشمن کی پہچان عطا فرمائے اور ہمیں دولت کے بدلے اپنے ایمان کی خرید و فروخت سے محفوظ فرمائے۔ اللہ کریم فلسطین، کشمیر، افغانستان، یمن، شام اور لیبیا کے مسلمانوں کو دشمنون کے ساتھ ساتھ دوست کے روپ مین چھپے بیٹھے دشمن کے شر سے محفوظ فرمائے، آمین۔


خبر کا کوڈ: 880265

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/880265/معاہدہ-درین-سے-اسرائیل-کو-تسلیم-کرنے-تک

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org