8
Sunday 16 Aug 2020 15:31

سانحہ بیروت اور حزب اللہ لبنان کیخلاف سازش کا پس منظر

سانحہ بیروت اور حزب اللہ لبنان کیخلاف سازش کا پس منظر
تحریر: محمد سلمان مہدی

حزب اللہ لبنان کے خلاف سازش کا پس منظر جاننے کے لیے ہمیں سازشی مفروضوں کی بجائے واقعیت و حقیقت جاننے کی ضرورت ہے اور واقعیت و حقیقت کو مستند ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں ہی سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں ہونے والے متعدد واقعات کی مستند تاریخ ہمیشہ زندہ مثال کے طور پر ہر دور میں موجود رہی ہے، لیکن اس تحریر میں ڈھیر ساری مثالوں کی بجائے پاکستان، لتھوانیا اور بیلاروس سے لبنان کے حالیہ واقعات کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ تین چار ملک زایونسٹ امریکی مغربی سعودی اماراتی بلاک کی مشترکہ سازش کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے آسان مثال کے طور پر موجود ہیں۔ باوجود این کہ بیلاروس مشرقی یورپی ملک ہے لیکن یہ یورپی یونین کا رکن ملک نہیں ہے۔ لتھوانیا، یورپی یونین کا رکن ملک ہے۔ لبنان عرب لیگ اور او آئی سی کا رکن ملک ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ لتھوانیا باقاعدہ نیٹو فوجی اتحاد میں امریکی مغربی اتحادی ملک ہے جبکہ روس اور بیلاروس دونوں ہی نیٹو کے رکن نہ ہونے کے باوجود شراکت دار ہیں۔ اس شراکت داری کے ہوتے ہوئے بھی زایونسٹ امریکی مغربی سعودی اماراتی بلاک بیلاروس کو مکمل طور پر مطیع بنانے کے لیے ایک طویل عرصے سے کوشاں رہا ہے اور اس کے لئے وہ بیلاروس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا آیا ہے۔

لبنان اور عراق سمیت دنیا بھر میں جب نام نہاد ایکٹیوسٹ جمہوریت کی حمایت کی آڑ لے کر احتجاج کرتے ہیں تو لتھوانیا اور بیلاروس کی یاد آجاتی ہے۔ سال 2011ء میں جب ہیلری کلنٹن امریکا کی وزیر خارجہ تھیں، تب انکی قیادت میں لتھوانیا کو بیلاروس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والوں کا تربیتی مرکز بنایا گیا۔ خود ہیلری کلنٹن صاحبہ نے اس کی حقیقت بیان کی۔ ہوا یوں کہ سال 2014ء میں ان کی یادداشتیں کتابی صورت میں ہارڈ چوائسز کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ اس کتاب کے 25 ابواب کو 6 حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ آخری حصے کا عنوان ہے ”مستقبل جو ہم چاہتے ہیں۔“ اس میں چوبیسویں باب کا عنوان ہے، اکیسویں صدی (میں) ریاست کاری،  نیٹ ورکڈ دنیا میں ڈیجیٹل سفارتکاری۔ اس چوبیسویں باب میں ہیلری کلنٹن نے لکھا کہ جون 2011ء میں امریکی وزارت خارجہ (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے لتھوانیا میں ٹیک کیمپ کے عنوان سے تربیتی نشست کا اہتمام کیا اور اس میں محض بیلاروس ہی نہیں بلکہ کئی خطوں سے سول سوسائٹی گروہوں کو مدعو کرکے جمع کیا گیا تھا۔ اس میں بیلاروس کی حکومت کے خلاف خاص طور پر حکومت مخالف بیلاروسی ایکٹیوسٹ خواتین کا تذکرہ بھی شامل ہے۔

اس امریکی ٹیک کیمپ میں دو دن گیارہ گیارہ گھنٹوں کی تربیتی نشستیں ہوئیں۔ لتھوانیا کے اس ٹیک کیمپ میں 18 ممالک سے کم و بیش 80 ایکٹیوسٹ شریک ہوئے۔ وہاں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) سے منسلک ماہرین کی ٹیم نے انہیں سکھایا کہ کس طرح وہ اپنے اپنے ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کو خفیہ انداز میں ریاست کے خلاف ان سے چھپ کر استعمال کرسکتے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے خود بیان کیا کہ وہاں انہوں نے ٹوئٹر، فیس بک، مائیکروسافٹ اور اسکائپ کے ایگزیکیٹوز کو بھی اس مقصد کے لیے وہاں رکھا ہوا تھا۔ امریکی سرپرستی میں ہونے والی اس تربیتی نشست میں شام کے صدر بشار الاسد سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی جانب سے آزاد و خود مختار ممالک میں غیر قانونی مداخلت کی تاریخ سے جو آگاہ ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ لتھوانیا نہ وہ پہلا ملک تھا اور نہ ہی آخری، جہاں اس نوعیت کے امریکی پراکسی ایکٹیوسٹ تیار کیے گئے۔

پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی امریکا نے اسی نوعیت کی سازش کی۔ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنی خود نوشت  ”دختر مشرق“ میں بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) کی ہڑتالوں سے متعلق بھی لکھا ہے۔ اس خود نوشت ڈاٹر آف دی ایسٹ کے چوتھے باب میں انہوں نے ٹرک ڈرائیورز کی ہڑتال کو چلی جیسی صورتحال کے مشابہ پایا۔ انہوں نے لکھا کہ چلی میں صدر ایلینڈ اور ان کی منتخب جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لئے امریکی ادارے سی آئی اے نے فوجی بغاوت کروائی۔ اسی طرح اس دور میں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکی سفارتکاروں اور پی این اے رہنماؤں کے مابین ملاقاتیں ہو رہیں تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے لکھا کہ جب ان کے والد اقتدار میں آئے تو انہیں پتہ چلا کہ امریکا نے 1958ء میں پاکستان آرمی کو انتہائی خفیہ مشقوں کے ذریعے یہ ہنر سکھایا تھا، یعنی ہڑتالوں کے ذریعے حکومت کو جام کر دینا اور اس مشق کا نام تھا آپریشن وھیل جام اسٹرائیک، یعنی پہیہ جام ہڑتال۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ 1976ء کے موسم گرما میں ہنری کسنجر نے انتہائی درشت اور متکبرانہ انداز میں بھٹو کو فرانس سے نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ معاہدے سے باز رہنے کی تاکید کی۔ نہ ماننے کی صورت میں بھٹو کو (عبرت کی) مثال بنا دینے کی دھمکی دی تھی۔ ہنری کسنجر کا دعویٰ تھا کہ اس نے ایک خیر خواہ کے طور پر متنبہ کیا تھا جبکہ بھٹو نے بے نظیر کو بتایا تھا کہ ہنری کسنجر نے متکبرانہ اور درشت انداز میں یہ کہا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے الفاظ میں ہنری کسنجر نے بھٹو سے کہا تھا:Reconsider the agreement with France or risk being made into a 'horrible example
.'

واپس پلٹتے ہیں ماضی بعید سے ماضی قریب کی جانب۔ ہوا یوں کہ سال 2004ء میں شام کے صدر بشار الاسد کو زایونسٹ امریکی مغربی سعودی اماراتی بلاک نے پیغام بھجوایا کہ فلسطین و لبنان کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت کرنے والی تحریکوں کی حمایت ترک کر دیں تو اس کے بدلے میں بشار الاسد کی شامی حکومت کے ساتھ امریکی بلاک اپنے تعلقات بہتر کر لے گا اور شام کی لبنان میں موجودگی پر اعتراض نہیں کرے گا۔ بشار الاسد حکومت نے یہ شرط نہیں مانی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رفیق حریری کو اسرائیل نے شہید کروایا اور اس کا الزام شام پر لگایا اور بعد میں حزب اللہ پر یہی الزام لگا دیا اور اس کے بعد سے مقبوضہ عرب سرزمین کی آزادی کے حصول کے لئے کوشاں اسلامی و عرب تحریکوں اور ان کے اتحادی ممالک کے خلاف زایونسٹ امریکی مغربی سعودی اماراتی بلاک نے مسلسل ایک کے بعد ایک سازش شروع کی۔

ماضی قریب سے حال میں پلٹتے ہیں تو لبنان کے ایک اخبار الجمھوریہ کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس کے توسط سے زایونسٹ امریکی مغربی سعودی اماراتی بلاک نے حزب اللہ لبنان کو پیغام بھیجا کہ اگر حزب اللہ لبنان، زایونسٹ امریکی مغربی سعودی اماراتی بلاک کی شرائط مان لے تو رفیق حریری قتل کیس میں اسپیشل ٹریبونل فار لبنان کا فیصلہ حزب اللہ کے خلاف نہیں آئے گا۔ حزب اللہ لبنان کے سامنے جو شرائط رکھیں گئیں وہ یہ تھیں: حزب اللہ لبنان (مختلف ایشوز پر) اپنے موقف میں نرمی لائے اور خلیجی عرب ممالک (علی الاخص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ) کے خلاف میڈیا مہم ختم کرے۔ کہا گیا کہ بدلے میں حزب اللہ لبنان کی مخالف علاقائی طاقتیں بھاء حریری پر سرمایہ کاری ترک کر دیں گی۔ یہ خبر 3 اگست 2020ء بروز پیر شایع ہوئی اور منگل چار اگست 2020ء کو بیروت کی بندرگاہ پر دھماکہ کروا دیا گیا۔ گو کہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے الجمھوریہ کی اس خبر پر ردعمل سامنے نہیں آیا تھا، لیکن غالب امکان یہی ہے کہ حزب اللہ لبنان کو اگر ایسی کوئی پیشکش کی گئی ہوگی تو اسے ماننے سے صاف انکار کر دیا ہوگا۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ فرض کریں، الجمھوریہ کی خبر اس حد تک درست ہو کہ فرانس کے توسط سے ایسا کہا گیا ہو، لیکن یہاں یہ حقیقت یاد رہے کہ حزب اللہ لبنان کی ایک منتخب نمائندہ سیاسی جماعت بھی ہے اور ساتھ ہی مقبوضہ لبنانی علاقے سے اسرائیل کا ناجائز اور غیر قانونی قبضہ آزاد کرانے کی مسلح مزاحمتی تحریک بھی ہے۔ اس مسئلے کا دوسرا فریق اسرائیل ہے، جو پورے لبنان کا قومی مجرم ہے، کیونکہ لبنان پر غیر قانونی قابض ہے۔ تو اصل معاملہ یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان سے فرانس کے توسط سے سوائے اس کے کیا کہا گیا ہوگا کہ اسرائیل کے حوالے سے سخت موقف میں نرمی لائے اور حزب اللہ نے اس سے انکار کیا ہوگا۔ لیکن یہاں عرب اور مسلمان خلیجی عرب ممالک سے یہ تو پوچھیں کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف وہ کیوں مختلف گروہوں اور شخصیات پر سرمایہ کاری کرتے آرہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان تو خود عربوں کے مشترکہ کاز کا دفاع کر رہے ہیں۔ لبنان عرب ملک ہے، فلسطین عرب ہے اور شام عرب ملک ہے۔ عرب لیگ، جی سی سی اور او آئی سی کے یہ بڑے مالدار عرب ملک سعودیہ اور امارات کو تو عرب ملکوں کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی تحریک چلانے والی حزب اللہ لبنان کا ساتھ دینا چاہیئے تھا۔ وہ کس خوشی میں اسرائیل کے ساتھ جا ملے ہیں!؟ سعودی و اماراتی و بحرینی و عمانی، اردنی و مصری حکام کو یہ بھی یاد دلادیا جائے کہ عرب لیگ، جی سی سی اور او آئی سی پر خود پر فرض ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مشروط مدد اور تعاون فراہم کرے، کیونکہ عرب کاز کے لئے بین الاقوامی سطح پر یہ فورم خود سعودی، مصری، اماراتی اور دیگر امریکی اتحادی عرب ممالک ہی نے قائم کیے تھے۔
خبر کا کوڈ : 880655
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش